Jasarat News:
2025-09-18@21:27:27 GMT

خط نہیں ملا

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

خط نہیں ملا

ہم پہلے بھی ایک کالم میں عمران خان کے اس خط کا ذکر کرچکے ہیں جو انہوں نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو بھیجا تھا جس کا سوشل میڈیا پر تو بہت ذکر ہوا۔ میڈیا میں خط کا متن بھی شائع اور نشر کیا گیا لیکن سیکورٹی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ایسا کوئی خط آرمی چیف کو نہیں ملا۔ بات یہیں ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میڈیا والے بال کی کھال اُتارنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک تقریب میں آرمی چیف کے ساتھ ان کا ٹاکرا ہوگیا تو وہ یہی سوال محترم جنرل عاصم منیر سے کر بیٹھے۔ انہوں نے چونک کر اخبار نویسوں کو دیکھا اور کہا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مجھے کوئی خط ملا بھی تو میں اُسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیجوں گا۔ اس جواب سے ہمیں شک ہورہا ہے کہ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط بذریعہ ڈاک ارسال کیا ہو۔ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں نظر بند ہیں اور جیل سے خط و کتابت جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیا ہو کہ اسے سپرد ڈاک کردیا جائے لیکن اس نے اپنے اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے روک لیا ہو۔ اس لیے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا کہ انہیں خط نہیں ملا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خط کی اہمیت کے پیش نظر خان صاحب نے یہ خط کسی نامہ بریا قاصد کے ذریعے بھیجا ہو۔ آرمی چیف تک کسی کا پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اسے سیکورٹی کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور باقاعدہ تلاشی بھی دینا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے غالبؔ نے کہا ہے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

ہمارا خیال ہے کہ خان صاحب نے جس نامہ بر کے ذریعے خط بھیجا تھا اُسے سیکورٹی گارڈ نے دھرلیا ہوگا اور پوچھا ہوگا کدھر جارہے ہو اور تمہاری مٹھی میں کیا ہے۔ یہ تو انتہائی راز داری کا معاملہ تھا وہ بیچارا کیا بتاتا۔ چنانچہ سیکورٹی گارڈ نے اُسے پکڑ کر آئی ایس آئی کے حوالے کردیا ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کئی دنوں سے مفقود الخبر ہیں کہیں وہ نہ دھر لیے گئے ہوں۔ ہم نے ایک دوست سے اس خدشے کا اظہار کیا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کی واحد شخصیت ہیں جن پر آج تک نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ انہیں کبھی پکڑا گیا ہے۔ ان کی آرمی چیف سے بھی علیک سلیک ہے اور وزیرداخلہ محسن نقوی سے بھی یارانہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور دونوں فریق ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی خط لے جاتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو وہ کوئی اور یوتھیا ہوگا۔ خان صاحب بھی ضد کے پکے ہیں خط ملے نہ ملے وہ مسلسل لکھے جارہے ہیں۔

بہرکیف خط ڈاک کے ذریعے بھیجنے کا معاملہ ہو یا نامہ بر کے ذریعے۔ دونوں صورتوں میں خط مکتوب الیہ تک نہیں پہنچا۔ آرمی چیف نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ خط ملا بھی تو وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ تجزیہ کاروں نے اس سے دو نتیجے اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ وہ عمران خان کو نہایت اہم سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ وہ مبینہ خط وزیراعظم کو بھیج دیں گے جو ریاست کی اعلیٰ ترین آئینی سیاسی شخصیت ہیں، بصورت دیگر وہ اگر عمران خان کو گھاس نہ ڈالتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر خط ملا تو وہ اُسے اپنے کسی اردلی کے حوالے کردیں گے وہ جانے اس کا کام۔ رہا یہ معاملہ کہ آرمی چیف نے مبینہ خط پڑھنے سے انکار کیا ہے تو اس کی واحد وجہ ان کا آئینی حلف ہے جو ان کے لیے سیاست کو شجر ِ ممنوع قرار دیتا ہے۔ وہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلسل اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات ہائی جیک کرلیے تھے اور پی ٹی آئی کو اس کے عوامی مینڈیٹ سے محروم کردیا تھا حالانکہ اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک آزاد و خود مختار ادارہ کی حیثیت سے انتخابی نتائج مرتب کیے تھے اور علامہ اقبال کے اس فرمان سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے نیا تجربہ کیا تھا۔

