خواتین مردوں کی تربیت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) یہ وہی مرد ہیں جنہیں کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصول چٹکی بجاتے ہی سمجھ آ جاتے ہیں لیکن خواتین سے دو جملے ڈھنگ سے بولنا کبھی سمجھ نہیں آتا۔ وہ خواتین کے سامنے آتے ہی بوکھلا جاتے ہیں اور پھر بے تکی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی گفتگو ایک ایسا رخ اختیار کر لیتی ہے جس کے بعد خواتین انہیں اپنی نا پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیتی ہیں۔
اکثر مرد خواتین سے بات کرنے سے پہلے ہی اعلان کر دیتے ہیں کہ انہیں خواتین سے بات کرنی نہیں آتی۔ اگر وہ کوئی غیر مناسب بات کریں تو خاتون برا نہ مانیں بلکہ انہیں معاف کر دیں۔
زیادہ تر مرد جانتے ہیں کہ انہیں خواتین سے گفتگو کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کوشش کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔
(جاری ہے)
الٹا، وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بھی خواتین پر ڈال دیتے ہیں۔
بظاہر وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ خواتین ان سے ناراض ہونے کی بجائے انہیں بہتر طور طریقے سکھائیں لیکن ان کا مطلب یہ ہوتا ہے، "چونکہ آپ نے مجھے اپنے ساتھ گفتگو کے قابل سمجھا ہے تو اب آپ میری ہر بدتمیزی برداشت کریں۔ میں جو چاہے کہوں گا، جو چاہے کروں گا، آپ میری ہر بات اور حرکت کو برداشت کریں اور مجھے معافی اور سکھانے کے نام پر اپنے ساتھ بات کرنے کے مزید مواقع دیتی رہیں۔"خواتین بھی جب آپس میں مردوں کی بات کرتی ہیں تو اکثر ان کی غلط باتوں، رویوں اور حرکات کے لیے کوئی نہ کوئی توجیہ تلاش کر لیتی ہیں۔ وہ مردوں کو ان کی غلطیوں کے لیے جواب دہ ٹھہرانے کی بجائے ان کے رویوں کی ذمہ داری دوسری عورتوں پر ڈال دیتی ہیں۔
اگر شوہر کا کسی عورت سے افیئر چل رہا ہو تو الزام شوہر کے بجائے دوسری عورت پر آتا ہے۔
یقیناً اسی نے اسے بہکایا ہوگا۔ اگر شوہر ماں کی باتوں میں آ کر بیوی کو نظرانداز کر رہا ہے تو یہ ماں ہی ہوگی جس نے اسے بیوی سے اچھا سلوک کرنے سے روک رکھا ہے۔دفتر میں اگر باس کوئی نامناسب بات کہہ دے تو اسے ان کی نادانی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں، ”شاید انہیں خود نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ چونکہ مردوں کی خواتین سے زیادہ بات چیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ نہیں جانتے کہ کون سی بات خواتین کے لیے ناگوار ہو سکتی ہے۔
" یہ توجیہات ان کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا کر غیر ضروری سمت میں لے جاتی ہیں۔مرد بھی اسی معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں اور اس کے رسم و رواج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں بلکہ اکثر اوقات وہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ مرد جب دوسرے مردوں سے یا ان خواتین سے بات کرتے ہیں، جن کی وہ عزت کرتے ہیں تو اچانک انہیں اخلاقیات، تہذیب اور گفتگو کے آداب سب یاد آ جاتے ہیں۔
ان سے بات کرتے ہوئے نہ صرف ان کا غصہ قابو میں رہتا ہے بلکہ معاشرتی اصولوں اور سماجی رویوں کی باریکیاں بھی ان کی یاداشت میں تازہ ہو جاتی ہیں۔جہاں بات ان خواتین کی ہو جن کے ساتھ یہ احتیاط برتنے کا ارادہ نہیں رکھتے وہاں یہ اچانک انجان بن جاتے ہیں۔ ایسے جیسے تہذیب اور شائستگی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہ ہوں۔ اپنی ہر بدتمیزی کو یہ کہہ کر جواز دیتے ہیں کہ "ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا" اور پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین نہ صرف انہیں سمجھائیں بلکہ ان کی ہر غلطی کو برداشت بھی کریں۔
ان کا یہ رویہ تھکا دینے والا ہے۔ خواتین انہیں سکھانے سے انکار کریں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ انہیں نہیں سکھائیں گی تو وہ کیسے سیکھیں گے۔ جس طرح یہ آدمی کوانٹم فزکس کے پیچیدہ اصولوں کو سمجھنے کے لیے دنیا میں موجود تمام وسائل کو کھنگھال سکتے ہیں اسی طرح یہ خواتین سے بات کرنے اور اچھا سلوک کرنے کے آداب بھی ڈھونڈ کر پڑھ سکتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیکھنا نہیں چاہتے۔
