UrduPoint:
2025-04-25@07:16:34 GMT

خواتین مردوں کی تربیت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

خواتین مردوں کی تربیت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) یہ وہی مرد ہیں جنہیں کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصول چٹکی بجاتے ہی سمجھ آ جاتے ہیں لیکن خواتین سے دو جملے ڈھنگ سے بولنا کبھی سمجھ نہیں آتا۔ وہ خواتین کے سامنے آتے ہی بوکھلا جاتے ہیں اور پھر بے تکی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی گفتگو ایک ایسا رخ اختیار کر لیتی ہے جس کے بعد خواتین انہیں اپنی نا پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیتی ہیں۔

اکثر مرد خواتین سے بات کرنے سے پہلے ہی اعلان کر دیتے ہیں کہ انہیں خواتین سے بات کرنی نہیں آتی۔ اگر وہ کوئی غیر مناسب بات کریں تو خاتون برا نہ مانیں بلکہ انہیں معاف کر دیں۔

زیادہ تر مرد جانتے ہیں کہ انہیں خواتین سے گفتگو کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کوشش کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔

(جاری ہے)

الٹا، وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بھی خواتین پر ڈال دیتے ہیں۔

بظاہر وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ خواتین ان سے ناراض ہونے کی بجائے انہیں بہتر طور طریقے سکھائیں لیکن ان کا مطلب یہ ہوتا ہے، "چونکہ آپ نے مجھے اپنے ساتھ گفتگو کے قابل سمجھا ہے تو اب آپ میری ہر بدتمیزی برداشت کریں۔ میں جو چاہے کہوں گا، جو چاہے کروں گا، آپ میری ہر بات اور حرکت کو برداشت کریں اور مجھے معافی اور سکھانے کے نام پر اپنے ساتھ بات کرنے کے مزید مواقع دیتی رہیں۔

"

خواتین بھی جب آپس میں مردوں کی بات کرتی ہیں تو اکثر ان کی غلط باتوں، رویوں اور حرکات کے لیے کوئی نہ کوئی توجیہ تلاش کر لیتی ہیں۔ وہ مردوں کو ان کی غلطیوں کے لیے جواب دہ ٹھہرانے کی بجائے ان کے رویوں کی ذمہ داری دوسری عورتوں پر ڈال دیتی ہیں۔

اگر شوہر کا کسی عورت سے افیئر چل رہا ہو تو الزام شوہر کے بجائے دوسری عورت پر آتا ہے۔

یقیناً اسی نے اسے بہکایا ہوگا۔ اگر شوہر ماں کی باتوں میں آ کر بیوی کو نظرانداز کر رہا ہے تو یہ ماں ہی ہوگی جس نے اسے بیوی سے اچھا سلوک کرنے سے روک رکھا ہے۔

دفتر میں اگر باس کوئی نامناسب بات کہہ دے تو اسے ان کی نادانی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں، ”شاید انہیں خود نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ چونکہ مردوں کی خواتین سے زیادہ بات چیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ نہیں جانتے کہ کون سی بات خواتین کے لیے ناگوار ہو سکتی ہے۔

" یہ توجیہات ان کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا کر غیر ضروری سمت میں لے جاتی ہیں۔

مرد بھی اسی معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں اور اس کے رسم و رواج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں بلکہ اکثر اوقات وہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ مرد جب دوسرے مردوں سے یا ان خواتین سے بات کرتے ہیں، جن کی وہ عزت کرتے ہیں تو اچانک انہیں اخلاقیات، تہذیب اور گفتگو کے آداب سب یاد آ جاتے ہیں۔

ان سے بات کرتے ہوئے نہ صرف ان کا غصہ قابو میں رہتا ہے بلکہ معاشرتی اصولوں اور سماجی رویوں کی باریکیاں بھی ان کی یاداشت میں تازہ ہو جاتی ہیں۔

جہاں بات ان خواتین کی ہو جن کے ساتھ یہ احتیاط برتنے کا ارادہ نہیں رکھتے وہاں یہ اچانک انجان بن جاتے ہیں۔ ایسے جیسے تہذیب اور شائستگی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہ ہوں۔ اپنی ہر بدتمیزی کو یہ کہہ کر جواز دیتے ہیں کہ "ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا" اور پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین نہ صرف انہیں سمجھائیں بلکہ ان کی ہر غلطی کو برداشت بھی کریں۔

ان کا یہ رویہ تھکا دینے والا ہے۔ خواتین انہیں سکھانے سے انکار کریں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ انہیں نہیں سکھائیں گی تو وہ کیسے سیکھیں گے۔ جس طرح یہ آدمی کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصولوں کو سمجھنے کے لیے دنیا میں موجود تمام وسائل کو کھنگھال سکتے ہیں اسی طرح یہ خواتین سے بات کرنے اور اچھا سلوک کرنے کے آداب بھی ڈھونڈ کر پڑھ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیکھنا نہیں چاہتے۔

