Express News:
2025-11-19@00:27:44 GMT

ناامیدی کے سائے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

تحریک انصاف اس وقت شدید صدمہ میں ہے۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پارٹی میں امید کی تمام شمعیں بجھا دی ہیں۔ انھیں مستقبل اچھا نظر نہیں آرہا۔ اگر میں غلط نہیں تو ناامیدی کا سفر آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے شروع ہوا اور مخصوص نشستوں کے فیصلے نے اس کو انتہا تک پہنچا دیا۔ یہ سب اتنا جلد ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیاکریں۔

پہلے جب تحریک انصاف کے دوستوں سے بات ہوتی تھی تو انھیں حالات کے بدلنے کی امید تھی۔ ابھی عید سے پہلے ملک کے سنیئر تجزیہ نگار ہمیں یہ خبریں بتا رہے تھے کہ کپتان اور اسٹبلشمنٹ کی بات طے ہو گئی ہے۔ عید سے پہلے کپتان رہا ہو جائے گا۔ لوگ رہائی کی تاریخیں دے رہے تھے۔ لیکن عید سے پہلے رہائی نہیں ہوئی۔ پھر بھی امید ختم نہیں ہوئی۔ رہائی کی اگلی تاریخیں آگئیں۔

آرمی چیف کے دورہ امریکا سے پہلے تک امید قائم تھی۔ ایک امید تھی کہ امریکا سے کچھ ہوگا۔ امریکی کانگریس کے ارکان کے ٹوئٹ آرہے تھے۔ ایک ڈیموکریسی ایکٹ کی گونج تھی۔ امریکا کی تحریک انصاف نے ایک تاثر قائم کیا ہوا تھا کہ کچھ ہوگا اور بڑا ہوگا۔ امریکی ڈاکٹروں کے دورہ پاکستان کی خبریں بھی تھیں۔ ان کی کپتان سے ملاقات کی خبریں بھی آئیں۔امریکی ڈاکٹرز بھی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا حصہ نظر آرہے تھے۔ وہ بھی امید کی باتیں کر رہے تھے کہ اسٹبلشمنٹ اور کپتان کے درمیان بات چیت اچھی جا رہی ہے۔ بات طے ہو رہی ہے۔ لیکن کچھ ہوا نہیں۔

میری رائے میں تحریک انصاف اوور سیز اور تحرک انصاف کے سوشل میڈیا نے اپنے لوگوں میں امید قائم رکھی ہوئی تھی۔ جو اب ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ سونے پر سہاگا ، کے پی اسمبلی نے بجٹ پاس کر دیا۔ کے پی کے بجٹ پاس ہونے سے تو تحریک انصاف میں ایسا ہوا ہے جیسے کسی کو شکست فاش ہو گئی ہو۔ حالانکہ میری رائے میں بجٹ کوئی گیم چینجر نہیں تھا۔

بجٹ میں کیا ہو سکتا تھا۔ اگر عمران خان سے ملاقات ہو بھی جاتی تو کیا ہوتا، وہ آئی ایم ایف کی ڈیل خراب کرنے کا کہہ دیتے۔ بجٹ سرپلس ختم کرا دیتے۔ اور کیا کر سکتے تھے۔ بجٹ پاس کرنے سے روک تو نہیں سکتے تھے۔ لیکن ایک طرف مرکزی حکومت نے ملاقات ہی نہیں کرائی۔ دوسری طرف کے پی کی حکومت نے بجٹ پاس کر لیا۔ میری رائے میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ لیکن امید توڑنے میں اس کا بھی بڑ اکردار ہے۔

کپتان کی بہن علیمہ خان نے خود ہی کہہ دیا کہ لگتا ہے کہ خان مائنس ہو گیا ہے۔ جو بات منوانے کے لیے اتنا زور لگ رہا تھا، وہ اتنی آسانی مان لی گئی۔ اس نے بھی تحریک انصاف کے کارکن کو کافی ناامید کیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر یہ بحث گرم ہے کہ شاید بجٹ پاس کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوا تھا، جتنا علیمہ کے بیان سے ہو گیا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب ہم نے خود ہی تسلیم کر لیا ہے کہ خان مائنس ہوگیا ہے تو ہم اپنے کارکن کو اب کیسے یقین دلائیں گے کہ خان مائنس نہیں ہوا۔ ساری لڑائی ہی یہی تھی، ہم نے خود ہی شکست تسلیم کر لی ہے اور مخالفین کی فتح کا اعلان کر دیا ہے۔ بہر حال تحریک انصاف کے اندر نا امیدی کا ایک طوفان ہے۔ار کان پارلیمان بھی مایوس ہیں۔ یہ درست ہے کہ ووٹ بینک کی طاقت ارکان پارلیمنٹ کو باندھ کر رکھتی ہے۔

لوگ ووٹ بینک کی وجہ سے سیاسی جماعت کے ساتھ برے وقت میں بھی کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن آج تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ اپنے مستبقل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ انھیں اپنی جماعت کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ اگرحالات ایسے ہی رہے تو پانچ سال گزارنے بہت مشکل ہیں اور اگلا الیکشن اور بھی برا ہوگا۔ اس لیے وہ سوچ رہے ہیں کہ اپنی سیاست کو آگے کیا شکل دی جائے؟ کہاں کا رخ کیا جائے؟

میں ان ارکان کی بات کر رہا ہوں جو میڈیا پر کم نظر آتے ہیں۔ لیکن سیاست کرتے ہیں۔ وہ انتخابی حلقوں کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتیں حالات اور واقعات کے مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ سیاسی حالات دیکھ کر اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم انھیں سیاسی پنچھی بھی کہتے ہیں۔ جو اکثر اڑ جاتے ہیں۔ اب ان کے اڑنے کا موسم نظر آرہا ہے۔

پی ٹی آئی کے کئی ارکان پارلیمنٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں۔ ان کے رابطوں کی کافی جگہ سے تصدیق ہوتی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہوگا کیونکہ گیم کپتان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ وہ نجی محفلوں میں بات کرتے ہیں کہ اب کھیل ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے اب سب انفرادی طو رپر اپنا راستہ نکالنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اکیلے اکیلے بات کر رپے ہیں۔

الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی، کے پی حکومت کی طرف تحریک انصاف کے ارکان اور کارکنان ایک امید سے دیکھتے تھے۔ وہ امید کی شمع تھی۔ لیکن اب کے پی کی حکومت کی طرف ناامیدی سے دیکھتے ہیں۔ پہلے کے پی کی حکومت مسائل کا حل نظر آرہی تھی۔اب مسائل کی وجہ نظر آرہی ہے۔ کے پی حکومت ایک سیاسی بوجھ بن گئی ہے۔

شاید اب تحریک انصاف میں اس سیاسی بوجھ کو اٹھانے کی بھی ہمت نہیں۔ اس لیے وہاں سے بھی نا امیدی ہی نظر آرہی ہے۔ گنڈا پور پہلے ہیرو تھا۔ لیکن اب زیرو بن چکا ہے۔ اس کی پارٹی کارکنان میں مقبولیت ختم ہو گئی ہے۔ پنجاب کے ارکان بھی اس سے نا امید۔ چند رہنما جنھوں نے کے پی میں پناہ لی ہوئی ہے۔ باقی سب سمجھتے ہیں کہ کے پی کی حکومت مسائل کا حل کرنے میںناکام رہی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے میں باہر سے بھی کوئی امید نہیں۔ ہر حربہ ناکام ہو گیا ہے۔ لوگوں نے ذہنی طورپر شکست مان لی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے کے پی کی حکومت بجٹ پاس کر ہو گیا ہے نظر ا رہی کے ارکان کرتے ہیں ا رہی ہے رہے تھے امید کی سے پہلے بات کر ہیں کہ لیکن ا گئی ہے

پڑھیں:

لیہ کی خاتون ایم پی اے کی ضلعی انتظامیہ کے ہاتھوں تذلیل، معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا

چند روز قبل لیہ کے علاقے تھل میں منعقد ہونے والی جیپ ریلی کے دوران ایک غیر معمولی تنازع سامنے آیا تھا جہاں مسلم لیگ (ن) کی ایم پی اے سمعیہ عطا شہانی ریلی میں شریک تھیں جہاں ہزاروں افراد موجود تھے۔

ریلی کے دوران ڈی سی لیہ آمیرہ بیدار بخت کی جانب سے ڈرائی فروٹ کی ٹرے نہ ہٹانے پر ایم پی اے کو بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی، جس پر انہوں نے ضلعی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ ان کا استحقاق مجروح کیا گیا۔ ایم پی اے نے یہ معاملہ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بھی شیئر کیا اور تحریک استحقاق پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: تھل جیپ ریلی میں لیگی خاتون ایم پی اے اور ڈی سی لیہ کے درمیان ڈرائی فروٹس تنازع کیا ہے؟

مسلم لیگ ن کی ایم پی سمعیہ عطا شہانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس وقت ڈی جی خان الیکشن مہم میں مصروف ہیں، ڈی سی لیہ امیرا بیدار بخت ان سے ملنے ڈی جی خان آئیں تھیں، ہماری ملاقات  ڈی جی خان کمشنر آفس میں ہوئی۔

