تحریک انصاف اس وقت شدید صدمہ میں ہے۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پارٹی میں امید کی تمام شمعیں بجھا دی ہیں۔ انھیں مستقبل اچھا نظر نہیں آرہا۔ اگر میں غلط نہیں تو ناامیدی کا سفر آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے شروع ہوا اور مخصوص نشستوں کے فیصلے نے اس کو انتہا تک پہنچا دیا۔ یہ سب اتنا جلد ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیاکریں۔
پہلے جب تحریک انصاف کے دوستوں سے بات ہوتی تھی تو انھیں حالات کے بدلنے کی امید تھی۔ ابھی عید سے پہلے ملک کے سنیئر تجزیہ نگار ہمیں یہ خبریں بتا رہے تھے کہ کپتان اور اسٹبلشمنٹ کی بات طے ہو گئی ہے۔ عید سے پہلے کپتان رہا ہو جائے گا۔ لوگ رہائی کی تاریخیں دے رہے تھے۔ لیکن عید سے پہلے رہائی نہیں ہوئی۔ پھر بھی امید ختم نہیں ہوئی۔ رہائی کی اگلی تاریخیں آگئیں۔
آرمی چیف کے دورہ امریکا سے پہلے تک امید قائم تھی۔ ایک امید تھی کہ امریکا سے کچھ ہوگا۔ امریکی کانگریس کے ارکان کے ٹوئٹ آرہے تھے۔ ایک ڈیموکریسی ایکٹ کی گونج تھی۔ امریکا کی تحریک انصاف نے ایک تاثر قائم کیا ہوا تھا کہ کچھ ہوگا اور بڑا ہوگا۔ امریکی ڈاکٹروں کے دورہ پاکستان کی خبریں بھی تھیں۔ ان کی کپتان سے ملاقات کی خبریں بھی آئیں۔امریکی ڈاکٹرز بھی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا حصہ نظر آرہے تھے۔ وہ بھی امید کی باتیں کر رہے تھے کہ اسٹبلشمنٹ اور کپتان کے درمیان بات چیت اچھی جا رہی ہے۔ بات طے ہو رہی ہے۔ لیکن کچھ ہوا نہیں۔
میری رائے میں تحریک انصاف اوور سیز اور تحرک انصاف کے سوشل میڈیا نے اپنے لوگوں میں امید قائم رکھی ہوئی تھی۔ جو اب ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ سونے پر سہاگا ، کے پی اسمبلی نے بجٹ پاس کر دیا۔ کے پی کے بجٹ پاس ہونے سے تو تحریک انصاف میں ایسا ہوا ہے جیسے کسی کو شکست فاش ہو گئی ہو۔ حالانکہ میری رائے میں بجٹ کوئی گیم چینجر نہیں تھا۔
بجٹ میں کیا ہو سکتا تھا۔ اگر عمران خان سے ملاقات ہو بھی جاتی تو کیا ہوتا، وہ آئی ایم ایف کی ڈیل خراب کرنے کا کہہ دیتے۔ بجٹ سرپلس ختم کرا دیتے۔ اور کیا کر سکتے تھے۔ بجٹ پاس کرنے سے روک تو نہیں سکتے تھے۔ لیکن ایک طرف مرکزی حکومت نے ملاقات ہی نہیں کرائی۔ دوسری طرف کے پی کی حکومت نے بجٹ پاس کر لیا۔ میری رائے میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ لیکن امید توڑنے میں اس کا بھی بڑ اکردار ہے۔
کپتان کی بہن علیمہ خان نے خود ہی کہہ دیا کہ لگتا ہے کہ خان مائنس ہو گیا ہے۔ جو بات منوانے کے لیے اتنا زور لگ رہا تھا، وہ اتنی آسانی مان لی گئی۔ اس نے بھی تحریک انصاف کے کارکن کو کافی ناامید کیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر یہ بحث گرم ہے کہ شاید بجٹ پاس کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوا تھا، جتنا علیمہ کے بیان سے ہو گیا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب ہم نے خود ہی تسلیم کر لیا ہے کہ خان مائنس ہوگیا ہے تو ہم اپنے کارکن کو اب کیسے یقین دلائیں گے کہ خان مائنس نہیں ہوا۔ ساری لڑائی ہی یہی تھی، ہم نے خود ہی شکست تسلیم کر لی ہے اور مخالفین کی فتح کا اعلان کر دیا ہے۔ بہر حال تحریک انصاف کے اندر نا امیدی کا ایک طوفان ہے۔ار کان پارلیمان بھی مایوس ہیں۔ یہ درست ہے کہ ووٹ بینک کی طاقت ارکان پارلیمنٹ کو باندھ کر رکھتی ہے۔
لوگ ووٹ بینک کی وجہ سے سیاسی جماعت کے ساتھ برے وقت میں بھی کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن آج تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ اپنے مستبقل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ انھیں اپنی جماعت کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ اگرحالات ایسے ہی رہے تو پانچ سال گزارنے بہت مشکل ہیں اور اگلا الیکشن اور بھی برا ہوگا۔ اس لیے وہ سوچ رہے ہیں کہ اپنی سیاست کو آگے کیا شکل دی جائے؟ کہاں کا رخ کیا جائے؟
میں ان ارکان کی بات کر رہا ہوں جو میڈیا پر کم نظر آتے ہیں۔ لیکن سیاست کرتے ہیں۔ وہ انتخابی حلقوں کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتیں حالات اور واقعات کے مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ سیاسی حالات دیکھ کر اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم انھیں سیاسی پنچھی بھی کہتے ہیں۔ جو اکثر اڑ جاتے ہیں۔ اب ان کے اڑنے کا موسم نظر آرہا ہے۔
پی ٹی آئی کے کئی ارکان پارلیمنٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں۔ ان کے رابطوں کی کافی جگہ سے تصدیق ہوتی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہوگا کیونکہ گیم کپتان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ وہ نجی محفلوں میں بات کرتے ہیں کہ اب کھیل ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے اب سب انفرادی طو رپر اپنا راستہ نکالنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اکیلے اکیلے بات کر رپے ہیں۔
الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی، کے پی حکومت کی طرف تحریک انصاف کے ارکان اور کارکنان ایک امید سے دیکھتے تھے۔ وہ امید کی شمع تھی۔ لیکن اب کے پی کی حکومت کی طرف ناامیدی سے دیکھتے ہیں۔ پہلے کے پی کی حکومت مسائل کا حل نظر آرہی تھی۔اب مسائل کی وجہ نظر آرہی ہے۔ کے پی حکومت ایک سیاسی بوجھ بن گئی ہے۔
شاید اب تحریک انصاف میں اس سیاسی بوجھ کو اٹھانے کی بھی ہمت نہیں۔ اس لیے وہاں سے بھی نا امیدی ہی نظر آرہی ہے۔ گنڈا پور پہلے ہیرو تھا۔ لیکن اب زیرو بن چکا ہے۔ اس کی پارٹی کارکنان میں مقبولیت ختم ہو گئی ہے۔ پنجاب کے ارکان بھی اس سے نا امید۔ چند رہنما جنھوں نے کے پی میں پناہ لی ہوئی ہے۔ باقی سب سمجھتے ہیں کہ کے پی کی حکومت مسائل کا حل کرنے میںناکام رہی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے میں باہر سے بھی کوئی امید نہیں۔ ہر حربہ ناکام ہو گیا ہے۔ لوگوں نے ذہنی طورپر شکست مان لی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے کے پی کی حکومت بجٹ پاس کر ہو گیا ہے نظر ا رہی کے ارکان کرتے ہیں ا رہی ہے رہے تھے امید کی سے پہلے بات کر ہیں کہ لیکن ا گئی ہے
پڑھیں:
تحریک منہاج القرآن کے رہنمائوں کا مینار پاکستان کا دورہ
سیکرٹری عالمی میلاد کانفرنس و نائب ناظم اعلیٰ جواد حامد نے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا 1500 واں جشنِ ولادت شان و شوکت سے منایا جائے گا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی 42ویں عالمی میلاد کانفرنس میں ملک بھر سے علماء و مشائخ اور عرب شیوخ خصوصی شرکت کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی رہنماؤں نے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار کا دورہ کیا اور 42ویں عالمی میلاد کانفرنس کے انتظامات و تیاریوں کے حوالے سے گراؤنڈ کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر سیکرٹری عالمی میلاد کانفرنس و نائب ناظم اعلیٰ جواد حامد نے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا 1500 واں جشنِ ولادت شان و شوکت سے منایا جائے گا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی 42ویں عالمی میلاد کانفرنس میں ملک بھر سے علماء و مشائخ اور عرب شیوخ خصوصی شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ عالمی میلاد کانفرنس سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خصوصی خطاب کریںگے۔ اس موقع پر نائب ناظمینِ اعلیٰ بریگیڈیئر(ر) عمر حیات، نوراللہ صدیقی، کرنل (ر) خالد جاوید، سعید رضا بغدادی، چوہدری ریاض، ایس کے صابر،محمد سعید، اسامہ مشتاق اعوان، قیصر محمود، محمد عمیر، راجہ ندیم، محمود مسعود، حسن محمود جماعتی، شوکت ابرار، علامہ سرفراز قادری، احمد وحید و دیگربھی موجود تھے۔