WE News:
2025-11-03@11:12:13 GMT

چھلے ہوئے کیلے کی تصویر مصطفیٰ عامر کی موت کا سبب کیسے بنی؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

چھلے ہوئے کیلے کی تصویر مصطفیٰ عامر کی موت کا سبب کیسے بنی؟

یہ کہانی کراچی کے پوش علاقے میں رہنے والے کچھ لوگوں کے لائف اسٹائل کا ایک رخ ہے جہاں اول تو کچھ سامنے نہیں آتا اور اگر کبھی آجائے تو پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ برائی کی بنیاد پر بننے والے تعلقات کا انجام اکثر بھیانک ہی نکلتا ہے اور اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ کہانی نشے، طاقت اور غرور کی ہے جو ایک چھلے ہوئے کیلے کی تصویر سے ایک خطرناک موڑ لیتی ہے اور ایک نوجوان مصطفیٰ عامر کے درد ناک قتل تک جاتی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ 3 دوستوں مصطفیٰ، ارمغان اور شیراز کی دوستی کا سفر جانی دشمنی پر کیسے ختم ہوا؟

یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس اور مقتول مصطفیٰ کی والدہ نے بیٹے کی قبر کشائی کے لیے درخواست دائر کردی

سینیئر کرائم رپورٹر شاہمیر خان نے وی نیوز کو بتایا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ اپنے گھر سے دوست ارمغان کے گھر جانے کے لیے نکلا لیکن وہاں جانے کے بعد لاپتا ہوگیا۔ تلاش میں ناکام ہوجانے کے بعد گھر والوں نے 7 جنوری کو مصطفیٰ کے اغوا کا مقدمہ تھانہ درخشاں میں درج  کروادیا۔ پولیس نے مصطفیٰ کی تلاش تو شروع کردی۔ وہ اس سے قبل اے این ایف کے ہاتھوں منشیات سپلائی کے مقدمہ میں پکڑا جا چکا تھا لہٰذا اسی بنیاد پر پولیس کو شک تھا کہ مصطفیٰۃ کا کسی منشیات والوں کے ساتھ جھگڑا ہوا ہوگا اور اسی چکر میں وہ لاپتا ہوگیا ہے۔

شاہمیر خان کے مطابق پولیس کی تحقیقات چل ہی رہی تھی کہ اچانک مصطفیٰ کی والدہ کو ایک کال آئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم آپ کے بیٹے سے متعلق آپ کو بتائیں گے کہ وہ کہاں ہے جس کے لیے آپ کو ایک کروڑ روپے دینے پڑیں گے۔ اس کال کے بعد مصطفیٰ کی والدہ نے پولیس کو اطلاع دے دی اور کیس اے وی سی سی منتقل ہوگیا کیوں کہ اس بات کی تصدیق ہوچکی تھی کہ یہ اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہے۔

شاہمیر خان کے مطابق تحقیق کا دائرہ بڑھانے کے لیے مصطفیٰ کا 4 دوستوں کو تحقیقات میں شامل کیا گیا جن میں ایک ارمغان بھی تھا۔ 8 فروری کو اے وی سی سی کی ٹیم ارمغان کے گھر پہنچی تو اس نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تاہم پولیس نے بڑی مشکل سے ارمغان کو حراست میں لے لیا۔

شاہمیر خان نے بتایا کہ ارمغان نے پولیس کے سامنے کچھ نہیں اگلا۔ جب مصطفیٰ کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وہ تو میرا دوست تھا اس کے ساتھ میں ایسا کیوں کروں گا۔ اے وی سی سی سے جب بات نہ بن پائی تو پھر باری آئی انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی جس نے کام شروع کیا تو ارمغان کے دوست شیراز کا لنک مل گیا جسے کراچی ایئرپورٹ کے نزدیک واقع فلک ناز پلازا سے حراست میں لے لیا گیا۔

مزید پڑھیے: پولیس نے مصطفیٰ عامر کی لاش کیسے تلاش کی؟

شاہمیر خان کے مطابق شیراز کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ ارمغان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسے نشہ اور پیسہ ارمغان سے ملتا ہے۔ شیراز دباؤ برداشت نہ کرسکا اور اس نے ساری کہانی کھول کر بیان کردی۔ اس نے بتا دیا کہ ارمغان کے گھر مصطفیٰ آیا تھا جس نے مبینہ طور پر ایک تھیلی میں منشیات ارمغان کو دی اور اس کے بعد ارمغان اشتعال میں آیا اور ان کی آپس میں تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد ارمغان نے لوہے کی سلاخ سے مصطفیٰ کو پیٹنا شروع کردیا۔

شاہمیر خان نے بتایا کہ ماشا اور انجلین 2 لڑکیاں تھیں جن کی وجہ سے مصطفیٰ اور ارمغان کے مابین مسائل چل رہے تھے۔ یہ دونوں لڑکیاں ارمغان کے اس کال سینٹر میں کام کرتی تھیں جو ستمبر 2024 میں بند ہو چکا تھا۔ ارمغان نے مصطفیٰ کو شدید زخمی کرنے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ لگایا اور اس دوران ارمغان نے مبینہ طور مصطفیٰ کے جسم کا نازک حصہ بھی کاٹ دیا جس کی تصاویر و ویڈیوز بھی بنائی گئیں جو ارمغان کے موبائل کا ڈیٹا ملنے کے بعد سامنے آجائیں گی۔

شاہمیر خان نے کہا کہ اس کے بعد مصطفیٰ نیم بے ہوشی کی حالت میں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب بلوچستان کے علاقے دوریجی لے جایا گیا جہاں شیراز کے مطابق ارمغان نے پیٹرول چھڑک کر مصطفیٰ کو آگ لگا دی۔

شاہمیر خان بتاتے ہیں کہ اس بیان کے بعد پولیس کو ارمغان کے گھر سے خون کے 2 نمونے ملے جن میں سے ایک کا سیمپل مصطفیٰ کی والدہ جبکہ دوسرا انجلین نامی لڑکی کے خون سے میچ ہوا۔

انجلین کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے ارمغان نے 6 جنوری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کا جنسی استحصال بھی کیا تھا جس کے بعد وہ اسپتال میں داخل ہوگئی تھی۔ انجلین اور اس کے والد پر ارمغان نے دباؤ ڈالا تھا کہ بول دینا کہ حادثہ ہوا تھا جس کے بعد انجلین کو آئن لائن ٹیکسی والے لے کر آئے لہٰذا انجلین کے والد نے اسپتال میں وہی بیان دیا اور بعد میں بیٹی کو لے کر وہاں سے چلے گئے جس کے بعد سے دونوں لاپتا ہیں۔

CamScanner 02-18-2025 01.

42 (1) by A. Khaliq Butt on Scribd

 

شاہمیر خان نے ماشا نامی لڑکی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصطفیٰ اور ارمغان دونوں کی دوست تھی اور دونوں کے اس کے ساتھ جسمانی تعلقات تھے۔ جہاں تک انجلین کی بات ہے تو وہ مصطفیٰ کے سامنے ارمغان کے عضو خاص کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔ ارمغان کے کال سینٹر میں لڑکیاں کام کرتی تھیں جن پر کام کے ساتھ ساتھ ارمغان کا دباؤ ہوتا تھا اور وہ ان میں سے کچھ لڑکیوں کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوچکا تھا۔ ارمغان کے پاس پیسہ بھی تھا اور منشیات بھی جس کی وجہ سے لوگ اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے۔

مزید پڑھیں: لاپتا مصطفیٰ عامر کے قتل کی وجہ سامنے آگئی

شاہمیر خان کے مطابق جب مصطفیٰ اے این ایف کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا تو اس کی گرفتاری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فون سم استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ ایک ڈیوائس کی مدد سے ورچوول نمبر کا استعمال کرتا تھا جبکہ اس کی والدہ نے اس کی گاڑی میں ایک موبائل چھپایا ہوا تھا جس میں سم لگی ہوئی تھی اور تلاشی کے دوران وہ موبائل فون بھی ارمغان کے گھر سے برآمد ہوا تھا جس کو پولیس کی تحقیق میں بہت بڑی پیش رفت قرار دینا غلط نہ ہوگا۔

شاہمیر خان نے بتایا کہ ارمغان سے تفتیش اس لیے نہیں ہو پائی کیوں کہ پہلی ہی پیشی پر عدالت نے پولیس ریمانڈ میں دینے کے بجائے اس کی جیل کسٹڈی کردی تاہم بعد میں جب پولیس کو کسٹڈی مل گئی تو ارمغان نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور شیراز کے بیان کے مطابق اس نے ساری باتیں مان لیں۔ جہاں تک ارمغان کے لیپ ٹاپس کی بات ہے تو وہ عرصہ دراز سے بند تھے اور یہ اپنا ڈیجیٹل مائننگ کا سیٹ اپ ہنزہ منتقل کرنے والا تھا جہاں تمام کام مکمل ہو چکا تھا۔

شاہمیر خان کے مطابق ارمغان ہر ماہ 3 چکر ہنزہ کے لگاتا تھا۔ لیپ ٹاپس سے ڈیٹا نکالنے کے لیے سائبر کرائم کی مدد لی جارہی ہے۔ ارمغان کے گھر پر 32 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور گھر کے ہر کمرے کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی لیکن ان کے ڈی وی آر ارمغان نے سب سے پہلے توڑے جبکہ گھر کے باہر کے کیمروں کا ڈی وی آر ٹھیک ہے جو اس وقت پولیس کے پاس ہے۔ ارمغان سے 2 موبائل فون ملے ہیں جن میں ایک آئی فون جبکہ دوسرا اینڈرائیڈ ہے۔ اینڈرائیڈ فون کا ڈیٹا ارمغان اڑا چکا ہے لیکن پولیس کوشش کر رہی ہے کہ ڈیٹا بازیاب کرایا جاسکے لیکن آئی فون کا ڈیٹا نہیں نکل پا رہا۔

شاہمیر خان کے مطابق ارمغان کے گھر سے 2 تجوریاں ملی ہیں جن کو ڈیجیٹل لاک لگے ہوئے ہیں جن کا لاک کوڈ اب تک ارمغان نے نہیں بتایا جس کی وجہ سے وہ کھل نہیں سکے لیکن ایک تجوری کو پولیس نے کیس پراپرٹی بنا دیا ہے اور پولیس کی کوشش ہے کہ وہ ارمغان سے کھلوائی جائے۔ ارمغان نے ثاقب ولد سلمان کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ بھی بنایا ہوا تھا جس پر تصویر تو ارمغان کی تھی لیکن باقی معلومات جعلی ہیں۔ یہ شناختی ایک بار گرفتار ہونے کے بعد بنایا گیا تھا۔

سینیئر کورٹ رپورٹر فاروق سمیع نے وی نیوز کو بتایا کہ مصطفیٰ عامر کیس دیگر مقدمات سے خاصا مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارمغان کو جب پہلی بار عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تو ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ پولیس نے ان پر تشدد کیا ہے اور اس نے عدالت کو بتایا کہ اسے کمر سے نیچے مارا گیا ہے جس کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج ذاکر حسین نے پولیس کی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ارمغان کو جیل بھیجنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ ارمغان کے والد کا بیان لے کر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں پر مقدمہ درج کریں۔

فاروق سمیع کہتے ہیں کہ اگر یہ مقدمہ بنتا تو کچھ یوں ہوتا کہ پولیس اس کے گھر میں ڈکیتی کی غرض سے داخل ہوئی تھی اور اسی سے ملتا جلتا مؤقف ارمغان کا بھی یہی تھا۔ اس دوران تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ہمیں ارمغان کا ریمانڈ چاہیے کیوں کہ ان کے گھر سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے جسے رکھنے کی شہریوں کو اجازت نہیں۔ تفتیشی افسر نے یہ بھی کہا تھا کہ جہاں تک گھر پر جانے کی بات ہے تو ہم ایک شہری کی بازیابی کی غرض سے ارمغان کے گھر گئے تھے لیکن فاروق سمیع کا کہنا تھا کہ پولیس نے ایک مضبوط کیس کو بہت کمزور بنا کر پیش کیا جو کہ پولیس کی غفلت ہے۔

فاروق سمیع کا کہنا تھا کہ جب پولیس کے خلاف مقدمے کی بات ہونے لگی تو پولیس اور سرکاری وکلا کو تشویش لاحق ہوئی اور ساتھ ہی اس کیس کو میڈیا پر بہت اہمیت ملنے لگی۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے پولیس اور پراسیکیوشن نے پھرتی دکھانی شروع کردی۔

فاروق سمیع کہتے ہیں کہ ان کی کیس میں قائم مقام پراسیکیوٹر منتظر مہدی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں اور پراسیکیوشن نے ریمانڈ نہ ملنے پر سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اسی دوران اس کیس کا ایک اور ملزم شیراز بھی گرفتار ہو گیا اور اسے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان کو کل پیش کرنے کا حکم

فاروق سمیع کے مطابق جس وقت شیراز کو عدالت میں ہیش کیا گیا تو ارمغان کے والد کامران قریشی انسداد دہشت گردی عدالت پہنچے اور ان کے پاس ایک بیگ تھا لیکن انکی ذہنی حالت اس وقت کچھ درست دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ان کے پاس ایک بوتل میں سبز رنگ کا پانی تھا جسے وہ مسلسل پیے جا رہے تھے اور ساتھ ہی سگریٹ بھی دھنک رہے تھے۔ جب انہیں پتا چلا کہ شیراز کو جج کے روبرو پیش کیا گیا ہے تو باہر انہوں نے شور مچانا شروع کیا اور جج کے چیمبر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی جہاں موجود پولیس اہلکار نے انہیں مسلسل روکنے کی کوشش کی تو ارمغان کے والد نے بنا ہاتھ لگائے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے پولیس اہلکار کو اشتعال دلایا جائے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کو قانونی باریکیوں کے حساب سے تول کر انجام دے رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ارمغان کے والد بھی کرمنل ریکارڈ رکھتے ہیں۔

فاروق سمیع نے کہا کہ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن جب ارمغان کے والد بے بس ہوگئے تو انہوں نے شور مچانا شروع کیا اور کہا کہ میں امریکی شہری ہوں اور میں امریکی قونصل خانے میں تمہاری شکایت کروں گا۔ شور شرابا سن کر 3 پولیس اہلکار اوپر آئے جن کے بعد 2 رینجرز اہلکار بھی وہاں آگئے جس کے بعد ارمغان کے والد نہ صرف خاموش ہوگئے بلکہ اپنا رخ وہاں موجود صحافیوں کی جانب کرتے ہوئے ان سے بولے کہ یہ پورے پاکستان کا مقدمہ ہے جسے آپ کو لڑنا چاہیے کیوں کہ اس میں بہت زیادتی ہو رہی ہے۔

فاروق سمیع کے مطابق اس وقت بھی ان کا رویہ بہت زیادہ ناقابل برداشت تھا۔ انہوں نے سماء ٹی وی کے نمائندے کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے میرے خلاف ایسی خبر کیوں چلائی ہے۔ فاروق سمیع بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کا ٹی وی پر بیپر چل رہا تھا اور اسی دوران یہ میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ یہ خبر کیوں دے رہے ہیں اور ارمغان کو ملزم کیسے کہہ رہے ہیں؟

فاروق سمیع کے مطابق شیراز کا ریمانڈ جس طرح ہوا عمومی طور پر ہم نے ایسا دیکھا نہیں ہے کیوں کہ آدھے گھنٹے تک وہ جج کے روبرو تھا اور اسی دوران اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے یہ جرم ہوا ہے۔ قتل ارمغان نے کیا تھا لیکن چوں کہ یہ ریمانڈ لینے کا وقت تھا اور اصل اعترافی بیان مجسٹریٹ کے روبرو ہونا ہے اس لیے اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا لیکن جہاں تک ارمغان کے والد کی بات ہے تو ان کے قول و فعل سے لگ رہا تھا کہ وہ شیراز پر دباؤ ڈالنا چاہ رہے تھے۔

فاروق سمیع کے مطابق جب شیراز کو لیجایا جا رہا تھا تو ارغمان کے والد نے آواز دی کہ شیراز سنو تم مجھ سے 10 تاریخ کو ملے تھے۔ انہوں نے مزید بات کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں قریب آنے نہیں دیا لیکن شاید وہ شیراز کو کوئی پیغام دینا چاہتے تھے۔ شیراز کو پولیس ساتھ لے گئی لیکن ارمغان کے والد نے صحافیوں سے کہا کہ آپ کو میں کھانا کھلاؤں گا اور اپنا گھر بھی دکھاؤں گا لیکن ان کی اس دعوت کو کسی نے قبول نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس، انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ معطل، سندھ ہائیکورٹ نے ریمانڈ کے لیے ملزم کو طلب کرلیا

