سرکاری ڈاکٹروں سے ٹیکس لینے کے کیس میں عدالت کا بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
پشاور:
سرکاری ڈاکٹروں سے ٹیکس لینے سے متعلق کیس میں عدالت نے بڑا فیصلہ سنا دیا۔
ہائی کورٹ میں سرکاری ڈاکٹروں سے سالانہ پروفیشنل ٹیکس لینے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں جسٹس ارشد علی نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں سرکاری ڈاکٹروں سے پروفیشنل ٹیکس کی وصولی کو قانونی قرار دے دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزاروں کے مطابق اُن سے سالانہ پروفیشنل ٹیکس کٹوتی کی جا رہی ہےْ۔پروفیشنل ٹیکس کی کٹوتی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔درخواست گزاروں نے خیبر پختونخوا ٹیکس رولز کے سیکشن 10 کو چیلنج کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے مطابق یہ آمدن پر ٹیکس نہیں ہے بلکہ پیشے پر ٹیکس ہے۔ خیبر پختونخوا ٹیکس رولز کے سیکشن 10 کے تحت سول سرونٹس اور statutory body ملازمین سے ٹیکس وصول کیا جا تا ہے۔فنانس ایکٹ 1990 میں ٹیکس کٹوتی کا طریقہ کار موجود ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فنانس ایکٹ 1990 کے تحت اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے پروفیشنل ٹیکس کٹوتی واضح ہے۔ ایک درخواست گزار ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت statutory body ملازم ہے۔ 2دیگر درخواست گزار سول سرونٹس ہیں۔دونوں کیٹیگری کے ملازمین پر مذکورہ ٹیکس نافذ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری ڈاکٹروں سے
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔ دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔(جاری ہے)
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