Jasarat News:
2025-11-27@21:07:01 GMT

خط نہیں ملا

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

خط نہیں ملا

ہم پہلے بھی ایک کالم میں عمران خان کے اس خط کا ذکر کرچکے ہیں جو انہوں نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو بھیجا تھا جس کا سوشل میڈیا پر تو بہت ذکر ہوا۔ میڈیا میں خط کا متن بھی شائع اور نشر کیا گیا لیکن سیکورٹی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ایسا کوئی خط آرمی چیف کو نہیں ملا۔ بات یہیں ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میڈیا والے بال کی کھال اُتارنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک تقریب میں آرمی چیف کے ساتھ ان کا ٹاکرا ہوگیا تو وہ یہی سوال محترم جنرل عاصم منیر سے کر بیٹھے۔ انہوں نے چونک کر اخبار نویسوں کو دیکھا اور کہا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مجھے کوئی خط ملا بھی تو میں اُسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیجوں گا۔ اس جواب سے ہمیں شک ہورہا ہے کہ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط بذریعہ ڈاک ارسال کیا ہو۔ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں نظر بند ہیں اور جیل سے خط و کتابت جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیا ہو کہ اسے سپرد ڈاک کردیا جائے لیکن اس نے اپنے اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے روک لیا ہو۔ اس لیے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا کہ انہیں خط نہیں ملا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خط کی اہمیت کے پیش نظر خان صاحب نے یہ خط کسی نامہ بریا قاصد کے ذریعے بھیجا ہو۔ آرمی چیف تک کسی کا پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اسے سیکورٹی کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور باقاعدہ تلاشی بھی دینا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے غالبؔ نے کہا ہے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

ہمارا خیال ہے کہ خان صاحب نے جس نامہ بر کے ذریعے خط بھیجا تھا اُسے سیکورٹی گارڈ نے دھرلیا ہوگا اور پوچھا ہوگا کدھر جارہے ہو اور تمہاری مٹھی میں کیا ہے۔ یہ تو انتہائی راز داری کا معاملہ تھا وہ بیچارا کیا بتاتا۔ چنانچہ سیکورٹی گارڈ نے اُسے پکڑ کر آئی ایس آئی کے حوالے کردیا ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کئی دنوں سے مفقود الخبر ہیں کہیں وہ نہ دھر لیے گئے ہوں۔ ہم نے ایک دوست سے اس خدشے کا اظہار کیا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کی واحد شخصیت ہیں جن پر آج تک نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ انہیں کبھی پکڑا گیا ہے۔ ان کی آرمی چیف سے بھی علیک سلیک ہے اور وزیرداخلہ محسن نقوی سے بھی یارانہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور دونوں فریق ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی خط لے جاتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو وہ کوئی اور یوتھیا ہوگا۔ خان صاحب بھی ضد کے پکے ہیں خط ملے نہ ملے وہ مسلسل لکھے جارہے ہیں۔

بہرکیف خط ڈاک کے ذریعے بھیجنے کا معاملہ ہو یا نامہ بر کے ذریعے۔ دونوں صورتوں میں خط مکتوب الیہ تک نہیں پہنچا۔ آرمی چیف نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ خط ملا بھی تو وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ تجزیہ کاروں نے اس سے دو نتیجے اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ وہ عمران خان کو نہایت اہم سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ وہ مبینہ خط وزیراعظم کو بھیج دیں گے جو ریاست کی اعلیٰ ترین آئینی سیاسی شخصیت ہیں، بصورت دیگر وہ اگر عمران خان کو گھاس نہ ڈالتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر خط ملا تو وہ اُسے اپنے کسی اردلی کے حوالے کردیں گے وہ جانے اس کا کام۔ رہا یہ معاملہ کہ آرمی چیف نے مبینہ خط پڑھنے سے انکار کیا ہے تو اس کی واحد وجہ ان کا آئینی حلف ہے جو ان کے لیے سیاست کو شجر ِ ممنوع قرار دیتا ہے۔ وہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلسل اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات ہائی جیک کرلیے تھے اور پی ٹی آئی کو اس کے عوامی مینڈیٹ سے محروم کردیا تھا حالانکہ اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک آزاد و خود مختار ادارہ کی حیثیت سے انتخابی نتائج مرتب کیے تھے اور علامہ اقبال کے اس فرمان سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے نیا تجربہ کیا تھا۔

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

چنانچہ الیکشن کمیشن نے گنتی کے بجائے تولنے کا فارمولا اپنایا اور جو امیدوار تول میں بھاری تھے ان کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ یہ تجربہ اگرچہ نیا تھا لیکن کامیاب رہا اور ملک میں ایک ’’منتخب نمائندہ جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوگئی جو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے، اگرچہ اس میں کچھ ’’ترقی معکوس‘‘ کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں، مثلاً ایک عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان نے کرپشن میں دو درجے مزید ترقی کرلی ہے اور کرپٹ ممالک میں چالیسویں درجے کے بجائے 38 ویں درجے میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے شفافیت کا نظام لانے میں کوشاں ہیں جو کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کردے گا۔ اسی طرح عالمی بینک نے ایک مایوس کن رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کا تدارک کرنے کے لیے بھی وزیراعظم رات دن ایک کررہے ہیں، انہوں نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے نکالا جاچکا ہے متعدد وزارتیں بند کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین فارغ کیے گئے ہیں اس طرح ملک میں خوشحالی آئے گی اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔

اندریں حالات ملک میں سیاسی عدم استحکام کا واویلا بھی بے بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے دماغ اور عظیم دانشور جناب عرفان صدیقی کے یہ جملے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جو انہوں نے تازہ کالم میں ارشاد فرمائے ہیں ’’الحمدللہ پاکستان نہ عدم استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں، اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آرہی ہے‘‘۔ ہم عرفان صدیقی صاحب کے اس ارشاد کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کروڑ پتی اور ارب پتی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے، جبکہ آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 5 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اقتصادی شرح بہتر ہوئی ہے تو حکومت یہ اللے تللے کررہی ہے۔

نوٹ۔ قارئین اس کالم کو غیر سیاسی ذہن کے ساتھ کھلے دل سے پڑھیں اور اس میں سیاسی ہیرا پھیری تلاش نہ کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف کے ذریعے انہوں نے نہیں ملا ہے اور کیا ہے گیا ہے

پڑھیں:

فیصل ممتاز راٹھور، ایک اسمبلی چوتھا وزیر اعظم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251127-03-3
آزادکشمیر اسمبلی نے پانچ سال کی مدت میں چار مختلف وزرائے اعظم کو جنم دے کر اپنی پارلیمانی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر لیا۔ اس سے پہلے 2006 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی نے چار وزرائے اعظم کو جنم دیا تھا مگر یہ چار شخصیات نہیں بلکہ صرف تین تھیں کیونکہ اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار عتیق احمد خان برطرفی کے بعد آخری مرحلے میں ایک بارپھر وزیر اعظم بنے تھے۔ سردار عتیق احمد خان کی قیادت میں بننے والی حکومت کا تختہ سردار محمد یعقوب خان نے اْلٹ دیا تھا جو سال بھر میں ہی راجا فاروق حیدر کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے اور اسمبلی کی میعاد چند ماہ ہی تھی جب سردار عتیق احمد خان نے فاروق حیدر کو اقتدار سے نکال کر خود زمامِ اقتدار سنبھالی تھی۔ یوں ایک اسمبلی سے چار وزرائے اعظم اور تین چہرے برآمد ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے وزرائے اعظم راجا فاروق حیدر اور چودھری مجید نے بطور وزیر اعظم اپنی مدت پوری کی تھی۔ دس سال بعد بننے والی موجودہ اسمبلی ایک بار پھر عدم استحکام کے باعث چار وزرائے اعظم اور چار چہرے بدلنے کی راہ پر چل پڑی۔ اسمبلی کے پہلے قائد ایوان تحریک انصاف کے عبدالقیوم نیازی تھے۔ ان کی حکومت ابھی قدم جمانے ہی نہ پائی تھی کہ اسلام آباد میں عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی اور اس کے بعد عدم استحکام کے سائے آزادکشمیر پر بھی منڈلانے لگے۔ عبدالقیوم نیازی کا تختہ سردار تنویر الیاس نے اْلٹ ڈالا۔ دونوں کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا اور اس تبدیلی کو گھر کی بات گھر میں رہنے کے مصداق ہی سمجھا گیا۔ تنویر الیاس کا تختہ اسمبلی کے اسپیکر چودھری انوار الحق نے اْلٹ ڈالا۔ انہیں عدلیہ نے نااہل قرار دے کر انوارالحق کا راستہ صاف کیا۔ چودھری انوار الحق طمطراق کے ساتھ حکومت کرتے رہے مگر آخری برس جب پیپلزپارٹی نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے تو منظر بدلتا چلا گیا اور پیپلزپارٹی نے چودھری انوار الحق کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر فیصل ممتاز راٹھور کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔

پیپلزپارٹی کے اندر کئی سینئر اور قدآور لوگ اس منصب کے لیے متحرک تھے مگر فیصل ممتاز راٹھور نے سرپرائز دے کر امیدوں اور توقعات کی بساط ہی اْلٹ ڈالی۔ فیصل راٹھور پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے یکے از بانیان اور سابق وزیر اعظم ممتاز حسین راٹھور کے صاحبزادے ہیں جو منظر پر موجود اپنے والد کے کئی ساتھیوں کو اوور ٹیک کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ فیصل ممتاز راٹھور بھی انوار الحق کابینہ کے طاقتور وزیروں میں شمار ہوتے تھے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے طور پر بھی وہ سیاسی منظر پر پوری طرح متحرک دکھائی دیتے رہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے پیدا کردہ بحران کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچانے میں بھی ان کا کردار تھا۔ وزرات عظمیٰ کے لیے فیصل راٹھور کا نام کبھی کبھار فضاؤں میں گونجتا تو رہتا تھا مگر وہ اس دوڑ کے بظاہر طاقتور کھلاڑیوں میں شامل نہیں تھے۔ اس دوڑ میں شامل طاقتور افراد میں سابق صدر اور وزیر اعظم سردار یعقوب خان، سینئر وزیر چودھری یاسین اور اسپیکر اسمبلی چودھری لطیف اکبر شامل تھے۔

فیصل راٹھور کی وزارت عظمیٰ میں دنوں کے اْلٹ پھیر کا ابدی تصور واضح طور پر جھلک رہا ہے۔ 1990 میں بے نظیر بھٹو نے فیصل راٹھور کے والد ممتاز حسین راٹھور کو سردار محمد ابراہیم خان کو ناراض کرتے ہوئے وزیر اعظم بنایا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ہی سردار ابراہیم خان نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد آزادکشمیر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا روایتی نظام حرکت میں آگیا تھا۔ ممتاز راٹھو کو اس حد بے بس بنا دیا گیا تھا کہ وہ اسمبلی توڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ دوسری بار پیپلزپارٹی نے انتخاب جیتا تو بیر سٹر سلطان محمود چودھری اور ممتاز راٹھور کے درمیان وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا مقابلہ ہوا اور اقتدار کا ہما بیرسٹر سلطان محمود کے سر پر بیٹھا۔ ممتاز راٹھور اسپیکر منتخب ہوئے۔

ممتازراٹھور ایک متحرک اور انقلابی مزاج کی شخصیت تھی انہوں نے اسپیکر کے منصب پر رہتے ہوئے اقتدار کی بساط اْلٹنے کی کوششیں جاری رکھیں یہاں تک کہ انہیں اس منصب سے ہٹایا گیا اور چودھری مجید نے اسپیکر کی کرسی سنبھالی۔ ممتازراٹھو کے خلاف پارٹی کے اندر سازشیں کرنے والے اکثر لوگوں کی اولادیں آج ان کے ساتھ ایوان میں موجود ہیں اور ان کے بیٹے وزیر اعظم کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں وہ شاید کوئی بڑی تبدیلی تو نہ لاسکیں مگر انہوں نے انوار الحق کے گھٹن زدہ سیاسی اور حکومتی کلچر کو بدل کر اپنے والد کے عوامی انداز میں حکومت چلانے کا فیصلہ کیا ہے جو حقیقت میں سیاسی اور حکومتی سسٹم پر عوامی ایکشن کمیٹی کے ہاتھوں ختم ہوتا ہوا اعتماد بحال کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وہ سیاسی کلاس اور سسٹم پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ مگر ان کی وزارت عظمیٰ نے ممتاز راٹھور کی سیاسی ریاضتوں اور آخری دور کی سیاسی تنہائیوں کی یاد دلادی۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں ممتاز راٹھور کا جب انتقال ہوا تو وہ سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے عوامی جلسوں کی طوفانی مہم پر آزادکشمیر کے طول وعرض میں جا رہے تھے۔ فیصل راٹھور کی وزارت عظمیٰ نے آزادکشمیر کی تاریخ میں ممتاز راٹھور کے دھندلائے ہوئے سیاسی کردار کی ایک بار پھر یادیں تازہ کیں۔ راٹھور ایک شاندار شخصیت، وجیہ انسان اور زبان وبیان کی صلاحیتوں سے مالا انسان تھے۔ فقرہ چست کرنا ان پر ختم تھا۔ سیاست میں عوامی انداز کے قائل تھے۔ اپنی شعلہ نوائی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں بے حد مقبول تھے۔ کئی مواقع پر مرکزی جلسوں میں بے نظیر بھٹو کے بعد جس شخصیت کی تقریروں پزیرائی ملتی وہ ممتاز راٹھو تھے۔ اب آزادکشمیر کی سیاست ایسے پرجوش اور پرکشش کرداروں اور قومی سطح کی قدآور شخصیات سے خالی ہو چکی ہے۔

عارف بہار سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  •  پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کو سیاسی چال کے طور پر اسعمال کررہی ہے، طلال چوہدری
  • مختلف سیاسی رہنماؤں کی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت
  • بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ
  • کیا سہیل آفریدی مفاہمت کے رستے پر چل پڑے، کتنا آگے جا سکیں گے؟
  • فیصل ممتاز راٹھور، ایک اسمبلی چوتھا وزیر اعظم
  • ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق
  • نظامِ مصطفیؐ کا نفاذ ہی مسائل کا دیرپا حل ہے‘ شکیل قاسمی
  • سہ روزہ بستی
  • پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق
  • سسٹم کا بحران اور امکانی خدشات