فاروق سمیع نے کہا کہ اس کے بعد پراسیکیوشن کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر کارروائی شروع ہوئی جس میں جسٹس ظفر احمد راجپوت کے ریمارکس تھے کہ یہ تو ریمانڈ ہو گیا تھا پھر وائیٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا گیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں ارمغان نے یہ بیان دیا تھا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا مجھے پھنسایا جا رہا ہے اور مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور مجھے  کمر کے نیچے مارا گیا۔

فاروق سمیع بتاتے ہیں کہ عدالت نے کیس انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 2 منتقل کیا اور اتفاق سے وہ انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 2 کے جج کے کنٹریکٹ کا  آخری دن تھا لیکن پولیس نے جب انہیں پیش کیا تو عدالت نے 4 روز کے لیے ارمغان کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

فاروق سمیع کے مطابق جب پراسیکیوشن نے عدالت سے ارمغان کے ریمانڈ کی استدعا کی تو یہ سنتے ہی وہ اچانک زمین پر گر گیا اور اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ وہاں موجود لوگوں نے ان پر پانی چھڑکا اور اٹھا کر بٹھانے کی کوشش کی پر لیکن ارمغان بار بار گرے جا رہا تھا تاہم اس پر عدالت نے اتنی توجہ نہیں دی لیکن تشدد کی شکایت پر عدالت نے ارمغان کے میڈیکل کرانے کا حکم دیا۔ ارمغان یہ ظاہر کرنا چاہ رہا تھا کہ اس کی طبعیت درست نہیں ہے۔

وکیل سرکار منتظر مہدی نے ارمغان کے بارے میں بتایا کہ وہ بلکل فٹ ہے۔ ہائیکورٹ میں جب پیش کیا تو خود چلتا ہوا گیا اور انسداد دہشتگردی عدالت میں بھی چلتا ہوا آیا ہے لیکن یہ بے ہوش ہونے والی حرکات اس لیے تھیں کہ وہ پولیس کسٹڈی سے خود کو بچانا چاہ رہا تھا۔

فاروق سمیع کہتے ہیں کہ پولیس کا روایتی رویہ نظر آیا اور اتنے سنگین کیس میں بھی پولیس کا پروفیشنل ازم نظر نہیں آیا۔ 2 پولیس اہلکار زخمی ہوں اور عدالت سے اس طرح کے سنگین کیس میں ریمانڈ لینے میں ناکامی پولیس کی کارکردگی پر بہت بڑا سوال ہے۔

شیراز کی جانب سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وہ ڈی ایچ اے کراچی میں پیدا ہوا اور اس کے والد کے ای ایس سی میں افسر تھے۔ اس نے بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کا کام کیا اور چند روز سے فلک ناز اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کی۔ اس بیان میں شیراز نے ارمغان کے بارے میں بتایا کہ ارمغان عرف آرمی بچہ میرا بچپن کا دوست اور اسکول فیلو ہے اور اسکول کے بہت عرصے بعد قریب ڈیڑھ سال قبل وہ میرے گھر آیا۔ اس کے پاس نئی نئی گاڑیاں ہوتی تھیں اور بہت پیسہ تھا اس لیے میں نے اس سے دوبارہ دوستی کرلی۔

شیراز کے بیان کے مطابق وہ ارمغان کے پاس جایا کرتا تھے۔ اس کے پاس 3 شیر کے بچے بھی تھے اور وہ کال سینٹر چلاتا تھا جس میں 30،35 افراد کام کرتے تھے۔ اس کے بنگلے پر 30،35 گارڈ تھے۔ ارمغان کے خلاف متعدد مقدمات تھے اس کے پاس لڑکیوں کا آنا جانا تھا اور جدید اسلحہ بھی تھا۔ ارمغان روز لڑائی جھگڑا کرتا تھا اور چرس کے نشے کا عادی تھا۔ شیراز نے بتایا کہ وہ بھی ڈیڑھ سال سے چرس پی رہا ہے۔

