عمومی طور پر تعلیم معاشروں کی تشکیل کرتی ہے۔اس تشکیل میں ایک بنیادی نقطہ سماجی تعلقات کا بھی ہے۔سماجی تعلقات سے مراد کہ تعلیم کا نظام یا تربیت ہم پر اس طرح سے اثر انداز ہو کہ ہم اس تعلیم کو بنیاد بنا کر معاشرے میں رہنے والے مختلف فریقین کے ساتھ اپنے سماجی سطح کے تعلقات کو بھی مضبوط بناسکیں۔
ان سماجی تعلقات میں خاندان اور خاندان سے باہر کے افراد سب شامل ہوتے ہیں۔یعنی ہم اپنے نجی حوالے سے جہاں جہاں حرکت میں آتے ہیں وہیں ہمارے سماجی تعلقات کی نوعیت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ہم تعلیم کو بنیاد بنا کر سماجی سطح پر انصاف،رواداری اور برابری کی بات کرتے ہیں۔اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے سماجی تعلقات کی نوعیت سماجی انصاف ہی کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے۔یعنی ہم سماجی رشتوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکیںاوران کو برابری کے اصول پر پرکھا جائے تاکہ تفریق و تعصب کو پہلو نمایاں نہ ہو۔
لیکن ہماری تعلیم سماجی تعلقات میں سب کو یکجا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔مذہبی بنیادوں پر، فرقہ وارانہ بنیادوں پر، لسانی بنیادوں پر، علاقائی بنیادوں پر زبان کی بنیاد پر، اور سیاسی بنیادوں پر لوگ تقسیم ہو رہے ہیں۔تقسیم کا یہ عمل برا نہیں یقینی طور پر لوگ اپنی اپنی سوچ اور فکر رکھتے ہیں۔
لیکن اگر تقسیم کا یہ عمل لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں تعصب اور نفرت کو پیدا کر رہا ہے یا ان میں دوری یا ان کے سماجی تعلقات کو متاثر کررہا ہے تو یہ عمل معاشرے میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرتا ہے۔
گھریا خاندان کے نظام کوہی لے لیں تو یہ بھی بہت زیادہ سماجی تعلقات میں بگاڑ کا سبب پیدا کر رہا ہے۔گھر اور خاندان کا نظام نہ صرف اکٹھے مل کر چلنے کے لیے تیارنہیں بلکہ وہ مل کر ساتھ رہنے کے لیے بھی تیار نہیں۔یعنی ہمارا تعلیمی نظام یا تعلیمی نصاب نئی نسل کو یہ سمجھانے کے لیے ہی تیار نہیں ہے کہ انھیں مختلف رشتوں کی سطح پر اپنے سماجی تعلقات کو کیسے استوار کرنا ہے اور کیسے ان کوآگے بڑھانا ہے۔
ان رشتوں میں سماجی رابطے کیسے مضبوط بنانے ہیں اور کیسے ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔یہ جو سماج میں ایک دوسرے کے بارے میں لاتعلقی کا احساس پیدا ہو رہا ہے یا ہم ایک دوسرے سے فاصلے بڑھاتے جا رہے ہیں۔اسی طرح اس کی کیا وجوہات ہیں اور کیوں ہم اس کا علاج موجودہ تعلیمی نظام میں اصلاح کے حوالے سے تلاش نہیں کرسکے۔یہ جو سماج میں میاں بیوی کے رشتوں میں ابتدا ہی سے بگاڑ پیدا ہورہا ہے یا ان میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل کہاں کھوگیا ہے اوریا بچوں اور بچیوں کی شادی کے بارے میں آگاہی کے فقدان کا ذمے دار کون ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام آج بھی بہت زیادہ پرانے خیالات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔دنیا بھر میں جو نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور سماج میں جس انداز سے نئی تشکیل ہو رہی ہے اس کا ادراک ہمارے تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب میں نظر نہیں آتا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیم اور نصاب کا نظام اور سماج ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں بلکہ مختلف نظر آتے ہیں۔سماجی تعلقات کا عمل اسی صورت میں ہی مضبوط ہوتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی قبولیت کو یقینی بناتے ہیں۔یہ جو معاشرے میں ایک طبقاتی سوچ اور فکر کا غلبہ ہے یعنی ایک بڑا طبقہ خود کو بڑا اور اور دوسروں کو کمتر یا چھوٹا طبقہ سمجھتا ہے اس نے معاشرے کے اندر برابری کے پہلو کو نقصان پہنچایا ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سب برابر ہیں لیکن عملی طور پر جب ہم خود اس کی نفی کرتے ہیں تو اس عمل سے معاشرے میں تقسیم کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔یہ عمل محض معاشرے میں چند افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست اور حکمرانی کے نظام میں بھی اس کی بدترین شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں لسانی سیاست اور فرقہ وارانہ سیاست سمیت مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے پہلو نمایاں طور پر مضبوط ہیں۔اسی طرح سے مذہبی اقلیتوں سمیت عورتوں کے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں ہے۔
ریاست اور حکمرانی کے نظام کو جس طرح سے معاشرے کے کمزور طبقات پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تھی اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔بلکہ کئی مواقعوں پر یہ احساس غالب ہوتا ہے کہ یہ مسائل ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہے۔
آپ کسی بھی نجی محفل میں چلے جائیں چاہے وہ خیر رسمی ہو یا رسمی علمی ہو یا فکری ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ متعصب یا منفی رویے رکھتے ہیں۔ایک بات سمجھنی ہوگی اگر لوگوں کو معاشرے میں سیاسی سماجی اور معاشرتی انصاف نہیں ملے گا تو اس سے ان میں رد عمل کی سیاست پیدا ہوگی۔رد عمل کی یہ سیاست ان میں انتہا پسندانہ رجحانات کو جنم دیتی ہے۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر بہت سی مسائل کا ذمے دار نئی نسل کو قرار دیا جاتا ہے۔لیکن یہ سب بھول جاتے ہیں کہ جب تک آپ نئی نسل کے لوگوں کو معاشرے کے قومی دھارے میں شریک نہیں کریں گے تو ان نوجوانوں کو ریاست کے نظام کے ساتھ جوڑنا ممکن نہیں ہوگا۔
جب ڈھائی سے تین کروڑ بچہ اسکول جانے سے محروم ہو تو وہاں سماجی انصاف کی باتیں مذاق لگتی ہیں۔بنیادی طور پر تعلیم اور سماجی تعلقات کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو مضبوط بناکر ہم ایک ذمے دارانہ اور مہذہب معاشرے کی تشکیل نو کرسکتے ہیں۔لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اجتماعی طورپر اپنے تعلیمی اور معاشرتی نظام کی اصلاح کریں ۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا بلکہ جو بھی زمہ دار ہیں ان کام بھی کرنا ہوگا اور جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سماجی تعلقات تعلیمی نظام کے بارے میں بنیادوں پر بہت زیادہ ایک دوسرے اور سماج نہیں ہے پیدا ہو کے نظام کے ساتھ میں ایک یہ عمل
پڑھیں:
اے ڈی بی کا پاکستان کیلئے 33 کروڑ ڈالر اضافی امداد کا اعلان
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اےڈی بی نے پاکستان میں سماجی تحفظ پروگرام کیلئے 33کروڑ ڈالر اضافی امداد کا اعلان کردیا۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے سالانہ رپورٹ جاری کردی، سماجی تحفظ پروگرام سے 93 لاکھ افراد مستفید ہوں گے، بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کےلیے مشروط نقد منتقلی فراہم کیجائے گی۔
امدادی رقم سے بہتر غذائیت تک رسائی میں اضافہ کیا جائے گا، آفت زدہ علاقوں میں خواتین، نوجوان لڑکیوں اور بچوں کیلئے صحت کی خدمات شامل ہیں۔
وسطی اور مغربی ایشیاکواب بھی ترقیاتی تفریق اورسماجی بہبود کے چیلنجز کا سامناہے، افغانستان، کرغزستان اور پاکستان کو بلند غربت جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ان ممالک کو ضروری خدمات تک محدود رسائی جیسے مسائل درپیش ہیں۔
سنگجانی جلسہ کیس: اسد قیصر کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع
مزید :