اس سال رمضان میں بینک اکاونٹ میں کتنی رقم پر زکوٰة کٹے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
ملک میں یکم رمضان کو بینک اکاوٴنٹ میں ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے یا اس سے زائد رقم موجود ہوئی تو زکوٰة کی کٹوتی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے سال 2025 کے لیے زکوٰةکا نصاب جاری کر دیا ہے۔ وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کی جانب سے بینکوں کو مراسلہ بھیجا گیا ہے جس کے مطابق بچت اکاوٴنٹ، نفع ونقصان اور اس طرح کے اکاوٴنٹس پر زکوٰة لاگو ہوگی، کرنٹ اکاوٴنٹس سے زکوٰةنہیں کاٹی جائے گی۔بینکوں کو بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ زکوٰة کی مد میں کٹوتی یکم یا 2 مارچ کو رمضان کی پہلی تاریخ کی مناسبت سے ہوگی۔مراسلے میں کہا گیا کہ زکوٰة و عشر آرڈیننس 1980 کے مطابق یکم رمضان المبارک کو 1 لاکھ 79 ہزار689 روپے سے کم بیلنس کے اکاوٴنٹس زکوٰة کٹوتی سے مستثنٰی ہوں گے اور ان سے زکوٰة منہا نہیں کی جائے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ٹرمپ کا میئر نیویارک کیلئے اینڈریو کومو کی حمایت کا اعلان، ممدانی کی جیت پر فنڈز کی کٹوتی کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق گورنر اینڈریو کومو کی نیویارک سٹی کے میئر کے طور پر حمایت کا اعلان کیا اور خبردار کیا کہ اگر ڈیموکریٹک امیدوار زہران ممدانی میئر کا الیکشن جیت گئے تو وہ شہر کے وفاقی فنڈز روک سکتے ہیں۔
ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو نیویارک کے میئر کے انتخاب پر اکثر تبصرہ کرتے رہے ہیں، نے جماعتی حد پار کرتے ہوئے کومو کی حمایت کرکے انتخابی مہم میں مزید مداخلت کی، انہوں نے ممدانی اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا دونوں کے مقابلے میں کومو کا ساتھ دیا، سلیوا ایک بڑے ڈیموکریٹک شہر میں عوامی سرویز میں کافی پیچھے ہیں۔
مائیک کومو، جو طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنما رہے ہیں، ممدانی کے ہاتھوں ڈیموکریٹک پرائمری میں شکست کے بعد بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔
منگل کو ہونے والا نیویارک سٹی کا انتخاب قومی سطح پر بڑی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ ٹرمپ کی مخالفت کے تناظر میں اسے خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی مستقبل کی سمت کے تعین میں اہم سمجھا جا رہا ہے ۔
خود کو ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ کہنے والے 34 سالہ زہران ممدانی سروے میں کومو سے آگے ہیں، انہوں نے نوجوان اور ترقی پسند ووٹرز کو متحرک کیا ہے لیکن اس سے پارٹی کے معتدل طبقے میں تشویش پیدا ہوئی ہے کہ کہیں پارٹی بہت زیادہ بائیں بازو کی طرف نہ چلی جائے۔
ریپبلکنز نے ممدانی پر انتخابی مہم کے دوران سخت تنقید کی ہے، اور ٹرمپ نے انہیں ’کمیونسٹ امیدوار‘ قرار دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’چاہے آپ کو اینڈریو کومو پسند ہوں یا نہیں، آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، آپ کو انہیں ووٹ دینا چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ وہ بہترین کام کریں گے، وہ اس کے قابل ہیں، ممدانی نہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کمیونسٹ امیدوار زہران ممدانی نیویارک سٹی کے میئر کے الیکشن میں جیت جاتے ہیں تو یہ بہت مشکل ہوگا کہ میں کم ازکم درکار فنڈز کے علاوہ اپنے پہلے پیارے گھر کے لیے وفاقی فنڈز فراہم کروں‘۔
نیویارک ریاست کے کمپٹرولر کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت مالی سال 2026 میں نیویارک سٹی کو 7.4 ارب ڈالر فراہم کر رہی ہے، جو شہر کے کل بجٹ کا تقریباً 6.4 فیصد بنتا ہے۔
ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت میں ماحولیاتی پالیسیوں، ٹرانس جینڈر حقوق، اسرائیل کے خلاف فلسطین کے حق میں مظاہروں، اور نسلی مساوات کی پالیسیوں پر وفاقی فنڈز میں کٹوتی کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔
یوگنڈا نژاد ریاستی اسمبلی کے رکن زہران ممدانی نے 24 جون کو ہونے والے ڈیموکریٹک پرائمری میں حیران کن کامیابی حاصل کی تھی۔
زہران ممدانی نے اپنی انتخابی مہم میں نیویارک کے عوام کو ایسے روایتی سیاستدانوں کے خلاف منظم کیا ہے جیسے اینڈریو کومو، جو تین بار نیویارک کے گورنر منتخب ہوئے لیکن 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزامات پر استعفیٰ دے دیا۔
امریکی محکمہ انصاف کی تحقیقات میں بھی یہ نتیجہ نکلا کہ اینڈریو کومو نے کم از کم 13 خواتین سرکاری ملازماؤں کے لیے جنسی طور پر ہراساں کرنے والا ماحول پیدا کیا۔
زہران ممدانی نے ٹرمپ کی جانب سے اینڈریو کومو کی حمایت کے بعد ایک ریلی میں کہا کہ ’امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ تحریک کا اینڈریو کومو سے اتحاد ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سوچ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہی میئر ان کے لیے سب سے موزوں ہوگا، وہ دونوں ایک جیسے ڈونرز، ایک جیسا محدود وژن اور ایک جیسی بے خوفی رکھتے ہیں‘۔
زہران ممدانی کے منشور میں نیویارک کے امیر ترین طبقے پر ٹیکس میں اضافہ، کارپوریشن ٹیکس کی شرح بڑھانا، کرایہ منجمد کرنا اور سرکاری مالی امداد سے ہاؤسنگ کے منصوبے بڑھانا شامل ہیں۔
ان کا سیاسی ابھار ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے امکانات اور خطرات دونوں رکھتا ہے، کیونکہ ایک طرف وہ نوجوان ووٹرز کو متوجہ کر رہے ہیں، تو دوسری جانب اسرائیل کے قبضے کے خلاف ان کے مؤقف اور ان کے سوشلسٹ نظریات نے وال اسٹریٹ اور کاروباری طبقے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