مصطفیٰ سے متعلق شیراز نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ وہ چرس کی سپلائی کرتا تھا اور ارمغان مصطفیٰ سے چرس لیتا تھا اور میری بھی مصطفیٰ سے دوستی ہوگئی تھی۔ نئے سال کی رات ارمغان نے اپنے بنگلے پر پارٹی رکھی تھی لیکن اس پارٹی مصطفیٰ نہیں تھا۔ 5 فروری کو مجھے ارمغان نے رات 10 بجے اپنے بنگلے میں بلایا میں جب گیا تو وہاں انجلی کھڑی تھی جس کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا۔ ارمغان نے آن لائن کیب بک کروائی اور انجلی کو کہا کہ اس کو اسپتال لے جاؤ اور ساتھ ہی اسے اسنائپر گن کی گولی دکھاتے ہوئے کہا کہ کسی کو کچھ بتایا تو یہ گولی بھیجے میں اتار دوں گا۔

شیراز کے بیان کے مطابق ارمغان نے مارپیٹ کی وجہ یہ بتائی کہ نیو ایئر نائٹ پر انجلی نے ارمغان کے جسم کے نازک حصے پر کاٹا تھا اور اس کے دوسرے روز مصطفیٰ عامر نے ارمغان کو چھلے ہوئے کیلے کی تصویر بھیجی تھی جس کی وجہ سے انجلی پر تشدد کیا گیا۔ شیراز نے بتایا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ نے اسے کال کی اور رات 9 بجے وہ ارمغان کے بنگلے پر چرس کے ساتھ آگیا جس کے بعد اس نے ارمغان کو چرس دی اور ڈیڑھ لاکھ روپے لینے کے بعد ہمارے ساتھ چرس پی رہا تھا کہ ارمغان نے اسے مارنا شروع کردیا۔

شیراز نے کہا کہ مصطفیٰ کا انٹرنیشنل نمبر سے کال کرنے والا ارمغان تھا یا کوئی اور مجھے اس بات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی میں اس سے قبل کسی مقدمے میں ملوث تھا۔

یوں تو اس بیان کی قانونی کوئی حیثیت حاصل نہیں اور نہ ہی ارمغان کا پولیس کے سامنے اعترافی بیان کی کوئی اہمیت رکھتا ہے لیکن ان بیانات سے مقدمہ کھل کر سامنے ضرور آگیا ہے۔
مزید پڑھیے: مصطفیٰ عامر کے بعد از تدفین پوسٹ مارٹم کے لیے 3 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل

اس وقت پولیس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج شیراز اور ارمغان کا بیان ہے جو مجسٹریٹ کے روبرو قلمبند ہونا ہے اگر ان دونوں ملزموں نے مجسٹریٹ کے روبرو بھی اپنے اعترافی بیانات قلمبند کرادیے تو پھر ان بیانات کو قانونی اہمیت حاصل ہو جائے گی اور متعلقہ مجسٹریٹ خود اس کیس میں گواہ بن جائے گا۔ لیکن پولیس کا نظام کچھ ایسا ہے کہ قانونی مراحل عبور کرتے کرتے کیس کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے۔ اسی پولیس کے سامنے اعتراف کرنے والے عدالت کے سامنے اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں۔

اس کیس میں اب بھی بہت کچھ آنا باقی ہے خاص طور پر وہ لاپتا لڑکیاں جو مصطفیٰ اور ارمغان کی مشترکہ دوست تھیں۔ ان تک پولیس کی رسائی، موبائل فونز ڈیٹا، سی سی ٹی وی کیمرا ریکارڈنگز اور تجوریوں کے اندر کا ’خزانہ‘ اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر باہر آئے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

کراچی مصطفیٰ عامر قتل کیس مصطفیٰ عامر مصطفیٰ عامر قتل مصطفیٰ عامر قتل کیس مصطفیٰ عامر کا مبینہ قاتل ارمغان

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کراچی مصطفی عامر قتل کیس مصطفی عامر مصطفی عامر قتل مصطفی عامر قتل کیس انسداد دہشت گردی عدالت شاہمیر خان کے مطابق فاروق سمیع کے مطابق کے مطابق ارمغان ارمغان کے والد پولیس کے سامنے سندھ ہائیکورٹ ارمغان کے گھر کے مطابق شاہمیر خان نے پولیس اہلکار عامر قتل کیس نے ارمغان کے ان کے گھر سے کی بات ہے تو اور ساتھ ہی نے بتایا کہ اور ارمغان لیکن پولیس کی جانب سے تھا اور اس ہوا تھا جس کی کوشش کی کے والد نے وہ ارمغان تو ارمغان کرتے ہوئے ارمغان کا ارمغان کو کہ ارمغان میں بتایا جس کے بعد نے کہا کہ جس کی وجہ کی وجہ سے ان کے پاس اور اس کے کہ پولیس نے پولیس انہوں نے کے روبرو جنوری کو پولیس نے عدالت نے کو پولیس شیراز کے پولیس کو شیراز کو کرتا تھا کی والدہ پولیس کی میں ایک چکا تھا کے ساتھ کیا اور لیکن ان نے اپنے کیس میں ہیں اور کیا گیا رہے تھے پیش کیا کیوں کہ رہا تھا جہاں تک اور اسی اس لیے اس کیس رہا ہے جا رہا یہ بھی تھی کہ گیا ہے گیا تو اور ان تھا کہ ہے اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-8

 

شاہنواز فاروقی

انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کر سکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تا کہ خوش ہو سکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تا کہ انبساط محسوس کر سکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تا کہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہو جائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ’’کمیونز‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ’’مسرت‘‘ حاصل ہو سکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئے، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہو سکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن بہر حال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصویر انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔

انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکار حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادّی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مازی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔

چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادّی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اول و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلا شبہ انسان ایک جسم بھی ہے، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اْٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنا دیتا ہے، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح نفس اور جسم پر محیط ہے۔

رسول اکرمؐ کے عہد میں اگر چہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں، ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنے، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرمؐ کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہو گئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھے، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارالسلام سے فرار ہو گئے، یا پھر معاشرے میں نا قابل اثر بن کر رہ گئے۔

انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ’’مدلل‘‘ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں بھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہا کہ انسان ایک مادی حقیقت ہے، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی شے ہے، طبیعیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی چیز ہے… غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہو گیا۔ انسانوں نے کہا کہ اصل چیز سرمایہ ہے، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہے، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہے، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہے، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سر چشمہ بن گئی۔

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟

اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں لیکن مادّی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نظام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو در پیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہے، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشتر کہ منڈی کا تصور ہے، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشتر کہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نے…  مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ جو بھی سماجی بہبود، کم اوقات کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی ہے۔

مادّی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ء میں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ’’پیمانۂ مسرت‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روز گار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ تائیوان نے ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی نماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادّی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور نا کافی بھی۔

اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کر کے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔

ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہو جائے، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔

اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہے؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کر سکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔

اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کسی حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہے، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔

اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیے، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔

یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے نا آشنا ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ٹریفک پولیس اہلکار کا ’ای چالان‘ سے بچنے کیلئے جوگاڑ سوشل میڈیا پر وائرل
  • پاکستان میں ہیلتھ کا بجٹ گیارہ سو 56 بلین روپے ہے، سید مصطفی کمال
  • برطانیہ میں ٹرین پر چاقو سے حملہ، 10 افراد زخمی، دو مشتبہ حملہ آور گرفتار
  • برطانیہ میں ٹرین پر چاقو سے حملہ، 10 افراد زخمی، دو مشتبہ حملہ آور گرفتار
  • پشاور: سی ٹی ڈی تھانے میں شارٹ سرکٹ سے دھماکا، ایک اہلکار شہید، 2 زخمی
  • برطانیہ کی ٹرین میں چاقو حملہ، 10 افراد زخمی، 9 کی حالت تشویشناک
  • برطانیہ : ٹرین میں چاقو کے حملے میں 10 افراد زخمی، 2 مشتبہ افراد گرفتار
  • چیئرمین نظام مصطفی پارٹی حنیف طیب اجتماع سے خطاب کررہے ہیں
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • لاہور: خاتون ایم پی اے کا بیٹا اسنوکر کلب میں جوا کھیلتے ہوئے گرفتار، پولیس