وہ چاہتے ہیں کہ یہ محنت بھی خواتین کریں۔ خواتین جھوٹی امیدوں کے ساتھ انہیں سدھارنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ مرد اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد ان کے ساتھ مزید برا سلوک کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔پھر وہ کسی نئی عورت کے سامنے معصوم اور انجان بن کر پیش آتے ہیں اور اس سے بنیادی تمیز اور آداب سکھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ مردوں کی اصلاح یا ان کی تربیت کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ دار نہیں ہیں۔
انہیں مردوں کی بدتمیزی یا ناپسندیدہ رویوں کے لیے کوئی جواز تراشنے کے بجائے انہیں ان کے رویے کا جواب دہ ٹھہرانا چاہیے تاکہ مرد اپنی بات چیت اور رویے کے نتائج سے واقف ہوں اور آئندہ کسی بھی خاتون سے بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔مردوں کو بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی جنگل میں نہیں رہتے۔ جس طرح وہ مردوں یا اپنی قابلِ عزت خواتین سے بات کرتے ہوئے تہذیب اور شائستگی کا خیال رکھتے ہیں، ویسا ہی رویہ انہیں ہر عورت کے ساتھ اپنانا چاہیے۔
خواتین سے گفتگو کرتے وقت بھی وہی اخلاقی اصول اور سماجی آداب لاگو ہوتے ہیں جو کسی بھی انسان کے ساتھ بات چیت میں ضروری ہیں۔ اگر وہ واقعی بہتر بننا چاہتے ہیں تو انہیں خواتین کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اوپر خود کام کرنا ہوگا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین سے بات سے بات کرتے دیتے ہیں ہوتے ہیں مردوں کی کرتے ہیں جاتے ہیں کے ساتھ ہیں کہ
پڑھیں:
کردستان ریجن کے اکثر حکام "متحد عراق" پر یقین نہیں رکھتے، شیخ قیس الخزعلی
عراقی عصائب اہل الحق موومنٹ کے سیکرٹری جنرل نے متنبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کردستان ریجن کے زیادہ تر حکام متحد عراق پر یقین نہیں رکھتے لیکن عراقی کردستان بھر کے سپوتوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود وفاقی ریاست کیساتھ تعلق رکھنے کے احساس میں مضمر ہے، علیحدگی میں نہیں! اسلام ٹائمز۔ عراقی عصائب اہل الحق موومنٹ کے سیکرٹری جنرل شیخ قیس الخزعلی نے عراقی کردستان میں جاری سازشوں پر خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بدقسمتی سے 2003 کے بعد کے عرصے میں ہمارے ملک میں حکومتی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک نہ ہونے کا مشاہدہ کیا گیا ہے جبکہ حکومتی ذمہ داری، کسی بھی دوسری ذمہ داری سے یکسر مختلف ہے کیونکہ یہ ایک فریضہ ہے جو بخوبی ادا کیا جانا چاہیئے اور اللہ تعالی ہم سے اس کا جواب لے گا۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں شیخ قیس الخزعلی نے کہا کہ عراق کی موجودہ صورتحال ماضی کی طرح سے نہیں تاہم ہمارے عوام کی توقعات بھی تاحال پوری نہیں ہوئیں۔ انہوں نے عراق میں انسانی و مادی وسائل کی فراوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک عزیز بہتری کی جانب گامزن ہے اور اس مدت کے انتخابات، ماضی سے بہتر منعقد ہوں گے۔
کردستان کے علاقے میں جاری سازشوں پر خبردار کرتے ہوئے عراقی عصائب اہل الحق تحریک کے سربراہ نے تاکید کی کہ کردستان کے سپوتوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود وفاق عراق کے ساتھ تعلق رکھنے کے احساس میں مضمر ہے، علیحدگی میں نہیں! یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراقی کردستان ریجن کے ملازمین کی تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں کی گئیں، شیخ قیس الخزعلی نے اس علاقے کے ذمہ داروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز کا مطالبہ کرنا لیکن کچھ نہ دینا سرے سے "منطقی" اقدام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراقی کردستان کی علاقائی حکومت نے نہ صرف تیل کی آمدنی بغداد تک نہیں پہنچائی درحالیکہ وہ اس ملکی ثروت کو ریت و مٹی کی قیمت پر فروخت کر رہی ہے، بلکہ وہ بغداد کو "سرکاری" و "غیر قانونی" بارڈر کراسنگز کی آمدنی بھی نہیں دیتا۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی مسئلہ جس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں، یہ ہے کہ اس علاقے کے اکثر حکام "واحد" و "متحد عراق" پر یقین ہی نہیں رکھتے!