برلن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 فروری ۔2025 )جرمنی میں قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹس نے انتخابات میں واضح سبقت حاصل کر لی ہے تاہم توقعات کے برعکس جماعت کو 30 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے ہیں کرسچن ڈیوکریٹس کے سربراہ فریڈرک مرز کی جرمنی کے چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو چکی ہے وہ اس وقت جرمن پارلیمان میں قائد حزب اختلاف ہیں.

(جاری ہے)

پوری مغربی دنیا میں اس وقت دائیں بازو کے قدامت پرست طاقت میں آرہے ہیں اور روشن خیال لبرل جماعتیں کمزور ہورہی ہیں انتخابات میں واضح سبقت کے بعد فریڈرک مرز نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج رات ہمیں جشن منانا چاہیے مگر صبح ہم سب کام پر چلے جائیں گے انہوں نے کہا کہ وہ ان چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں جن کا انہیں آگے سامنا کرنا ہے.

جرمنی کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر اکثریت حاصل کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یعنی اے ایف ڈی ہے، جسے 20.8 فیصد ووٹ ملے اے ایف ڈی کی طرف سے چانسلر کی امیدوار ایلس ویڈل نے اپنے حامیوں کی طرف جیت کا نشان بنایا اگرچہ ان کی جماعت کو اس سے کہیں زیادہ ووٹ ملنے کے امکانات تھے شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت اے ایف ڈی کے مرکزی دفتر میں سوگ جیسا ماحول ہے مشرقی جرمنی میں اے ایف ڈی کو واضح سبقت حاصل ہوئی ہے.

ایلس ویڈل نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ جرمنی کے عوام نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ فریڈرک مرز کی طرف سے اتحاد بنانے کی کوئی بھی کوشش ناکامی پر منتج ہوگی وہ کہتی ہیں کہ ہم دوبارہ انتخابات کرائیں گے مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مزید چار برس انتظار کرنا ہوگا. تین سیاسی جماعتوں، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، فری ڈیموکریٹک پارٹی اور گرینز کے درمیان طے پانے والا یہ اتحاد جرمنی کے اب تک کے بدترین معاشی اور حفاظتی چیلنجز اور آپسی نظریاتی اختلاف کے نتیجے میں ٹوٹ گیا تھا اولاف شولز نے اپنے لبرل خیال کیے جانے والے وزیر خزانہ اور ایف ڈی پی پارٹی کے کرسچن لنڈنر کو بجٹ پر اختلاف ہونے کی وجہ سے نکال دیا تھا.

شولز نے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا مگر وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں 23 فروری کے لیے سنیپ الیکشن کا انعقاد کیا گیا یہ انتخابات گذشتہ برس ستمبر میں ہونے تھے مگر اتحادی جماعتوں میں اختلاف کے نتیجے میں ان الیکشن کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا گیا واضح رہے کہ برلِن یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ آبادی پر مشتمل ریاست بھی ہے برلن کے سیاسی اور معاشی معاملات کا اثر پورے یورپی اتحاد پر پڑتا ہے ان انتخابات سے قبل قدامت پسند فریڈرک مرز نے ووٹرز سے یہ اپیل کی تھی کہ انہیں واضح برتری چاہیے تا کہ وہ ایک پارٹی کے اتحاد سے حکومت بنا سکیں انہوں نے یہ کہا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ چیز اگلے چار برس میں انہیں جرمنی کو درپیش مسائل حل کرنے میں مدد دے گی.

انتخابات میں ٹرن آﺅٹ 83 فیصد رہا جو کہ 1990 میں دیوار برلن کے انہدام اور منقسم جرمنی کے اتحاد کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آﺅٹ ہے فریڈرک مرز کی اتحادی جماعت باوارین کے ساتھ مل کر 28.6 فیصد سے کہیں زیادہ ووٹوں کی توقع تھی مگر ایسا ہو نہ سکا فریڈرک مرز نے اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جرمنی میں مرکزی دھارے کی جماعتوں کا انتہا پسند جماعتوں سے اتحاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا.

فریڈرک مرز کے ممکنہ اتحادی سوشل ڈیموکریٹس کو صرف 16.4 فیصد ووٹ حاصل ہو سکے چانسلر اولف شیلز نے کہا ہے کہ ان انتخابات میں ان کی جماعت کو بدترین شکست ہوئی ہے اور اب وہ اتحادی حکومت بنانے سے متعلق مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے 69 برس کے فریڈرک مرز کبھی کسی اہم حکومتی عہدے پر نہیں رہے مگر ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر وہ چانسلر بنے تو پھر وہ یورپ کی قیادت کریں گے اور یوکرین کے لیے بھرپور حمایت حاصل کریں گے.

اے ایف ڈی پارٹی کے لیے امریکی ارب پتی ایلون مسک اور امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس کی کھلی حمایت دیکھ کر بہت سے جرمن شہری دنگ رہ گئے امریکی نائب صدر پر تو میونخ میں ان کے دورے کے دوران جرمنی کے انتخابات میں مداخلت جیسے الزامات بھی عائد ہوئے اس سے اے ایف ڈی کو کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے گذشتہ چار برس کے مقابلے میں ایلس ویڈل کی جماعت کو دس پوائٹ زیادہ ووٹ ملے ہیں ان کی کامیابی کے پیچھے ٹک ٹاک والا عنصر بھی تھا جہاں سے انہیں زیادہ نوجوان ووٹر ملے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فریڈرک مرز پر خوشی کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ جرمن عوام بھی امریکی عوام کی طرح خصوصاً انرجی اور امیگریشن جیسی غیر واضح پالیسیوں سے تنگ تھے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انتخابات میں فریڈرک مرز واضح سبقت اے ایف ڈی کی جماعت جماعت کو جرمنی کے نے اپنے کے لیے

پڑھیں:

چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر

واشنگٹن:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین پر عائد 145 فیصد درآمدی ٹیرف میں کمی کی جائے گی تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کمی کی شرح کیا ہوگی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ "ہم چین کے ساتھ بہترین ڈیل کرنے جا رہے ہیں، چین کو ہر حال میں معاہدہ کرنا ہوگا، اگر وہ نہیں کرتا تو ہم اپنی شرائط پر ڈیل طے کرلیں گے۔"

اس سے قبل امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے ایک نجی تقریب میں کہا تھا کہ امریکا اور چین کے درمیان جاری ٹیرف تنازعہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور دونوں بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی کشیدگی میں کمی کی امید ہے تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز تاحال نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ امریکا نے چینی مصنوعات پر 145 فیصد تک کے ٹیرف عائد کیے ہیں جبکہ چین نے جوابی اقدام کے طور پر امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیرف لگا رکھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • کراچی کی مشہور لسّی جو پنجاب سے آئے مہمان بھی پسند کرتے ہیں
  • جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا غزہ میں فوری امداد کی فراہمی شروع کرنے کا مطالبہ
  • کشمیر حملے کا جواب ’واضح اور سخت‘ دیں گے، بھارتی وزیر دفاع
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر
  • انٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن
  • سابق آسٹریلوی کرکٹر اور کمنٹیٹر کو 4 سال قید کی سزا
  • سابق آسٹریلوی کرکٹر مائیکل سلیٹر کو 4 سال قید کی سزا
  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