UrduPoint:
2025-04-25@09:18:35 GMT

یوکرین کی جزوی جنگ بندی کی تجویز'امید افزا'، امریکہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

یوکرین کی جزوی جنگ بندی کی تجویز'امید افزا'، امریکہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مارچ 2025ء) یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی کوششوں کے دوران ہی دونوں میں شدید لڑائی بھی جاری ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات یوکرین نے روسی دارالحکومت ماسکو کو درجنوں ڈرونز کا نشانہ بنایا۔

حملے کے سبب آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے ماسکو کے دو ہوائی اڈوں کو بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ ڈرونز کو ماسکو ریجن کے رامینسکوئے اور ڈوموڈیڈوو اضلاع میں مار گرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق کوئی نقصان یا کسی کو کوئی چوٹ نہیں آئی۔

روس یوکرین جنگ: کییف اور واشنگٹن کے اعلیٰ حکام میں جدہ میں مذاکرات

سعودی عرب میں آج بات چیت

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ وہ بحیرہ احمر پر واقع سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں منگل کے روز ہونے والے امریکہ اور یوکرین کے درمیان مذاکرات سے پہلے "پرامید" محسوس کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ وہ یوکرین کی طرف سے روس کے ساتھ جنگ ​​کے خاتمے کے لیے جزوی جنگ بندی کی تجویز میں امید کو دیکھتے ہیں۔ روبیو نے کہا، "میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صرف یہی کافی ہے، تاہم یہ ایک اس طرح کی رعایت ہے، جو تنازعے کو ختم کرنے کے لیے آپ کو درکار ہوتی ہے۔"

البتہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ میٹنگ کے دوران اہم بات یہ دیکھنی ہو گی کہ یوکرینی "مشکل کام" کرنے کے لیے کتنے تیار ہیں، جیسا کہ روسیوں کو بھی جنگ ختم کرنے کے لیے کرنا پڑے گا۔

روبیو نے یہ بھی اشارہ کیا کہ اگر بات چیت اچھی رہی، تو یوکرین مزید امریکی امداد کی توقع کر سکتا ہے۔ انہوں نے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی سے غیر رسمی ملاقات کو بھی مسترد نہیں کیا، جو سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔

روبیو نے زور دے کر کہا کہ ماسکو اور کییف دونوں کو "اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔

لہذا اس جنگ کا واحد حل سفارت کاری اور انہیں ایک میز پر لانا ہے، جہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے۔"

یوکرین پر مزید 100 سے زائد روسی ڈرون حملےہوئے، کییف

جزوی جنگ بندی کی تجویز

یوکرین کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ توقع ہے کہ کییف منگل کے روز ہونے والے مذاکرات کے دوران روس کے ساتھ فضائی اور بحری جنگ بندی کی تجویز پیش کرے گا۔

واضح رہے کہ روس نے اس سے قبل عارضی جنگ بندی کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ یوکرین کی جانب سے وقت خریدنے اور اپنی عسکری قوت کی تباہی کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے پیر کے روز ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے۔ انہوں نے پیر کو دیر گئے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ وہ مذاکرات کے "عملی نتیجے" کی امید کر رہے ہیں اور اس میں یوکرین کا موقف "بالکل تعمیری" ہو گا۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو روس اور یوکرین کے درمیان تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے طریقوں پر منگل کے روز یوکرینی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا عنقریب سعودی عرب کا دورہ، مقصد 'بڑا کاروباری معاہدہ'

صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ وہ منگل کے روز امریکی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شرکت نہیں کریں گے۔

زیلنسکی کے مطابق یوکرینی وفد میں ان کے چیف آف اسٹاف آندری یرمک کے علاوہ وزرا خارجہ اور دفاع اور صدارتی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ فوجی اہلکار بھی شامل ہوں گے۔

ٹرمپ کے ایلچی پوٹن سے ملاقات کریں گے

بلومبرگ اور روئٹرز نیوز ایجنسیوں نے گمنام ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو کے دورے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

البتہ اس کی کوئی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

یوکرین جنگ: امن منصوبوں پر سعودی عرب میں اگلے ہفتے بات چیت

وٹکوف سرکاری طور پر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ہیں، تاہم انہوں نے یوکرین کی تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ادھر ٹرمپ نے بھی پوٹن کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ روس کے ساتھ سابقہ ​​بائیڈن انتظامیہ کے منجمد تعلقات کو پگھلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یوکرین: ٹرمپ کی وارننگ کے مدنظر یورپی یونین کا سربراہی اجلاس

امن کی کوششوں میں سعودی کردار کی تعریف

صدر زیلنسکی نے کہا کہ امریکہ اور یوکرین کے اہم مذاکرات کے موقع پر ان کی سعودی عرب کے لی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اچھی ملاقات ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "میں نے حقیقی امن کو قریب لانے میں ولی عہد کی کوششوں کا اعتراف کیا۔ سعودی عرب سفارت کاری کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے اور ہم اس کی تعریف کرتے ہیں۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کی تجویز منگل کے روز کر رہے ہیں یوکرین کی کی کوششوں یوکرین کے نے کہا کہ روبیو نے انہوں نے کے ساتھ کرنے کے بات چیت کے لیے روس کے

پڑھیں:

ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ

ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔

ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔

یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔

اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔

ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔

ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔

ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔

آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔

لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات
  • گلوبل سکیورٹی انیشٹو ۔ شورش زدہ دنیا میں ایک امید بن گیا
  • نجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی
  • یوکرین روس کیساتھ براہ راست بات چیت کیلئے تیار ہے: صدر زیلنسکی
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • روح افزا کے خلاف بابا رام دیو کے متنازعہ بیان پر عدالت کی پھٹکار