سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت شروع ہو گئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل جاری ہیں جبکہ گزشتہ سماعت پر بیرسٹر اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کیے تھے۔
اس سے قبل فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے بھی دلائل مکمل کر رکھے ہیں، درخواست گزار کے وکیل خواجہ احمد حسین کے بھی دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ وفاق، پنجاب، بلوچستان، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور شہداء فاونڈیشن نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے وکیل
پڑھیں:
نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلیے نظام انصاف میں جدت لانے اور منصوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر زور دیا ہے،یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ کا ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
18جولائی کی عدالتی کارروائی کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جو 28دن بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پبلک ہوا ہے غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی سے متعلق اپیل کا ہے۔عدم پیروی پر اپیل کو مسترد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کے خاتمے کے مترادف ہوتی ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر عوام کے عدلیہ کے عوام پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے،قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے،کمزور اور پسماندہ طبقات کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل عدالتی کارروائی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو غیر حقیقی بناتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے،اس وقت پاکستان بھرکی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے تقریباً 55ہزار 9سو 41مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالت کو بطور ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری فوری طور پر ایک جدید، جواب دہ اور سمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا ۔