ان کے بقول ان کے ہمراہ ان کا عملہ بھی تھا، ‘مجھ سے ڈی سی لیہ نے ملاقات کی لیکن انہوں نے میرے سے کوئی معذرت نہیں کی بلکہ انہوں نے کہا کہ اس سارے واقعے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ اے ڈی سی آر شاید ملک کی وجہ سے ہوا ہے ،آپ کا استحقاق ڈی سی لیہ نے نہیں بلکہ اے ڈی سی آر لیہ شاہد ملک نے مجروح کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈرائی فروف کی ٹرے نہ ہٹانے کا مجھے اے ڈی سی آر شاید ملک نے ہی کہا تھا، ڈی سی لیہ نے مجھے ایسا کچھ نہیں کہا تھا، لیگی ایم پی اے سمعیہ عطا شہانی نے بتایا کہ ڈی سی لیہ امیرا بیدار بخت اس سارے واقعے کی ذمہ داری اے ڈی سی آر پر ڈال دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب اسمبلی: لیگی ایم پی اے نے اپنے ہی وزیر کیخلاف تحریک استحقاق جمع کردی، وجہ کیا بنی؟

سمعیہ عطا شہانی کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ میں  بھی بتایا  تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جیپ ریلی میں ہزاروں لوگوں کے سامنے میرا استحقاق مجروح کیا گیا ہے، میں نے ڈی سی لیہ امیرا بیدار بخت کا ذکر نہیں کیا تھا بلکہ صرف ضلعی انتظامیہ کا لفظ استعمال کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جو خبریں چل رہی کہ میں نے تحریک استحقاق واپس لے لی یہ خبر غلط ہے ، میں نے تحریک استحقاق واپس نہیں لی۔ تحریک استحقاق میں بھی اے ڈی سی آر لیہ شاید ملک کا ذکر کیا ہے نہ کہ ڈی سی لیہ کا  ہے، اے ڈی سی آر لیہ نے ہی مجھے کہا تھا کہ ڈی سی صاحبہ کے ساتھ پڑی ڈرائی فروٹ کی ٹرے ہم نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہ ڈرائی فروٹ کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔

یہ بھی پڑھیے: فرح عظیم شاہ کیخلاف تحریک استحقاق بلوچستان اسمبلی میں کیوں جمع کرائی گئی؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سمعیہ عطا شہانی نے بتایا کہ میں نے ڈی سی لیہ امیرا بیدار بخت کو بتایا کہ یہ معاملہ ہماری ضلعی پارٹی کے نوٹس میں ہے، میں آپ کا موقف ان کے سامنے رکھوں گی اس کے بعد ضلعی پارٹی کے صدر یا دیگر عہدایدران وہ ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ میں نے تحریک استحقاق واپس لینی ہے یا نہیں، اب یہ معاملہ اکیلے میرے ہاتھ میں نہیں ہے، ضلعی پارٹی جو فیصلے کریں گی مجھے قبول ہوگا۔

واضع رہے کہ چند روز قبل تھل جیپ ریلی میں ڈی سی لیہ ڈرائی فروٹ کی ٹرے نہ ہٹانے پر لیگی ایم پی اے نے یہ معاملہ سامنے لے آئی تھیں جس کے بعد ڈی سی لیہ نے وی نیوز کو بتایا تھا کہ لیگی ایم پی اے کو کوئی غلط فہمی ہوئی یہ تمام کہانی من گھڑت ہے، ایم پی اے صاحبہ مجھے بتاتی میں ان کی سیٹ کا بندوبست کروا دیتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

DC Liyyah ڈرائی فروٹس سمعیہ عطا شہانی

متعلقہ مضامین

  • شاہ محمود قریشی کی کامیاب سرجری ہوئی، مکمل صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں، تحریک انصاف
  • تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟
  • بنگلہ دیش میں انصاف کی فتح‘ بھارت کے علاقائی تسلط کی ناکامی 
  • حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائیگا،اپوزیشن اتحاد
  • مجھے سزا سنا کر انصاف کو پامال کیا گیا، شیخ حسینہ واجد کا ردعمل
  • تحریک اچانک شروع نہیں ہوتی، اِن شاءاللّٰہ تحریک چلے گی: سینیٹر علی ظفر
  • حکومت پنجاب کی جانب سے ڈیڑھ ارب کے فنڈز کی امید‘ جلد جاری ہو نگے :گورنر 
  • رؤف حسن نے 3 سابق رہنماؤں کی ویڈیو شیئر کر دی
  • مونس الہٰی کو کلین چٹ مل گئی،انٹرپول تحقیقات بند،سفری پابندیاں ختم
  • لیہ کی خاتون ایم پی اے کی ضلعی انتظامیہ کے ہاتھوں تذلیل، معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا