اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اگرچہ 1945ء کے بعد سے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بنیادی حکمرانی کا طریقہ کار جو قومی مفادات پر مرکوز ہے، زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار طویل مدتی استحکام کیلئے پائیدار ماڈل فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور روس کی ارتقائی مشغولیت کے طریقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمرانی کے ایک متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے، جو انسان پر مرکوز ترقی، منصفانہ عالمی پالیسیوں اور ایسے جامع کثیر الجہتی اصولوں کو ترجیح دے، جو ابھرتی ہوئی طاقتوں اور مختلف علاقائی مفادات کو جگہ دے سکے۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی نظام میں رونماء ہوتی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے لیے ایک مستعد اور عملی کثیر جہتی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے، تاکہ عالمی و علاقائی تعلقات میں توازن قائم کیا جا سکے اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا جا سکے۔ ایسی حکمتِ عملی ملک میں داخلی سطح پر توازن کے ساتھ مل کر نہ صرف روس جیسے طاقتور ممالک کے ساتھ تعاون کو قابلِ عمل بنائے گی، بلکہ ایسے دیگر مواقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں حائل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگی۔ تاہم اس سے ایک ایسے شمولیت پسند عالمی نظام کی ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے، جو نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں اور متنوع علاقائی مفادات کو مدِنظر رکھ کر اس کی جگہ پیدا کرسکے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ہونے والے ایک ہائبریڈ سیمینار بعنوان "بدلتے ہوئے عالمی نظام میں پاکستان اور روس کے تعلقات" کے دوران کیا گیا، جو کہ پہلی پاکستان-روس بین الاقوامی کانفرنس کے ایک حصّے کے طور پر روس کی کازان فیڈرل یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا تھا۔

پشاور یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فخر الاسلام کی زیرِ صدارت ہونے والے اس سیشن سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق سفیر سیّد ابرار حسین، بحریہ یونیورسٹی کی فیکلٹیی آف ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود، نسٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹیی کے سابق ڈین بریگیڈئیر (ر) طغرل یمین، بحریہ ہونیورسٹی اسلام آباد کی سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجیک اسٹڈیز اسلام آباد کے ریسرچ ایسوسی ایٹ تیمور فہد خان نے خطاب کیا۔ اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود نے کہا کہ عالمی طاقت اور اسٹریٹجک اتحادوں میں تبدیلی دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی ممالک کے لیے اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کے مختلف مواقع پیدا کرتی ہے اور علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

تاہم، یہ سب صرف پاکستان کے لیے کثیر جہتی خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس حکمت عملی کے تحت مستقل خارجہ تعلقات کے لیے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو ترجیح دینی چاہیئے۔ اس تناظر میں یہ روس کے ساتھ دفاعی تعاون، پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن جیسی شراکت داری، روس کے خام تیل کی رعائیتی درآمدات اور تجارت، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے میدانوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ  بھی ٹرانز افغان ریلوے اور نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور جیسے سہ فریقی منصوبوں کے قابلِ عمل مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس ارتقائی منظرنامے کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جن میں روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات، مشترکہ منصوبوں پر پابندیاں، کم دوطرفہ تجارت، محدود عوامی رابطے، دہشت گردی، انرجی سکیورٹی اور جیوپولیٹیکل صف بندیاں شامل ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) تغرل یمین نے کہا کہ سپلائی چین میں خلل، گندم، خوردنی تیل اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، دفاعی معاہدوں کا معطل ہونا اور روس-یوکرین جنگ کے بعد جیوپولیٹیکل دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات یوکرین کے ساتھ متاثر ہوئے۔ تاہم، پاکستان نے اپنی وسیع تر ملٹی ویکٹر خارجہ پالیسی کے تحت ایک عملی حکمت عملی اپنائی، جس میں وہ اپنے درآمدات میں تنوع لایا، گندم کی فراہمی کے لیے روس اور قازقستان کی طرف رجوع کیا اور روس اور یوکرین کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی سفارتی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دیا، جس نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹتے ہوئے اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرنے میں مدد دی۔ اس بات کی حمایت کرتے ہوئے ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی نے کہا کہ پاکستان اور روس مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایس سی او، بریکس اور اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے، اسٹریٹجک خود مختاری میں اضافہ ہوگا، اتحادیوں میں تنوع آئے گا اور مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔

اسی نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے تیمور فہد خان نے کہا کہ پاکستان کی عالمی پوزیشننگ کو مستحکم کرنے کے لیے داخلی چیلنجز کو ترجیح دینا ضروری ہے۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے داخلی سطح پر توازن، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی لچک، سماجی ہم آہنگی، انسانی ترقی اور انفراسٹرکچر کی ترقی شامل ہے، پاکستان کے لیے اہم ہیں۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اگرچہ 1945ء کے بعد سے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بنیادی حکمرانی کا طریقہ کار جو قومی مفادات پر مرکوز ہے، زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار طویل مدتی استحکام کے لیے پائیدار ماڈل فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور روس کی ارتقائی مشغولیت کے طریقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمرانی کے ایک متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے، جو انسان پر مرکوز ترقی، منصفانہ عالمی پالیسیوں اور ایسے جامع کثیر الجہتی اصولوں کو ترجیح دے، جو ابھرتی ہوئی طاقتوں اور مختلف علاقائی مفادات کو جگہ دے سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان اور روس عالمی نظام میں میں پاکستان پاکستان کے طریقہ کار مفادات کو نے کہا کہ پر مرکوز کو ترجیح کے ساتھ کے لیے روس کے

پڑھیں:

پہلگام حملہ : چند پہلو جنہیں سمجھنا ضروری ہے

  مقبوضہ کشمیر کے  تفریحی مقام پہلگام میں منگل کے روز ہونے والا دہشتگردی کا حملہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ اس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

   اطلاعات کے مطابق ضلع آننت ناگ کے حسین مقام پہلگام سے چند کلومیٹر دور وادی میں جہاں سینکڑوں سیاح جمع تھے، اچانک جنگل سےچار پانچ حملہ آور آئے اور انہوں نے اندھادھند فائرنگ کر کے 26 کے لگ بھگ سیاح ہلاک کر دیے، کئی زخمی بھی ہوئے۔ اپنی نوعیت کا یہ شدید ترین واقعہ ہے، جس کی کوئی مثال پچھلے چند برسوں میں نہیں ملتی۔

  حملے کا پیٹرن کیا تھا؟

 قابل ذکر بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے خواتین کو نشانہ نہیں بنایا اور صرف مردوں پر فائرنگ کی۔ ایک بھارتی اخبار کے مطابق حملہ آوروں نے بعض خواتین کو چلا کر کہا کہ تمہیں گولی نہیں مار رہے، جا کر اپنے وزیراعظم مودی کو بتا دو کہ ہم یہاں پر غیر لوگوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ اس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی، البتہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین نشانہ نہیں بنائی گئیں، مرنے والے 26 کے 26 مرد ہی ہیں۔

   بعض بھارتی میڈیا چینلز نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حملہ آوروں نے مذہب پوچھ کر صرف غیر مسلموں کو نشانہ بنایا۔ یہ بات درست نہیں۔ عینی شاہدین نے اس بات کو کنفرم نہیں کیا۔ یہی بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھادھند فائرنگ کی، مرنے والوں میں کم از کم ایک مقامی کشمیری مسلمان بھی شامل ہے جبکہ زخمی ہونے والوں میں بھی مسلمان شامل ہیں۔

 حملہ آور کون ہیں؟

  ابھی تک حملہ آوروں کے بارے میں ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ حملے کے پیٹرن سے یہ لگتا ہے کہ حملہ آوروں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیری جہادی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ’اخلاقیات‘ دکھاتے ہوئے دانستہ خواتین کو نشانہ نہیں بنایا۔

  البتہ یہ بات عجیب اور مضحکہ خیز تھی کہ سیاحوں پر گولیاں چلاتے ہوئے کہنا کہ ہم یہاں غیر کشمیریوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ یہ لوگ سیاح تھے جو صرف چند گھنٹوں کے لئے یہاں آئے، ان کا کون سا کشمیر میں گھر لینے کا ارادہ تھا۔ یہ بات صرف ایک ڈھکوسلہ ہی لگی ہے اور شاید اس کا مقصد کشمیر میں مزاحمت کرنے والی تنظیموں کو بدنام کرنا ہو۔

  بظاہر حملے کے لیے اس وادی کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں سڑک کا راستہ نہیں اور صرف پیدل یا خچر پر سواری کر کے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض زخمیوں کو خچروں پر ہی طبی امداد کے لیے پہلگام پہنچایا گیا۔

  یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں حملہ ہوا، وہ جگہ کنٹرول لائن سے 400 کلومیٹر دور ہے، یعنی یہ ممکن نہیں تھا کہ حملہ آور پاکستان سے داخل ہو کر وہاں پہنچے ہوں، راستے میں بے شمار چیک پوسٹیں اور فوجی چھاؤنیاں موجود ہیں۔

  ذمہ داری قبول کرنے والا گمنام گروپ

  اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف گروپ دی رزیسٹینس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی۔ بی بی سی کے مطابق  یہ گروپ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا اور مبینہ طور پر ایک سرگرم عسکریت پسند نیٹ ورک میں تبدیل ہونے سے پہلے انڈیا کے خلاف آن لائن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا۔

انڈین حکومت نے سنہ 2023 میں اسے ایک دہشتگرد گروپ قرار دیا تھا اور اس پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، دہشتگردی کے مواد کو آن لائن پھیلانے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ ٹی آر ایف کی سرگرمیاں انڈیا کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔

  بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حملہ آوروں کے سکیچز جاری کیے ہیں، یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ عینی شاہدین سے حلیہ پوچھ کر سکیچ بنوا لیے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے باقاعدہ 3 نام بھی بتائے کہ ان لوگوں نے کوڈ نیم استعمال کیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عام سے سکیچز سے ان حملہ آوروں کے نام کیسے معلوم ہوگئے؟

بھارتی اخبار ہندو نے رپورٹ دی ہے کہ ان میں سے 2 مقامی کشمیری تھی جو پاکستان ٹریننگ کے لیے گئے۔ حد ہوتی ہے الزام تراشی کی۔ ابھی حملہ آور پکڑے نہیں گئے، ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، کوئی سہولت کار بھی نہیں پکڑا گیا اور یوں ہی تکے سے 3 نام بھی بتا دیے اور یہ بھی کہ ان میں سے 2 فلاں تھے جو ٹریننگ کے لیے گئے۔ اسے ہی بے پر کی کہانی بنانا کہتے ہیں۔ بھارتی اداروں کو چاہیے کہ اپنے تفتیش کاروں کو کسی ڈھنگ کے یورپی ملک سے ٹریننگ دلوائیں۔

 انڈین میڈیا کا خوفناک ردعمل

  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا، کسی بھی سیاحتی مقام پر اگر شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جائے تو ظاہر ہے اس کی حمایت کون کر سکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کون یہ جانتا ہے جو ایسے بہت سے تکلیف دہ، افسوسناک واقعات بھگت چکے ہیں، ابھی حال ہی میں جعفر آباد ایکسپریس پر حملہ بھی ایسا ہی تھا جس میں نہتے  مسافروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا۔

  یہ واقعہ افسوسناک اور ڈسٹربنگ ہونے کے ساتھ شاکنگ تھا، مگر جس انداز میں انڈین میڈیا اور وہاں کی سیلیبریٹیز نے شدید ردعمل ظاہر کیا، وہ بھی مریضانہ تھا۔ بڑے بھارتی اخبارات اور چینلز نے معمولی سا بھی انتظار کیے بغیر اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا اور پھر اینکرز، نام نہاد تجزیہ کاروں نے طوفان اٹھادیا اور جواب میں پاکستان پر شدید ترین حملہ کرنےکا مطالبہ کر ڈالا۔

  یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس طرح کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟بیان بازی کے طور پر ایک آدھ بیان دینا الگ بات ہے، مگر یوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانا تو حیران کن تھا۔ اطلاعات کے مطابق  بی جے پی کے سینکڑوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے یوں منظم انداز میں پاکستان مخالف مہم شروع کر دی جس سے یہ تاثر ملا جیسے یہ لوگ پلاننگ کر کے بیٹھے تھے اور انہیں علم تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے اور اگلے دو تین گھنٹوں میں ٹوئٹر ایکس، فیس بک اور تمام فورمز پر قیامت برپا کر دو۔ اس سے کئی شکوک نے جنم لیا۔

   ستم ظریفی یہ ہے کہ خود بی بی سی اور بھارتی میڈیا کو اس حادثے کی جگہ تک رسائی نہیں دی گئی۔ بی بی سی نے اپنی نامہ نگار کے حوالے سے بتایا کہ ہمیں پہلگام سے 60 کلومیٹر پہلے روک دیا گیا ہے اور کسی کو ہسپتال جا کر زخمیوں سے بات کرنے یا جائے وقوعہ پر عینی شاہدین وغیرہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔

  اس پر بھی شکوک پیدا ہوئے ہیں کیونکہ جب واقعہ ختم ہوگیا، لاشیں بھی ہٹا لی گئیں، 24 گھنٹوں بعد بھی میڈیا کو وہاں کیوں جانے نہیں دیا جا رہا؟ حالانکہ عام طور سے میڈیا ایسے واقعات کی جذباتی رپورٹنگ کرتا ہے جس سے حکومت کو اپنے سخت ردعمل میں آسانی ہوتی ہے۔ پہلگام واقعے میں میڈیا پر پابندی سے تو یہ لگ رہا ہے کہ شاید یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں کوئی دلیر صحافی وہاں وزٹ کر کے کچھ ایسا معلوم نہ کر لے جو بھارتی سرکاری موقف سے مختلف ہو اور جو پاکستان مخالف تصویر پیش نہ کرے۔

  پاکستان پر ہی ملبہ کیوں؟

  ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر بھارت میں جو بھی دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہو،  اپنی انٹیلی جنس ناکامی اور انتظامی نااہلی پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر کیوں گرایا جاتا ہے؟ پاکستان پر جنگ کے بادل کیوں منڈلانے لگتے ہیں اور ہمارا کیا قصور ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد ہمیں ملزم قرار دیا جائے؟

  غیر جانبداری سے اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو 4 ایسے ٹھوس پوائنٹس موجود ہیں جو پاکستان کی بریت کی گواہی دیتے ہیں :

  1: امریکی نائب صدر کی بھارت میں موجودگی۔

  جب یہ حملہ ہوا تب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تاج محل کا وزٹ کر رہے تھے جب واقعے کی تفصیل پہنچی۔ اس وزٹ کے بعد امریکی  نائب صدر کو میڈیا سے بات بھی کرنا پڑی۔ ایسے اعلیٰ سطحی امریکی دورے کے دوران کوئی احمق ترین تنظیم ہوگی جو ایسی کارروائی کرے گی۔ جو شخص صدر ٹرمپ اور ان کے سرپھرے نائب صدر کو جانتا ہے، وہ تو ایسی حماقت نہیں کر سکتا۔ کشمیری مزاحمت کار ماضی میں غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنا کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، اب وہ اس سے گریز کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی جدوجہد کو مقامی رکھا جائے، اسے انٹرنیشنل نہ بنایا جائے کہ اس کا انہیں نقصان ہوتا ہے۔

 2: پاکستان امریکا سے خوشگوار تعلقات بگاڑنے کا رسک کیوں لے گا؟

  یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی اداروں نے بڑی سمجھداری اور دانشمندی سے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے کانگریس سے خطاب میں پاکستان کو سراہا۔ جبکہ پاکستان اور امریکا افغانستان اور افغان طالبان کے حوالے سے ایک ہی پیج پر آ چکے ہیں۔

  پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے امریکی کمپنیوں کو بھی انویسٹمنٹ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ خاصا کچھ پائپ لائن میں چل رہا ہے۔ بہت کچھ ایسا جو سردست بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔

  ایسے میں کیا پاکستان ایسی حماقت کر سکتا ہے کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں کوئی ایسا بڑا حملہ کرا دے جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت ہو اور صدر ٹرمپ کے لیے آؤٹ آف دا وے انڈیا کے ساتھ جانا پڑے۔ ایسی حماقت پاکستان قطعی نہیں کر سکتا۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کانوائے پر کوئی حملہ ہو تو دنیا اسے الگ نظروں سے دیکھے گی، مگر کسی سیاحتی مقام پر نہتے سیاحوں پر ہونے والی اندھادھند فائرنگ کو ظاہر ہے دنیا بھر میں دہشتگردی ہی تصور کیا جائے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں مارے گا؟

  3: پاکستان کا شدید معاشی بحران:

  پاکستان اس وقت جس قسم کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے، اس میں ہرگز ہرگز کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا پورا فوکس ملکی معیشت کو سنبھالنے پر ہے، زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے کہ ملکی معیشت سنبھل جائے اور استحکام پیدا ہو۔ ایسے میں جنگ جوئی کی حماقت کون کرتا ہے؟

  ایک لاکھ میں ایک فیصد سے کم امکان ہوسکتا ہے کہ ایسے بحرانی حالات میں کوئی حماقت کی جائے۔ پاکستانی اسٹیٹ ایکٹرز ک ے بارے میں تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اگر کوئی بچا کچا نان اسٹیٹ ایکٹر ہے تو وہ بھی ایسی حماقت یا جرات نہیں کر سکتا۔ جب روٹی کے لالے پڑے ہوں تو جنگ کی طرف کون جاتا ہے؟ اس طرح کا حملہ دونوں ممالک کو کسی جنگ کی طرف اگر نہ لے جائے، تب بھی خطے کی صورتحال ازحد کشیدہ ضرور ہوجائے گی اور یہ پاکستان کے بالکل مفاد میں نہیں۔

  4: کیا یہ بھارتی فالس فلیگ آپریشن ہے؟

 فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا جھوٹا، دھوکہ دینے والا حملہ ہے جس کا الزام مخالف پرلگایا جائے جبکہ وہ دانستہ طور پر خود ہی کرایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھارتی فالس فلیگ ہے؟

   دیانت داری کی بات ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی حتمی جواب موجود نہیں مگر جس سرعت سے بھارت نے پاکستان پر مدعا ڈالنے کی کوشش کی اور جس طرح بھارتی ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کل سے ایکٹو ہوئے ہیں اس سے فالس فلیگ والے الزام کو تقویت ضرور ملتی ہے۔

 ایک اور پہلو ہے کہ بی جے پی حکومت مسلم وقف بل کے حوالے سے شدید عوامی دباؤ میں ہے، سپریم کورٹ میں یہ کیس جا چکا ہے، بھارتی مسلمان متحد ہو کر وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت کے خلاف موقف اپنا چکے ہیں۔ بھارت کی سیکولر اور لبرل قوتیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔

  ایسے میں پہلگام حملہ جیسا واقعہ جو جنگی جنون بھارت میں پیدا کر دے گا، اس کا پورا فائدہ مودی حکومت ہی کو ملنا ہے۔ اب بھارتی مسلمان مزید سہم جائیں گے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوجائے گا کہ کہیں انہیں پاکستان کے ساتھ منسلک نہ کر دیا جائے۔ پہلگام حملہ ہر اعتبار سے انڈیا اور مودی حکومت کے حق میں جا رہا ہے۔ جو وقتی شاک وہاں کے عوام کو ملا ہے، وہ انہیں پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور عالمی رائے عامہ کو پاکستان مخالف بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔

 بھارت کیا کر سکتا ہے؟

   سوال اب یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ بھارتی وزیروں کا بار بار یہ کہنا کہ بھارتی ردعمل واضح اور بلند ہوگا، یہ دراصل کسی عسکری حملے کی طرف اشارہ ہے۔ کیا پاکستان پر کوئی سرجیکل سٹرائیک یا اس سے بھی بڑا فوجی حملہ ہوسکتا ہے؟ اس کا خدشہ موجود ہے۔ تاہم بھارت نے یہ حماقت کی تو اسے  منہ کی کھانی پڑے گی۔ پاکستانی فوج کو کمزور سمجھنا وہی غلطی ہو گی جس کی سزا ابھی نندن کو تاحیات شرمندگی کی صورت میں  بھگتنا پڑی۔ ضروری نہیں کہ اب کی بار بھارتی فوجی پائلٹ اتنے خوش نصیب ہوں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

پہلگام حملہ عامر خاکوانی

متعلقہ مضامین

  • الجولانی کیجانب سے قابض اسرائیلی رژیم کیساتھ دوستانہ تعلقات کا پہلا اشارہ
  • بھارت کیساتھ تمام تعلقات منقطع، مسلح افواج ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے تیار،دفتر خارجہ
  • ملیریا کے عالمی دن پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کا پیغام
  • پاکستان کا بین الاقوامی تجارتی نظام میں اصلاحات کامطالبہ
  • پہلگام حملہ : چند پہلو جنہیں سمجھنا ضروری ہے
  • چین دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے، چینی صدر
  • وفاقی وزیرِ خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور بینکنگ وفود سے اہم ملاقاتیں
  • جنوبی ایشیا میں امن کیلئے ایٹمی خطرات کم کرنے والے اقدامات، سٹرٹیجک توازن ضروری: جنرل ساحر
  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران
  • معیشت کی ترقی کیلئے کاروباری طبقے کے مسائل کا حل ضروری ہے: ہارون اختر خان