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

چنانچہ الیکشن کمیشن نے گنتی کے بجائے تولنے کا فارمولا اپنایا اور جو امیدوار تول میں بھاری تھے ان کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ یہ تجربہ اگرچہ نیا تھا لیکن کامیاب رہا اور ملک میں ایک ’’منتخب نمائندہ جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوگئی جو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے، اگرچہ اس میں کچھ ’’ترقی معکوس‘‘ کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں، مثلاً ایک عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان نے کرپشن میں دو درجے مزید ترقی کرلی ہے اور کرپٹ ممالک میں چالیسویں درجے کے بجائے 38 ویں درجے میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے شفافیت کا نظام لانے میں کوشاں ہیں جو کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کردے گا۔ اسی طرح عالمی بینک نے ایک مایوس کن رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کا تدارک کرنے کے لیے بھی وزیراعظم رات دن ایک کررہے ہیں، انہوں نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے نکالا جاچکا ہے متعدد وزارتیں بند کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین فارغ کیے گئے ہیں اس طرح ملک میں خوشحالی آئے گی اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔

اندریں حالات ملک میں سیاسی عدم استحکام کا واویلا بھی بے بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے دماغ اور عظیم دانشور جناب عرفان صدیقی کے یہ جملے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جو انہوں نے تازہ کالم میں ارشاد فرمائے ہیں ’’الحمدللہ پاکستان نہ عدم استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں، اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آرہی ہے‘‘۔ ہم عرفان صدیقی صاحب کے اس ارشاد کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کروڑ پتی اور ارب پتی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے، جبکہ آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 5 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اقتصادی شرح بہتر ہوئی ہے تو حکومت یہ اللے تللے کررہی ہے۔

نوٹ۔ قارئین اس کالم کو غیر سیاسی ذہن کے ساتھ کھلے دل سے پڑھیں اور اس میں سیاسی ہیرا پھیری تلاش نہ کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف کے ذریعے انہوں نے نہیں ملا ہے اور کیا ہے گیا ہے

پڑھیں:

یہ بہیمیہ بہیمت اور یہ لجاجتت اور یہ لجاجت

ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔
قطر پر سکون ہے۔ پھر ہنگامہ کیا ہے؟
دوحہ سربراہی کانفرنس ، مسلم دنیا کے’ ناجائز’ حکمرانوں کے لیے تصاویر کھنچوانے کا ایک منافقانہ اور عامیانہ موقع تھا۔ اگر یہ اسرائیل کے خلاف کسی منصوبے کے صلاح مشورے کا کوئی ”موقع” تھا تو پھر اس کے ”اعلامیے” سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ اسرائیل کی روایتی مذمت زیادہ بہتر الفاظ میں کی گئی۔ نیتن یا ہو جس پر طنزیہ قہقہ اُچھالتا رہتا ہے۔ عالمی سیاست کے تھیٹر پر امریکا اور اسرائیل جتنے دھوکے تخلیق کر سکتے ہیںاور جتنے مغالطے پیدا کرسکتے ہیں، وہ سب یہاں ایک تماشے کے ساتھ موجود ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کے’ ناجائز’ حکمران جتنی خباثت، رکاکت، رِذالت ،دِنایت اور منافقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، وہ دوحہ میں کردکھایا۔
دوحہ کانفرنس دراصل اپنا نوحہ آپ تھی۔ 57اسلامی ممالک کے علاوہ تین مبصر وفود کے ساتھ تقریباً 60ممالک کے قطر اجتماع کا کیا مطلب تھا؟ یہ دنیا کی کل آبادی کی تقریباً 25فیصد (2ارب) کی نمائندگی تھی۔ اگر وسائل کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ دنیا کے ثابت شدہ تیل کے ذخائر کا تقریباً 70فیصد اور گیس کے ذخائر کا 50فیصد رکھتے ہیں۔ان کے پاس دنیا کی بہترین زرعی زمینیں، یورینیئم ، سونا اور معدنی ذخائر ہیں۔ ان ممالک کے پاس مجموعی طور پر گیارہ ملین کی فعال فوج ہے۔ ایک ملک ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے۔ او آئی سی کے تمام ممالک مشترکہ طور پردنیا کے دفاعی بجٹ کا تقریباً 18فیصد خرچ کرتے ہیں۔ او آئی سی ممالک کے پاس دنیا کی کل زمین کا تقریباً 22 فیصد یعنی (32ملین مربع کلومیٹر) رقبہ ہے۔ بے پناہ وسائل، انتہائی بڑی آبادی اور حد درجہ اہمیت کے حامل جغرافیے رکھنے والے عالم اسلام کے حکمران قطر کی سرزمین پر دوحہ کانفرنس میں ”رُدالی عورتوں” سے بدتر دکھائی دیے۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ کمزور اور لاچار حکمران اتنے کمزور اور لاچار بھی ہیں۔ اندرون ملک یہ حکمران اپنے شہریوں کے خلاف چنگیزی چہرہ لے کر سامنے آتے ہیں۔
سعودی عرب سے شروع کریں۔ امریکا کے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں خود کو اگلے پچاس برس کا حکمران قرار دینے والے محمد بن سلمان کے ملک میں2600سیاسی قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ مارچ 2023 میںایک ہی دن میں81افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔ 2024ء میں 345لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ جو حالیہ برسوں میں ایک نمایاں اضافہ تھا۔ ولی عہد نے سیاسی اور اقتصادی طاقت کو اپنی ذات کے گرد مرتکز رکھنے کے لیے ‘شہزادوں’ کو گرفتارکیا۔ سوال اُٹھانے والے صحافیوں کو ڈرایا۔ جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے لیے دوسرے اسلامی ملک کی سرزمین کا بھی احترام نہیں کیا۔ خواتین سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو بے رحمانہ رکھا۔ یہ سب کچھ قومی سلامتی اور سیاست میں بُرا بھلاکہنے کے مبہم قوانین کی آڑ میں ہوا۔ غیر نمائندہ قوتوں کے ناجائز ریاستی قبضوں کے تحفظ کے لیے’ قومی سلامتی’ کی آڑ، ڈھال اور چال ایک سفاکانہ تاریخ بنا چکی ہے۔ سعودی عرب اس کی ایک مثال ہے۔
عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست پاکستان میں یہ روش دہائیوں پُرانی ہے۔یہاں آزادیٔ صحافت کا خطرہ چھوٹا ہو گیا ہے ، بنیادی طور پر تصورِ آزادی کو ہی یہاں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے جیسی مثالیں حالیہ تاریخ میں سامنے آئی ہیں ، یہ استعماری عہد کے قابض حکمرانوں کی تاریخ سے ملتی جلتی اور بعض واقعات میں اس سے بھی بدتر ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیاں شاہراؤں کے عمومی نظارے بن گئے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو حب الوطنی اور سالمیت وطن کے ناقابل چیلنج بیانئے میں ملفوف کر دیا گیا ہے۔” کمیشن آف انکوائری آن اینفورسڈ ڈس اپیئرنس ”کے مطابق 9,000سے زائد کیسز درج ہوئے ہیں، شہباز سرکار میں تقریباً 2,600 معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ سخت ترین پہرے موبائل فون پر بٹھا دیے گئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عام شہریوں کی نگرانی کا ایک بھیانک نظام رائج ہے جس کے تحت 40لاکھ موبائل فونز کی نگرانی ایک ساتھ کی جا رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی کے مطابق 2023میں 10,000سے زائد پی ٹی آئی کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک جماعت پر کریک ڈاؤن کی واحد مثال ہے۔