وہ چاہتے ہیں کہ یہ محنت بھی خواتین کریں۔ خواتین جھوٹی امیدوں کے ساتھ انہیں سدھارنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ مرد اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد ان کے ساتھ مزید برا سلوک کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔پھر وہ کسی نئی عورت کے سامنے معصوم اور انجان بن کر پیش آتے ہیں اور اس سے بنیادی تمیز اور آداب سکھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔

خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ مردوں کی اصلاح یا ان کی تربیت کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ دار نہیں ہیں۔

انہیں مردوں کی بدتمیزی یا ناپسندیدہ رویوں کے لیے کوئی جواز تراشنے کے بجائے انہیں ان کے رویے کا جواب دہ ٹھہرانا چاہیے تاکہ مرد اپنی بات چیت اور رویے کے نتائج سے واقف ہوں اور آئندہ کسی بھی خاتون سے بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔

مردوں کو بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی جنگل میں نہیں رہتے۔ جس طرح وہ مردوں یا اپنی قابلِ عزت خواتین سے بات کرتے ہوئے تہذیب اور شائستگی کا خیال رکھتے ہیں، ویسا ہی رویہ انہیں ہر عورت کے ساتھ اپنانا چاہیے۔

خواتین سے گفتگو کرتے وقت بھی وہی اخلاقی اصول اور سماجی آداب لاگو ہوتے ہیں جو کسی بھی انسان کے ساتھ بات چیت میں ضروری ہیں۔ اگر وہ واقعی بہتر بننا چاہتے ہیں تو انہیں خواتین کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اوپر خود کام کرنا ہوگا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین سے بات سے بات کرتے دیتے ہیں ہوتے ہیں مردوں کی کرتے ہیں جاتے ہیں کے ساتھ ہیں کہ

پڑھیں:

مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے ملے گی شرائط کیا ہیں؟

ویب ڈیسک: سندھ حکومت نے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور روزمرہ سفر کے مسائل حل کرنے کے لیے مفت اسکوٹی اسکیم متعارف کرا دی ہے۔ یہ اسکیم خاص طور پر طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہے، جو روزانہ کی آمدورفت میں مشکلات کا شکار ہیں۔

قرعہ اندازی کے ذریعے اسکوٹی حاصل کرنے والی خواتین کو 7سال تک یہ اسکوٹی فروخت نہ کرنے کی پابندی ہو گی اور انہیں روڈ سیفٹی کا عملی امتحان بھی دینا ہوگا۔

صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس

 کراچی جیسے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی نے خواتین کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اسی مسئلے کا حل خود خواتین نے تلاش کیا اور روایتی موٹر سائیکل کی جگہ اب اسکوٹی کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے جو دنیا بھر میں خواتین کے لیے ایک بہتر اور محفوظ سفری متبادل سمجھا جاتا ہے،سندھ حکومت کی اس اسکیم کے تحت وہ خواتین مفت اسکوٹی حاصل کر سکتی ہیں جو مخصوص شرائط پر پوری اتریں گی۔

 اسکیم کیلئے اہل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ درخواست دہندہ سندھ کی مستقل رہائشی ہو اور یا تو طالبہ ہو یا ملازمت پیشہ، اس کے علاوہ اس کے پاس مصدقہ ڈرائیونگ لائسنس ہونا لازمی ہے۔

  واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر

 اسکیم میں ترجیحی بنیادوں پر سنگل مدر، بیوہ یا مطلقہ خواتین کو شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ زندگی میں خود کفالت کی جانب قدم بڑھا سکیں،اسکوٹی کی تقسیم شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے کی جائے گی جس میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی اور متعلقہ سرکاری محکموں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ایکسائز، ٹرانسپورٹ، فنانس اور میڈیا کے نمائندے شامل ہوں گے۔

لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا

 درخواست دینے کے خواہشمند افراد سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ www.smta.gov.pk پر جا کر ”پروجیکٹس“ کے سیکشن میں ”EV Scooty بیلٹ فارم“ کو بھر کر جمع کرا سکتے ہیں۔

 یہ اسکیم خواتین کو خودمختاری کی طرف بڑھنے آزادی سے کام پر جانے اور اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے میں ایک مؤثر قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

 خیال رہے کہ اس سے قبل پنجاب حکومت بھی ”پنک بائیک“ اسکیم کے ذریعے ایسی ہی کوشش کر چکی ہے، جس کا مقصد خواتین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا اور ان کیلئے محفوظ اور خودمختار سفر کو ممکن بنانا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے

متعلقہ مضامین

  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • کومل عزیز کی زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے، اداکارہ نے بتا دیا
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • وزیر اعظم شہباز شریف کا نئی نہروں کی تعمیر نہ کرنے کا اعلان
  • قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • سہواگ کی اپنے ہی کرکٹر پر سرجیکل اسٹرائیک، متنازع آؤٹ پر بول اُٹھے
  • ندا یاسر کا لائیو شو میں بڑا اعتراف، ساتھی اداکارہ کی شادی سے متعلق خبر جھوٹی تھی؟
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے ملے گی شرائط کیا ہیں؟