UrduPoint:
2025-07-26@09:15:50 GMT

خواتین مردوں کی تربیت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

خواتین مردوں کی تربیت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) یہ وہی مرد ہیں جنہیں کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصول چٹکی بجاتے ہی سمجھ آ جاتے ہیں لیکن خواتین سے دو جملے ڈھنگ سے بولنا کبھی سمجھ نہیں آتا۔ وہ خواتین کے سامنے آتے ہی بوکھلا جاتے ہیں اور پھر بے تکی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی گفتگو ایک ایسا رخ اختیار کر لیتی ہے جس کے بعد خواتین انہیں اپنی نا پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیتی ہیں۔

اکثر مرد خواتین سے بات کرنے سے پہلے ہی اعلان کر دیتے ہیں کہ انہیں خواتین سے بات کرنی نہیں آتی۔ اگر وہ کوئی غیر مناسب بات کریں تو خاتون برا نہ مانیں بلکہ انہیں معاف کر دیں۔

زیادہ تر مرد جانتے ہیں کہ انہیں خواتین سے گفتگو کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کوشش کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔

(جاری ہے)

الٹا، وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بھی خواتین پر ڈال دیتے ہیں۔

بظاہر وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ خواتین ان سے ناراض ہونے کی بجائے انہیں بہتر طور طریقے سکھائیں لیکن ان کا مطلب یہ ہوتا ہے، "چونکہ آپ نے مجھے اپنے ساتھ گفتگو کے قابل سمجھا ہے تو اب آپ میری ہر بدتمیزی برداشت کریں۔ میں جو چاہے کہوں گا، جو چاہے کروں گا، آپ میری ہر بات اور حرکت کو برداشت کریں اور مجھے معافی اور سکھانے کے نام پر اپنے ساتھ بات کرنے کے مزید مواقع دیتی رہیں۔

"

خواتین بھی جب آپس میں مردوں کی بات کرتی ہیں تو اکثر ان کی غلط باتوں، رویوں اور حرکات کے لیے کوئی نہ کوئی توجیہ تلاش کر لیتی ہیں۔ وہ مردوں کو ان کی غلطیوں کے لیے جواب دہ ٹھہرانے کی بجائے ان کے رویوں کی ذمہ داری دوسری عورتوں پر ڈال دیتی ہیں۔

اگر شوہر کا کسی عورت سے افیئر چل رہا ہو تو الزام شوہر کے بجائے دوسری عورت پر آتا ہے۔

یقیناً اسی نے اسے بہکایا ہوگا۔ اگر شوہر ماں کی باتوں میں آ کر بیوی کو نظرانداز کر رہا ہے تو یہ ماں ہی ہوگی جس نے اسے بیوی سے اچھا سلوک کرنے سے روک رکھا ہے۔

دفتر میں اگر باس کوئی نامناسب بات کہہ دے تو اسے ان کی نادانی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں، ”شاید انہیں خود نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ چونکہ مردوں کی خواتین سے زیادہ بات چیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ نہیں جانتے کہ کون سی بات خواتین کے لیے ناگوار ہو سکتی ہے۔

" یہ توجیہات ان کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا کر غیر ضروری سمت میں لے جاتی ہیں۔

مرد بھی اسی معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں اور اس کے رسم و رواج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں بلکہ اکثر اوقات وہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ مرد جب دوسرے مردوں سے یا ان خواتین سے بات کرتے ہیں، جن کی وہ عزت کرتے ہیں تو اچانک انہیں اخلاقیات، تہذیب اور گفتگو کے آداب سب یاد آ جاتے ہیں۔

ان سے بات کرتے ہوئے نہ صرف ان کا غصہ قابو میں رہتا ہے بلکہ معاشرتی اصولوں اور سماجی رویوں کی باریکیاں بھی ان کی یاداشت میں تازہ ہو جاتی ہیں۔

جہاں بات ان خواتین کی ہو جن کے ساتھ یہ احتیاط برتنے کا ارادہ نہیں رکھتے وہاں یہ اچانک انجان بن جاتے ہیں۔ ایسے جیسے تہذیب اور شائستگی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہ ہوں۔ اپنی ہر بدتمیزی کو یہ کہہ کر جواز دیتے ہیں کہ "ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا" اور پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین نہ صرف انہیں سمجھائیں بلکہ ان کی ہر غلطی کو برداشت بھی کریں۔

ان کا یہ رویہ تھکا دینے والا ہے۔ خواتین انہیں سکھانے سے انکار کریں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ انہیں نہیں سکھائیں گی تو وہ کیسے سیکھیں گے۔ جس طرح یہ آدمی کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصولوں کو سمجھنے کے لیے دنیا میں موجود تمام وسائل کو کھنگھال سکتے ہیں اسی طرح یہ خواتین سے بات کرنے اور اچھا سلوک کرنے کے آداب بھی ڈھونڈ کر پڑھ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیکھنا نہیں چاہتے۔

وہ چاہتے ہیں کہ یہ محنت بھی خواتین کریں۔ خواتین جھوٹی امیدوں کے ساتھ انہیں سدھارنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ مرد اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد ان کے ساتھ مزید برا سلوک کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔پھر وہ کسی نئی عورت کے سامنے معصوم اور انجان بن کر پیش آتے ہیں اور اس سے بنیادی تمیز اور آداب سکھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔

خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ مردوں کی اصلاح یا ان کی تربیت کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ دار نہیں ہیں۔

انہیں مردوں کی بدتمیزی یا ناپسندیدہ رویوں کے لیے کوئی جواز تراشنے کے بجائے انہیں ان کے رویے کا جواب دہ ٹھہرانا چاہیے تاکہ مرد اپنی بات چیت اور رویے کے نتائج سے واقف ہوں اور آئندہ کسی بھی خاتون سے بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔

مردوں کو بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی جنگل میں نہیں رہتے۔ جس طرح وہ مردوں یا اپنی قابلِ عزت خواتین سے بات کرتے ہوئے تہذیب اور شائستگی کا خیال رکھتے ہیں، ویسا ہی رویہ انہیں ہر عورت کے ساتھ اپنانا چاہیے۔

خواتین سے گفتگو کرتے وقت بھی وہی اخلاقی اصول اور سماجی آداب لاگو ہوتے ہیں جو کسی بھی انسان کے ساتھ بات چیت میں ضروری ہیں۔ اگر وہ واقعی بہتر بننا چاہتے ہیں تو انہیں خواتین کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اوپر خود کام کرنا ہوگا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین سے بات سے بات کرتے دیتے ہیں ہوتے ہیں مردوں کی کرتے ہیں جاتے ہیں کے ساتھ ہیں کہ

پڑھیں:

بھارتی انہیں کیسے ٹرول کر سکتے ہیں، ناصر چنیوٹی دلجیت دوسانجھ کے حق میں بول پڑے

معروف اداکار و کامیڈین ناصر چنیوٹی نے بھارتیوں سے گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ سے نفرت نہ کرنے کی اپیل کر دی۔

ناصر چنیوٹی کا کہنا تھا کہ دلجیت دوسانجھ بادشاہ ہے جب کوئی اپنے ملک کے بادشاہ کو برا کہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے، وہ نفرت نہیں تعریف کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا دلجیت نے پوری دنیا میں اپنا نام بنایا ہے جب ہم نے یہ فلم بنائی تب تک پہلگام والا واقعہ نہیں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتیوں کو کہا کہ آپ دلجیت کو کیسے ٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ تو آپ کا اپنا فنکار ہے آپ کا بھائی ہے اس سے محبت کریں۔ دلجیت دوسانجھ نے پنجابی ثقافت کو دنیا بھر میں جس انداز سے روشناس کرایا ہے، وہ یقینا لائق تحسین ہے۔ وہ ایک سچا سردار ہے

اداکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی فنکاروں کی موجودگی نے ثابت کیا ہے کہ فن سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور ہم اس کے شکر گزار ہیں اور پاکستان میں ’سردار جی 3‘، دلجیت دوسانجھ اور ہمیں بہت پیار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کسی بھارتی پروڈیوسر کے ساتھ کام نہیں کیا ہے بلکہ دلجیت دوسانجھ، گپی گریوال، امریندر گل اور امی ورک جیسے سپر اسٹارز کے ساتھ فلمیں کی ہیں۔ جو نہ صرف سپر اسٹارز ہیں بلکہ بھائیوں جیسے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے بائیکاٹ کے باوجود سردار جی 3 نے عالمی ریکارڈ توڑ دیے

واضح رہے کہ مشہور کامیڈین ناصر چنیوٹی نےحال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارتی پنجابی فلم ’سردار جی 3‘ میں دلجیت دوسانجھ اور ہانیہ عامر کے ساتھ اہم کردار ادا کیا ہے۔

 پنجابی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار اور اداکار دلجیت دوسانجھ کی نئی فلم ‘سردار جی 3’ نے بین الاقوامی سطح پر شاندار کامیابی حاصل کی ہے لیکن بھارت میں یہ فلم ریلیز نہیں کی گئی۔

یہ فلم جسے 27 جون کو دنیا بھر میں ریلیز کیا گیا دلجیت دوسانجھ کے کیریئر کی اب تک کی سب سے بڑی فلم بن کر سامنے آ رہی ہے۔ تاہم اس کی ریلیز کو بھارت میں روک دیا گیا ہے جس کی وجہ فلم کی کاسٹ میں شامل پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی ووڈ دلجیت دوسانجھ سردار جی 3 ہانیہ عامر

متعلقہ مضامین

  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • مارشل آرٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی کوئٹہ کی باہمت خواتین
  • ایئرپورٹ پر کپڑے اتروا کر طبی معائنہ؛ آسٹریلوی خواتین کی مقدمے میں کامیابی
  • ’ندا یاسر نے وہی کیا جس کی ضرورت تھی‘، دانش نواز کو روسٹ کرنے پر اداکارہ درفشاں بھی خوش
  • گل شیر کے کردار میں خاص اداکاری نہیں کی، حقیقت میں خوف زدہ تھا، کرنل (ر) قاسم شاہ
  • راجہ بشارت کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا
  • ایف آئی اے کی بڑی کارروائی؛ غیر قانونی سرحد پار کرتے ہوئے 33 غیر ملکی گرفتار
  • بھارتی انہیں کیسے ٹرول کر سکتے ہیں، ناصر چنیوٹی دلجیت دوسانجھ کے حق میں بول پڑے
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن