یوکرین جنگ میں پاکستان کی مداخلت اور اسلحہ سپلائی کے کوئی ثبوت نہیں ملے، روس
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
دفتر خارجہ نے یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں انتہائی غیر جانبداری کی پالیسی برقرار رکھی اور اس تناظر میں انہیں کوئی اسلحہ یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ماسکو نے پاکستان کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کردیا، روسی سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ماسکو کو یوکرین جنگ میں پاکستان کی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ روسی سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین میں پاکستانی اسلحے کے استعمال کے تاحال کوئی ثبوت نہیں ملے، یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ روسی سفارتی ذرائع کے مطابق یوکرین میں پاکستانی اسلحے کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ماسکو ان الزامات کی بنیاد پر پاکستان کی قیادت سے رابطے میں تھا، ماسکو نے پاکستان کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی خبروں کے حوالے سے تحقیقات کیں، ماسکو کو پاکستان کے خلاف اب تک بلواسطہ یا بلا واسطہ کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی اسلحے یا گولہ بارود کے روس کے خلاف یوکرین میں استعمال کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے، ماسکو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ رابطے میں تھا۔ واضح رہے کہ بی بی سی نے نومبر 2023 میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے 2022 میں دو نجی امریکی کمپنیوں کے ذریعے 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے ہتھیار مبینہ طور پر روس کے ساتھ جنگ کے لیے یوکرین کو بھیجے گئے۔
بی بی سی اردو کی خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مبینہ پیش رفت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دور حکومت میں ہوئی۔ پی ڈی ایم ایک کثیر الجماعتی اتحاد تھا جس نے اپریل 2022 میں عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کر دیا تھا، اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے، جو بعد ازاں نومبر 2022 میں ریٹائر ہوئے۔ روس اور یوکرین کا بحران 24 فروری 2022 کو شروع ہوا تھا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی فورسز کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا۔
دفتر خارجہ نے یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں انتہائی غیر جانبداری کی پالیسی برقرار رکھی اور اس تناظر میں انہیں کوئی اسلحہ یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا۔ بعدازاں نومبر 2023 میں یوکرین کے وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں لے رہے۔ پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے یوکرین کے وزیرخارجہ دیمترو کولیبا نے کہا تھا کہ روس-یوکرین جنگ کا کوئی جواز نہیں کہ یوکرین اپنے دوست ممالک سے تعلقات بھول جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پہلا یوکرینی وزیرخارجہ ہوں جو یوکرین کی آزادی کے بعد پاکستان آیا، میرے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان ایسے دورے ضروری ہیں۔ بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے 155 ایم ایم گولوں (شیلز) کی فروخت کے لیے گلوبل ملٹری اور نارتھروپ گرومین نامی امریکی کمپنیوں کے ساتھ دو معاہدے کیے، مزید بتایا گیا کہ دونوں معاہدوں پر دستخط 17 اگست 2022 کو ہوئے اور یہ معاہدہ خاص طور پر 155 ایم ایم گولوں کے لیے تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ گلوبل ملٹری کے ساتھ 23 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا معاہدہ جبکہ نارتھروپ گرومین کے ساتھ 13 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا ایک اور معاہدہ کیا گیا، بی بی سی اردو کے مطابق یہ معاہدے گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر 2023 میں ختم ہو گئے۔
پاکستان سے خفیہ پروازیں:
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ یہ ڈیلیوری نور خان ایئر بیس سے برطانوی فوجی کارگو طیارے میں کی گئی، جو 5 بار راولپنڈی میں اترا۔ اس طرح کا پہلا طیارہ اسی روز راولپنڈی میں اترا جس دن سابق آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینڈہرسٹ کی رائل ملٹری اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران پاک ۔ برطانیہ تعلقات کو ’تاریخی بلندیوں‘ تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہر بار طیارے نے نور خان ایئربیس سے قبرص میں برطانوی فوجی اڈے اور پھر رومانیہ کے لیے اڑان بھری، وہ بھی ایسے وقت میں جب روس، رومانیہ کے پڑوسی ملک یوکرین میں جنگ لڑ رہا تھا۔
بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں اپنے دعوے کے حق میں مزید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 23-2022 کے دوران ملک کی اسلحے کی برآمدات میں 3 ہزار فیصد اضافہ ہوا، پاکستان نے 22-2021 میں ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا جبکہ 23-2022 میں یہ برآمدات41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رپورٹ میں یوکرین سیکیورٹی اسسٹنس انیشی ایٹو کی ایک دستاویز کا بھی حوالہ دیا گیا، جو کہ یوکرین کے روس کے خلاف دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا امریکی محکمہ دفاع کا فنڈنگ پروگرام ہے۔ اس دستاویز میں اگست 2022 میں یوکرین کو 155 ایم ایم گولوں کی فراہمی سے متعلق معاہدوں کو ظاہر کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی تھی کہ گلوبل ملٹری اور نارتھروپ کے ساتھ اگست 2022 میں پاکستان کے 155 ایم ایم گولوں کے دو معاہدوں کی مالیت بھی تقریباً 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کوئی ثبوت نہیں ملے تھا کہ پاکستان نے سفارتی ذرائع میں پاکستان پاکستان کی یوکرین میں پاکستان کے گولہ بارود کہا تھا کہ لاکھ ڈالر رپورٹ میں کے مطابق کے ساتھ کیا گیا کے لیے گیا کہ
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