اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اگرچہ 1945ء کے بعد سے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بنیادی حکمرانی کا طریقہ کار جو قومی مفادات پر مرکوز ہے، زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار طویل مدتی استحکام کیلئے پائیدار ماڈل فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور روس کی ارتقائی مشغولیت کے طریقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمرانی کے ایک متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے، جو انسان پر مرکوز ترقی، منصفانہ عالمی پالیسیوں اور ایسے جامع کثیر الجہتی اصولوں کو ترجیح دے، جو ابھرتی ہوئی طاقتوں اور مختلف علاقائی مفادات کو جگہ دے سکے۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی نظام میں رونماء ہوتی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے لیے ایک مستعد اور عملی کثیر جہتی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے، تاکہ عالمی و علاقائی تعلقات میں توازن قائم کیا جا سکے اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا جا سکے۔ ایسی حکمتِ عملی ملک میں داخلی سطح پر توازن کے ساتھ مل کر نہ صرف روس جیسے طاقتور ممالک کے ساتھ تعاون کو قابلِ عمل بنائے گی، بلکہ ایسے دیگر مواقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں حائل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگی۔ تاہم اس سے ایک ایسے شمولیت پسند عالمی نظام کی ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے، جو نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں اور متنوع علاقائی مفادات کو مدِنظر رکھ کر اس کی جگہ پیدا کرسکے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ہونے والے ایک ہائبریڈ سیمینار بعنوان "بدلتے ہوئے عالمی نظام میں پاکستان اور روس کے تعلقات" کے دوران کیا گیا، جو کہ پہلی پاکستان-روس بین الاقوامی کانفرنس کے ایک حصّے کے طور پر روس کی کازان فیڈرل یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا تھا۔

پشاور یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فخر الاسلام کی زیرِ صدارت ہونے والے اس سیشن سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق سفیر سیّد ابرار حسین، بحریہ یونیورسٹی کی فیکلٹیی آف ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود، نسٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹیی کے سابق ڈین بریگیڈئیر (ر) طغرل یمین، بحریہ ہونیورسٹی اسلام آباد کی سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجیک اسٹڈیز اسلام آباد کے ریسرچ ایسوسی ایٹ تیمور فہد خان نے خطاب کیا۔ اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود نے کہا کہ عالمی طاقت اور اسٹریٹجک اتحادوں میں تبدیلی دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی ممالک کے لیے اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کے مختلف مواقع پیدا کرتی ہے اور علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

تاہم، یہ سب صرف پاکستان کے لیے کثیر جہتی خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس حکمت عملی کے تحت مستقل خارجہ تعلقات کے لیے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو ترجیح دینی چاہیئے۔ اس تناظر میں یہ روس کے ساتھ دفاعی تعاون، پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن جیسی شراکت داری، روس کے خام تیل کی رعائیتی درآمدات اور تجارت، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے میدانوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ  بھی ٹرانز افغان ریلوے اور نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور جیسے سہ فریقی منصوبوں کے قابلِ عمل مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس ارتقائی منظرنامے کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جن میں روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات، مشترکہ منصوبوں پر پابندیاں، کم دوطرفہ تجارت، محدود عوامی رابطے، دہشت گردی، انرجی سکیورٹی اور جیوپولیٹیکل صف بندیاں شامل ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) تغرل یمین نے کہا کہ سپلائی چین میں خلل، گندم، خوردنی تیل اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، دفاعی معاہدوں کا معطل ہونا اور روس-یوکرین جنگ کے بعد جیوپولیٹیکل دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات یوکرین کے ساتھ متاثر ہوئے۔ تاہم، پاکستان نے اپنی وسیع تر ملٹی ویکٹر خارجہ پالیسی کے تحت ایک عملی حکمت عملی اپنائی، جس میں وہ اپنے درآمدات میں تنوع لایا، گندم کی فراہمی کے لیے روس اور قازقستان کی طرف رجوع کیا اور روس اور یوکرین کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی سفارتی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دیا، جس نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹتے ہوئے اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرنے میں مدد دی۔ اس بات کی حمایت کرتے ہوئے ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی نے کہا کہ پاکستان اور روس مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایس سی او، بریکس اور اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے، اسٹریٹجک خود مختاری میں اضافہ ہوگا، اتحادیوں میں تنوع آئے گا اور مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔

اسی نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے تیمور فہد خان نے کہا کہ پاکستان کی عالمی پوزیشننگ کو مستحکم کرنے کے لیے داخلی چیلنجز کو ترجیح دینا ضروری ہے۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے داخلی سطح پر توازن، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی لچک، سماجی ہم آہنگی، انسانی ترقی اور انفراسٹرکچر کی ترقی شامل ہے، پاکستان کے لیے اہم ہیں۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اگرچہ 1945ء کے بعد سے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بنیادی حکمرانی کا طریقہ کار جو قومی مفادات پر مرکوز ہے، زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار طویل مدتی استحکام کے لیے پائیدار ماڈل فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور روس کی ارتقائی مشغولیت کے طریقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمرانی کے ایک متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے، جو انسان پر مرکوز ترقی، منصفانہ عالمی پالیسیوں اور ایسے جامع کثیر الجہتی اصولوں کو ترجیح دے، جو ابھرتی ہوئی طاقتوں اور مختلف علاقائی مفادات کو جگہ دے سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان اور روس عالمی نظام میں میں پاکستان پاکستان کے طریقہ کار مفادات کو نے کہا کہ پر مرکوز کو ترجیح کے ساتھ کے لیے روس کے

پڑھیں:

تہران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ٹیم کے دورہ ایران پر رضامند

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) ایرانی نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے صحافیوں کو بتایا ’’ہم نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ایک تکنیکی وفد کو جلد ہی، تقریباً دو سے تین ہفتوں میں، ایران کے دورے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘‘

یہ بیان اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے گزشتہ ماہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

غریب آبادی نے کہا کہ یہ دورہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ نئے تعلقات کے قیام پر مرکوز ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا ’’یہ وفد ایران اس مقصد سے آ رہا ہے کہ طریقۂ کار پر بات چیت کرے، نہ کہ تنصیبات کے معائنے کے لیے۔‘‘

وہ اقوام متحدہ میں جمعہ کو استنبول میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات سے قبل گفتگو کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

یہ یورپی ممالک ایران پر اس کے مبینہ طور پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے سبب پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

غریب آبادی نے کہا ’’اگر یورپی ممالک پابندیاں عائد کرتے ہیں تو ہم جواب دیں گے، ہم ردعمل دکھائیں گے۔‘‘

ایران کا متنازع جوہری پروگرام

آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم جولائی کے اوائل میں ایران سے واپس ویانا چلی گئی تھی کیونکہ تہران نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا۔

ایران نے جون میں اپنی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملوں کا جزوی الزام آئی اے ای اے پر بھی عائد کیا ہے۔ جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ حملے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے کیے، تاہم تہران بارہا اس مقصد کی تردید کر چکا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔

امریکہ نے بھی 22 جون کو ایران کے فردو، اصفہان اور نطنز میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو ’’کامیاب‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان تنصیبات کو ’’مکمل طور پر تباہ‘‘ کر دیا ہے، تاہم کئی ذرائع ابلاغ میں ایسی خفیہ اطلاعات سامنے آئی ہیں جو اس دعوے کی مکمل تصدیق نہیں کرتی ہیں۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ کی یورپی رہنماؤں سے ملاقات

بدھ کے روز امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی سے متعلق بات کرتے ہوئے غریب آبادی نے کہا ’’جتنا جلد ممکن ہو، اتنا بہتر ہوگا۔

‘‘ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو آئندہ کسی بھی فوجی کارروائی کو قطعی طور پر مسترد کرنا ہوگا۔

غریب آبادی نے کہا کہ وہ جمعہ کے روز استنبول میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ تینوں ممالک، چین اور روس کے ساتھ، 2015 کے جوہری معاہدے کے باقی ماندہ فریق ہیں۔ امریکہ اس معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد پابندیاں ختم کی گئی تھیں، جس کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

تہران اور واشنگٹن کے درمیان رواں سال عمان کی ثالثی میں پانچ دور کے جوہری مذاکرات ہو چکے ہیں۔

غریب آبادی نے کہا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق شفافیت کے اقدامات اور امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہیں۔

دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس ہفتے کہا کہ تہران کا اپنے جوہری پروگرام، بشمول یورینیم افزودگی، کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، باوجود اس کے کہ اس کی تنصیبات کو ’’شدید‘‘ نقصان پہنچا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف علی زرداری سے چینی سفیر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات، علاقائی تعاون پر تبادلہ خیال
  • صدر مملکت آصف علی زرداری سے چین کے سفیر کی ملاقات،دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون پر تبادلہ خیال
  • تہران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ٹیم کے دورہ ایران پر رضامند
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات،علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • سلامتی کونسل میں عالمی امن کیلیے پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور
  • خیبرپختونخوا حکومت کی امن و امان پر آل پارٹیز کانفرنس طلب، تمام سیاسی قوتوں کو دعوت نامے ارسال
  • عالمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی قرارداد سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر منظور
  • ملک میں شدید بارشوں کے پیشِ نظر عوام کیلئے الرٹ جاری