ترکیہ کی مثالیں بھی ایک بدترین منظرنامہ رکھتی ہے۔ جہاں اظہارِ رائے کی آزادی اور سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی دباؤمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکیہ کودنیا کے ان چند ممالک میں شامل سمجھا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافی قیدبھگتتے ہیں۔ یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس نے ترکیہ کو 164 مقدمات میں سے 154میں اظہارِ رائے کی خلاف ورزی پر سزا ئیںدی ہے، یہ شرح ناقابل یقین حد تک 93.9 فیصد ہے۔ رجب طیب اردوگان کا ترکیہ، یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس سے 2024میں ایک جج کو غیر قانونی قید کرنے پر 28,100 یورو ہرجانے کی سزا بھی پاچکا ہے۔ ترکیہ بھی پاکستان کی طرح انٹرنیٹ آزادی کو محدود کرنے کی منظم ریاستی کوششوں میں بدتر ممالک میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ ترکیہ نے مارچ 2025میں گوگل کی الگورڈم تبدیلیوں سے مخصوص ویب سائٹس کے ٹریفک کو بھی متاثر کیا۔مخالف سیاسی کارکنوں کو دبانے اور ابھرتے سیاست دانوں کو حوالہ زنداں کرنے میں طیب اردوگان پاکستانی حکمرانوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔
ایک مثال مصر کی بھی لے لیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی ماضی کے فرعونوں کی بے رحمی کی ایک مثال بن چکے ہیں۔ وہ ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے۔ سزائیں ، گرفتاریاں اور بدترین تشدد کا سہارا لے کر الاخوان المسلمین کا قلع قمع کرنے میں مسلسل سفاکی دکھا رہے ہیں۔ مصر کے بے رحم قابض حکمرانوں نے2013کے بعد سے ، اخوان المسلمین کے تقریباً 40,000ارکان اور حامیوں کو گرفتار کیا ، جن میں سے متعدد کو موت کی سزا یا عمر قید سنائی گئی۔ اسی طرح جابر حکومت نے اخوان المسلمین کی 1,225فلاحی تنظیموں، 105 اسکولوں، 83کمپنیوں، 43اسپتالوں اور 2میڈیکل سینٹرز کو بھی ضبط کیا۔مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق مصر میں اس وقت بھی تقریباً60,000 سیاسی قیدی ہیں، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور حکومت مخالفین شامل ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد مقدمے یا ٹرائل کے بغیر زیرِ حراست ہے ۔
عالم اسلام کے تمام ممالک کے شہری اندرون ملک اپنے حکمرانوں سے اسی نوع کی بے رحمی کے شکار ہیں۔ یہاںمحض بطور مثال چار ممالک سعودی عرب، پاکستان ،ترکیہ اور مصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو ظلم کی ایک منظم چکی میں اپنے عوام کو نظریاتی، سیاسی، علمی اور اخلاقی سطح پر پیس رہے ہیں۔اور فطری آزادیوں سے فروغ پزیر انسانی صلاحیتوں کی راہ میں قومی سلامتی کے نام پر رکاؤٹیں پیدا کرنے پر تُلے ہیں۔ یہ ممالک دفاعی صلاحیتوں میں بھی ایسے امتیازات رکھتے ہیں جو ایک دوسرے مسلم ملک ایران سے کہیں بہتر بھی ہیں۔ ایران کا ذکر یہاں اس لیے کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ ہفتوں میں ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وسائل، عزم کی راہ میں رکاؤٹ نہیں بنتے اور اسرائیل ناقابل شکست نہیں۔ذرا چار ممالک کی دفاعی صلاحیتوں کو چند جملوں میں دیکھ لیں!سعودی عرب 80 سے 90 ارب ڈالر ، ترکیہ20 سے 25ارب ڈالر، پاکستان11 سے 12 ارب ڈالر اور مصر 5 سے 6ارب ڈالر سالانہ دفاعی اخراجات کرتا ہے۔ ان ممالک کے پاس بالترتیب دولاکھ پچاس ہزار،تین لاکھ پچپن ہزار، چھ لاکھ پچاس ہزار اورچار لاکھ پچاس ہزار فعال فوجی ہیں جبکہ ریزرو افواج کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ سعودی عرب کے پاس جدید ٹینک (Abrams)، جنگی طیارے اور ایڈوانسڈ دفاعی نظام ہے۔ ترکیہ ڈرون (Bayraktar TB2)، ٹینک (Altay)، کمرشل اور فوجی UAVمیں مضبوط ہے۔ پاکستان جے ایف ۔ 17 طیارے ، میزائل نظام اور سب میرینز میں مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایٹمی ہتھیار کے طور پر عالم اسلام کی واحد قوت سمجھا جاتا ہے۔ مصر کے پاس ٹی ۔90 ٹینک، ایف سولہ اور مضبوط بحری طاقت ہے۔
دوحہ کانفرنس اس حجم ، طاقت اور صلاحیت کے ساتھ اسرائیلی حملے کے خلاف ہوئی تھی۔ مگر اس کانفرنس سے ایک بھی اسرائیل کے خلاف اقدام طے نہ ہو سکا۔ بس ایک چھٹانک سے بھی کم وزن کے الفاظ کی مذمت ہو سکی۔ جو دنیا کے نزدیک لکھے ہوئے مذمتی کاغذ کے وزن سے بھی کم قدر وقیمت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمران جو اپنے اپنے ممالک میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف کسی بھی درندگی کے مظاہرے سے نہیں ہچکچاتے، وہ اسرائیل کے آگے اتنے بے بس کیوں ہیں؟ سوال موجود ہے، مگر کالم کا ورق نبڑ چکا۔جواب باقی!
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • یہ بہیمیہ بہیمت اور یہ لجاجتت اور یہ لجاجت
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں