ہم پہلے بھی ایک کالم میں عمران خان کے اس خط کا ذکر کرچکے ہیں جو انہوں نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو بھیجا تھا جس کا سوشل میڈیا پر تو بہت ذکر ہوا۔ میڈیا میں خط کا متن بھی شائع اور نشر کیا گیا لیکن سیکورٹی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ایسا کوئی خط آرمی چیف کو نہیں ملا۔ بات یہیں ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میڈیا والے بال کی کھال اُتارنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک تقریب میں آرمی چیف کے ساتھ ان کا ٹاکرا ہوگیا تو وہ یہی سوال محترم جنرل عاصم منیر سے کر بیٹھے۔ انہوں نے چونک کر اخبار نویسوں کو دیکھا اور کہا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مجھے کوئی خط ملا بھی تو میں اُسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیجوں گا۔ اس جواب سے ہمیں شک ہورہا ہے کہ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط بذریعہ ڈاک ارسال کیا ہو۔ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں نظر بند ہیں اور جیل سے خط و کتابت جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیا ہو کہ اسے سپرد ڈاک کردیا جائے لیکن اس نے اپنے اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے روک لیا ہو۔ اس لیے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا کہ انہیں خط نہیں ملا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خط کی اہمیت کے پیش نظر خان صاحب نے یہ خط کسی نامہ بریا قاصد کے ذریعے بھیجا ہو۔ آرمی چیف تک کسی کا پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اسے سیکورٹی کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور باقاعدہ تلاشی بھی دینا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے غالبؔ نے کہا ہے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
ہمارا خیال ہے کہ خان صاحب نے جس نامہ بر کے ذریعے خط بھیجا تھا اُسے سیکورٹی گارڈ نے دھرلیا ہوگا اور پوچھا ہوگا کدھر جارہے ہو اور تمہاری مٹھی میں کیا ہے۔ یہ تو انتہائی راز داری کا معاملہ تھا وہ بیچارا کیا بتاتا۔ چنانچہ سیکورٹی گارڈ نے اُسے پکڑ کر آئی ایس آئی کے حوالے کردیا ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کئی دنوں سے مفقود الخبر ہیں کہیں وہ نہ دھر لیے گئے ہوں۔ ہم نے ایک دوست سے اس خدشے کا اظہار کیا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کی واحد شخصیت ہیں جن پر آج تک نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ انہیں کبھی پکڑا گیا ہے۔ ان کی آرمی چیف سے بھی علیک سلیک ہے اور وزیرداخلہ محسن نقوی سے بھی یارانہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور دونوں فریق ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی خط لے جاتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو وہ کوئی اور یوتھیا ہوگا۔ خان صاحب بھی ضد کے پکے ہیں خط ملے نہ ملے وہ مسلسل لکھے جارہے ہیں۔
بہرکیف خط ڈاک کے ذریعے بھیجنے کا معاملہ ہو یا نامہ بر کے ذریعے۔ دونوں صورتوں میں خط مکتوب الیہ تک نہیں پہنچا۔ آرمی چیف نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ خط ملا بھی تو وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ تجزیہ کاروں نے اس سے دو نتیجے اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ وہ عمران خان کو نہایت اہم سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ وہ مبینہ خط وزیراعظم کو بھیج دیں گے جو ریاست کی اعلیٰ ترین آئینی سیاسی شخصیت ہیں، بصورت دیگر وہ اگر عمران خان کو گھاس نہ ڈالتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر خط ملا تو وہ اُسے اپنے کسی اردلی کے حوالے کردیں گے وہ جانے اس کا کام۔ رہا یہ معاملہ کہ آرمی چیف نے مبینہ خط پڑھنے سے انکار کیا ہے تو اس کی واحد وجہ ان کا آئینی حلف ہے جو ان کے لیے سیاست کو شجر ِ ممنوع قرار دیتا ہے۔ وہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلسل اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات ہائی جیک کرلیے تھے اور پی ٹی آئی کو اس کے عوامی مینڈیٹ سے محروم کردیا تھا حالانکہ اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک آزاد و خود مختار ادارہ کی حیثیت سے انتخابی نتائج مرتب کیے تھے اور علامہ اقبال کے اس فرمان سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے نیا تجربہ کیا تھا۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
چنانچہ الیکشن کمیشن نے گنتی کے بجائے تولنے کا فارمولا اپنایا اور جو امیدوار تول میں بھاری تھے ان کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ یہ تجربہ اگرچہ نیا تھا لیکن کامیاب رہا اور ملک میں ایک ’’منتخب نمائندہ جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوگئی جو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے، اگرچہ اس میں کچھ ’’ترقی معکوس‘‘ کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں، مثلاً ایک عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان نے کرپشن میں دو درجے مزید ترقی کرلی ہے اور کرپٹ ممالک میں چالیسویں درجے کے بجائے 38 ویں درجے میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے شفافیت کا نظام لانے میں کوشاں ہیں جو کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کردے گا۔ اسی طرح عالمی بینک نے ایک مایوس کن رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کا تدارک کرنے کے لیے بھی وزیراعظم رات دن ایک کررہے ہیں، انہوں نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے نکالا جاچکا ہے متعدد وزارتیں بند کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین فارغ کیے گئے ہیں اس طرح ملک میں خوشحالی آئے گی اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔
اندریں حالات ملک میں سیاسی عدم استحکام کا واویلا بھی بے بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے دماغ اور عظیم دانشور جناب عرفان صدیقی کے یہ جملے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جو انہوں نے تازہ کالم میں ارشاد فرمائے ہیں ’’الحمدللہ پاکستان نہ عدم استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں، اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آرہی ہے‘‘۔ ہم عرفان صدیقی صاحب کے اس ارشاد کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کروڑ پتی اور ارب پتی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے، جبکہ آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 5 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اقتصادی شرح بہتر ہوئی ہے تو حکومت یہ اللے تللے کررہی ہے۔
نوٹ۔ قارئین اس کالم کو غیر سیاسی ذہن کے ساتھ کھلے دل سے پڑھیں اور اس میں سیاسی ہیرا پھیری تلاش نہ کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف کے ذریعے انہوں نے نہیں ملا ہے اور کیا ہے گیا ہے
پڑھیں:
فاطمہ بھٹو کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت قائم کرکے لیاری سے الیکشن لڑوں گا، ذوالفقار بھٹو جونیئر
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ لیاری سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور فاطمہ بھٹو کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کریں گے۔
کراچی کے علاقے 70 کلفٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ لیاری کے عوام سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں قریباً 150 عمارتیں سیل کی جا چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آج بغدادی واقعے کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یہاں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار بھٹو جونیئر کا نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان، نیا نعرہ بھی دے دیا
انہوں نے مطالبہ کیاکہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت متاثرین کو فوری طور پر رہائش فراہم کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پارٹی کے نام پر غور کررہے ہیں، موقع ملا تو لیاری سے الیکشن لڑوں گا۔ لیاری کے عوام نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا، مگر آج کے لیاری کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہاکہ لیاری میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں، انہیں ایل ڈی اے کی اسکیم 42 میں جگہ دی جانی چاہیے۔ اگر آپ شاہراہ بھٹو بنا سکتے ہیں تو لیاری کے لوگوں کو گھر کیوں نہیں دے سکتے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی پشت پناہی حاصل نہیں، میں اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
انہوں نے اعلان کیاکہ فاطمہ بھٹو جلد پاکستان آئیں گی، اور وہ ان کے ساتھ مل کر نئی جماعت کا باضابطہ اعلان کریں گے، جبکہ یوتھ ونگ بھی ہمارے ساتھ ہوگا۔
ذوالفقار جونیئر نے کہاکہ ہم عوامی ترقی کو واپس لائیں گے، مگر ایسی ترقی نہیں جیسے شاہراہ بھٹو جیسی نمائشی منصوبے۔ ہم ملک کے ہر صوبے کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وڈیرہ ایک جیسا نہیں ہوتا، میں خود بھی ایک وڈیرہ ہوں، مگر آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ آئین کا تحفظ ضروری ہے اور اسے اصل شکل میں بحال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ہم ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو شہید کے نظریات سے منحرف نہیں ہو رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے لیاری کے لیے ماسٹر پلان بنایا تھا، وہ لیاری کو پیرس بنانا چاہتے تھے، ہم پیرس کی کاپی تو نہیں کریں گے مگر لیاری کو خوبصورت ضرور بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ زرداری لیگ اور پی ٹی آئی کے نمائندے اقتدار میں آ کر صرف لوٹ مار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سماجی کاموں سے سیاست میں قدم رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کون ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ترقی عوام کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ عوام کے اوپر کی جاتی ہے۔ ہم نوجوانوں کی طاقت سے اس فرسودہ نظام کو بدل سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہائی جیک ہو چکی ہے، زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں۔ اب کی پیپلزپارٹی وہ نہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کی تھی، زرداری لیگ میں تو تصور سے زیادہ کرپشن ہورہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آصف زرداری انتخابات ذوالفقار بھٹو جونیئر فاطمہ بھٹو لیاری نئی سیاسی جماعت وی نیوز