Express News:
2025-06-09@13:37:33 GMT

پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔

اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔

پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔

 پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔

پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔

افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔

پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔

جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاک افغان تعلقات میں ہے کہ افغانستان افغانستان میں اور افغانستان افغانستان کے افغانستان کی دونوں ممالک ہے کہ افغان پاکستان کو پاکستان کے ٹی ٹی پی کے خلاف نہیں ہو دو طرفہ بات چیت رہا ہے ہے اور کے لیے کہ پاک

پڑھیں:

شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے

اسلام آباد‘ مکہ مکرمہ‘ جدہ (اے پی پی +خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نمائندہ خصوصی) وزیراعظم  شہباز شریف اور  فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے۔ وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ ولیِ عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ  کیا۔ انہوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب عمرہ کی ادائیگی کی۔ بیان کے مطابق پاکستانی وفد کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ خصوصی طور پر کھولا گیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور آپریشن بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ وزیراعظم اور  فیلڈ مارشل نے وفد کے ہمراہ  پاکستان کی معاشی میدان اور عوامی فلاح کیلئے اقدامات کے حوالے سے حالیہ کامیابیوں پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ بالخصوص ظلم و جبر کے شکار  کشمیری و فلسطینی مسلمان بہن بھائیوں کیلئے خصوصی دعائیں کیں۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء  اللہ تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد دی۔ ملاقات میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی‘ وزیر اطلاعات عطا تارڑ‘ سعودی سفیر نواف المالکی بھی موجود تھے۔ منیٰ پیلس میں ہونے والی ملاقات میں  دو طرفہ تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ باہمی دلچسپی کے امور اور دیرینہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے‘ خطے کی سکیورٹی صورتحال‘ معاشی و دفاعی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاقائی صورتحال اور قیام امن کیلئے مشترکہ کوششوں پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ ملاقات میں وزیر اعظم نے بھارت سے کشیدگی کم کرانے پر سعودی قیادت کے کردار کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے شاہی دیوان میں ولی عہد و وزیر اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے دئیے گئے خصوصی ظہرانے میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ ولی عہد سعودی عرب نے وزیراعظم کا بھرپور استقبال کیا اور خود گاڑی چلا کر وزیرِ اعظم کو ظہرانے میں شرکت کیلئے لے کر گئے۔ دونوں رہنماؤں کے مابین غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ ظہرانے میں مشرق وسطیٰ کے اہم رہنماؤں سمیت سعودی کابینہ کے ارکان اور اعلی سعودی سول و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم کا سعودی ولی عہد کی جانب سے شاندار استقبال اور ظہرانے میں بطور مہمان خاص شرکت، پاکستان و سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات اور وزیرِ اعظم کی قیادت میں پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا مظہر ہے۔وزیراعظم شہبازشریف اور سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کثیر جہتی تعلقات کو مزید گہرے کرنے کے لیے اپنے باہمی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق اعلامیہ میں بتایا گیا وزیراعظم محمد شہبازشریف نے سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے، سٹرٹیجک اور برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو عید کی مبارکباد پیش کی اور دنیا بھر سے حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود عازمین کے لیے سعودی عرب کی مہمان نوازی اور خدمات کو سراہا۔ انہوں نے حرمین شریفین کے متولی اور ولی عہد کی محفوظ اور روحانی طور پر تکمیل حج کے تجربے کو یقینی بنانے کی قابل ذکر کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے فعال کردار اور خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اس کے ثابت قدم عزم کو سراہا۔ انہوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر بھی تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر زور دیا اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جو عرب امن اقدام اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر مبنی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کی بڑھتی ہوئی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے قیادت کے مشترکہ وژن اور دونوں ممالک کے برادر عوام کی امنگوں کے مطابق اس سٹرٹیجک شراکت داری کو مزید بلند کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ولی عہد کو جلد از جلد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی پرزور دعوت دی جسے ولی عہد نے بخوشی  قبول کر لیا۔ جبکہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل ہوگیا۔ پرائم منسٹر آفس پریس ونگ کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اپنا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل کرکے پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے۔ گورنر جدہ، شہزادہ سعود بن عبداللہ جلاوی، سعودیہ عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی، پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر احمد فاروق اور اعلی سفارتی اہلکاروں نے جدہ ائیر پورٹ پر وزیرِ اعظم کو الوداع کیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • پاکستان اور سعودی عرب تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • طالبان کا مغرب نواز شہریوں کیلیے عام معافی کا اعلان؛ افغانستان واپس آنے کی دعوت
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • شہباز شریف کے عالمی رہنماؤں سے ٹیلیفونک رابطے، عید کی مبارکباد اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • غیرقانونی غیر ملکیوں اورافغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی باعزت وطن واپسی کا عمل جاری
  • شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے
  • افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک
  • ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات