ماڈرن ورلڈ 80 برس سے دو سنگین المیوں سے دوچار ہے، ایک فلسطین اور دوسرا کشمیر کا المیہ۔ دونوں ہی ناجائز قبضے سے جڑے انسانی المیے۔ ایک یہود تو دوسرا ہنود کا پیدا کردہ مسئلہ۔ اگر یہ اتفاق ہے تو حد درجہ حیران کن کہ پہلی بار یہ دونوں لگ بھگ ساتھ ساتھ پٹے اور بری طرح پٹے۔ ایک کے اوسان خطا ہونے میں چار دن لگے جبکہ دوسرے کا حربی سٹیمنا فقط 12 روز کا ثابت ہوا۔ طویل جنگ کا تجربہ اسرائیل کے پاس ہے اور نہ ہی انڈیا کے پاس۔ خود پاکستان بھی طویل جنگ کے کسی تجربے سے نہیں گزرا، چاروں ممالک میں سے فقط ایران ہے جو 8 سالہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہے۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، مگر حقیقت یہی ہے کہ فلسطین کا عملی والی وارث آج کی تاریخ میں ایران ہے، اسے اسی جرم کی سزا دینے کی کوشش کی گئی کہ اسرائیل جس مزاحمت کا سامنا کررہا ہے اس کا بارود ایران کا فراہم کردہ ہے۔ اس کے جرنیلوں اور سائنسدانوں کی قربانی اسی راہ میں دی گئی قربانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کے براہِ راست والی وارث وہ ایران اور پاکستان ہیں، جن کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔
سال بھر قبل تک صورتحال یہ تھی کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں انڈیا کو پاکستان پر فوقیت حاصل تھی۔ لیکن پچھلے ایک سال کے دوران یہ صورتحال بتدریج تبدیل ہوئی ہے۔ گویا ایران پاکستان سے دوستانہ تعلقات کو اہمیت دینے کی راہ پہلے ہی اختیار کرچکا، لیکن اس حالیہ جنگ میں انڈیا نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ کسی دشمن کا ہی چلن تھا، اور عین اسی حربی صورتحال میں پاکستان نے ایران کے لیے وہ کچھ کیا جس پر ایران عین دوران جنگ اظہار تشکر کرتا نظر آیا۔ پشتو کی کہاوت ہے۔
’اے خدا کچھ برے دن دکھا، تاکہ مجھے اپنے اور پرائے کی شناخت نصیب ہو‘
سو ایران نے 12 مشکل ایام میں اچھی طرح دیکھ لیا کہ اس کا دوست کون ہے، اور دشمن کون؟ غلط فہمیاں ہی نہیں خوش فہمیاں بھی پھررر کرکے پراں ہوگئیں۔ جانتے ہیں اس کے کتنے گہرے اور دوررس جیو اسٹریٹیجک نتائج نکلنے ممکن ہوگئے ہیں؟
مئی میں پاکستان کو انڈیا کا سامنا تھا تو اسرائیل انڈیا کی مدد کے لیے موجود نظر آیا، یہی تب بھی ہوا جب جون میں ایران کو اسرائیلی حملے کا سامنا کرنا پڑا، اس جنگ میں انڈیا کی ’را‘ اسرائیل کی موساد کی مددگار ثابت ہوئی۔ یوں تاریخ میں پہلی بار یہ موقع بنا ہے کہ پاکستان اور ایران بھی یہ طے کرلیں ان دونوں میں سے بھی جسے دشمن کا سامنا ہوگا تو دوسرا صرف سیاسی ہی نہیں حربی ساتھ بھی نبھائے گا۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے، ہم مشترکہ دفاع کی ہی تجویز پیش کررہے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ کوئی نئی چیز نہ ہوگی، ہم اس سے قبل دو عرب اسرائیل جنگوں میں عرب ممالک کی طرف سے اپنے پائلٹ پیش کرچکے ہیں، اور ان پائلٹوں نے اسرائیلی طیارے گرا رکھے ہیں، بالخصوص سیف الاعظم نے تو تین اسرائیلی طیارے گرائے تھے۔
مشترکہ دفاع کی یہ تجویز دونوں مملک کے لیے اپنی اپنی جگہ بے حد اہمیت رکھتی ہے، مثلاً آپ ایرانی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کی فضائیہ ہے، جو فی الحال نہ ہونے کے برابر ہے، اور اسی وجہ سے ایران کی فضاؤں پر اسرائیلی طیاروں کا راج تھا، جبکہ پاکستان کی فضائیہ دنیا کی مؤثر ترین ایئرفورس مانی جاتی ہے، اسرائیل کو تو عملی تجربہ بھی حاصل ہے کہ پاک فضائیہ کے پائلٹس کا وار کتنا مہلک ہوتا ہے، بالخصوص اگر ایران واقعی جے 10 سی حاصل کرلیتا ہے تو پاک فضائیہ کا کام تو مزید آسان ہوجائے گا۔ کسی اگلی ممکنہ جنگ میں اسرائیل کے لیے طے کرنا ناممکن ہوجائے گا کہ ایران کی فضاؤں میں اسے پاکستانی جے 10 سی کا سامنا ہوگا یا ایرانی؟ ایرانی نقطہ نظر سے مشترکہ دفاع کی دوسری اہمیت یہ ہوگی کہ چین سے براستہ پاکستان اس کی زمینی لاجسٹک سپورٹ ممکن ہوجائے گی۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے مشترکہ دفاع کی اہمیت یہ ہوگی کہ فی الحال ہماری سپلائی لائن سمندری راستے سے ہے، ضرورت کی دیگر اشیا ہی کیا ہمارا تو تیل بھی سمندری راستے سے آتا ہے جو جنگ میں ایمونیشن کے بعد دوسری اہم ترین ضرورت ہے۔ سو ہمارے لیے مشترکہ دفاع سب سے بڑا فائدہ یہ لاسکتا ہے کہ براستہ ایران ہمیں خوراک اور تیل کے حوالے سے زمینی سپلائی لائن میسر آسکتی ہے، جبکہ ایک دوسری سپورٹ ہمیں ایرانی میزائلوں کی صورت بھی مل سکتی ہے۔
اگرچہ ہم نے دونوں ممالک کے لیے مشترکہ دفاع کی اہمیت جنگ کی صورت بتانے کی کوشش کی ہے لیکن اس مشترکہ دفاع کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ ڈیٹرنس کا کام دے گا، یعنی جنگ کا امکان ہی بہت محدود ہوکر رہ جائے گا۔ اسرائیل ایران پر حملے سے اس لیے گریز اختیار کرے گا کہ اس صورت میں اسے اس پاکستان کا بھی سامنا ہوگا جو ایٹمی طاقت ہے، اس صورت میں ایران ایٹمی طاقت ہے یا نہیں، اس کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے؟ اور پاکستان تو ویسے بھی فرسٹ اسٹرائیک کی پالیسی رکھتا ہے، ایسے حالات میں اسرائیل ایران پر حملے کا رسک لے گا؟
یہی صورتحال ذرا مختلف شکل میں انڈیا کو بھی درپیش ہوگی، موجودہ وقت میں پاکستان کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ کم چوڑائی والا ملک ہے، جس کی وجہ سے انڈین بارڈر سے دور واقع پاکستانی شہر اور تنصیبات بھی انڈین میزائلوں کے لیے آسان اہداف ہیں، ایران کے ساتھ مشترکہ دفاع کی صورت نہ صرف یہ کہ ہماری یہ درد سری دور ہوسکتی ہے بلکہ انڈین شہر بھی ایرانی میزائلوں کی رینج میں ہوں گے، اب پاکستان کی کم چوڑائی ایران کے لیے نہایت کارآمد ہوگی۔
مشترکہ دفاع کے امکان کا جائزہ سپر طاقتوں کے نقطہ نظر سے دیکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ ان سب کے بھی اسٹیک داؤ پر ہوں گے، امریکا کے لیے یہ صورتحال بہت ڈراؤنی ہوگی، جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکا اب وہ پرانا والا امریکا نہیں رہا، اس کی ہوا اس بری طرح نکل چکی کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں بھی یہ صرف اس ٹوپی ڈرامے تک ہی محدود رہا، جس کے تحت ٹرمپ میاں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کا ایٹمی پروگرام نیست و نابود کرچکے، جبکہ باقی دنیا ہی کیا، امریکی میڈیا کا بھی ماننا ہے کہ بڑے میاں جھوٹ بول رہے ہیں۔ یوں گویا ایسا پہلی بار تھا جب امریکا نے کسی مسلم ملک کے خلاف جنگ کی زبان اختیار کرنے کی بجائے، زبان کے ہتھیار استعمال کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اگر تنہا ایران سے بھی امریکا نے جنگ کا رسک نہیں لیا تو مشترکہ دفاع کی والی صورت میں وہ دو ممالک سے پنگا کیسے لے گا؟
روس اور چین کے لیے تو یہ صورتحال بہت ہی اطمینان بخش ہوگی، اگرچہ ایران چین کے لیے بھی جیو اکنامک حوالے سے بہت اہم ہے۔ کیونکہ ایران سے وہ یومیہ قریباً 18 لاکھ بیرل تیل خرید رہا ہے، لیکن روس کے لیے تو ایرانی اہمیت جیواسٹریٹیجک ہے، جس کی حساسیت زیادہ ہے، اگر ایران کے موجودہ نظم کی جگہ امریکی پٹھو وہاں مسلط ہوجائیں تو روس کی طرف وسطی ایشیا کے راستے امریکی پیش قدمی کا دروازہ کھل جائے گا، سو روس اور چین دونوں کے لیے پاک ایران اشتراک باعث اطمینان ہوگا۔
لے دے کر فی الحال پاک ایران مشترکہ دفاع کی راہ میں ایک ہی رکاوٹ ہے، اور وہ ہے ایران پر عائد امریکی پابندیاں، ان پابندیوں کے ہوتے ہم ایران کے ساتھ کوئی بھی شراکت اختیار کریں گے تو ہم بھی امریکی پابندیوں کا نشانہ بنیں گے، اس حوالے سے دو باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکا تیزی سے اپنا اثرو رسوخ کھوتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے یہ بات صرف ہم لکھا کرتے تھے، اب تو نجم سیٹھی جیسے امریکا کے وفادار بھی برملا کہنے لگے ہیں کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی زوال سے دوچار ہیں، سو وہ وقت بہت جلد آرہا ہے جب امریکی پابندیاں صرف تاریخ کی کتابوں میں ملا کریں گی۔ دوسری بات یہ کہ فی الحال کے لیے مشترکہ دفاع کو رازداری میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اس باب میں پاکستان کے تجربے کا یہ عالم ہے کہ امریکا بنفس نفیس افغانستان میں موجود تھا، اور ہم اسی افغانستان کے بارڈر کے راستے وہ کچھ کرتے رہے جس پر امریکا صرف تلملا ہی سکتا تھا، کر کچھ نہ پاتا تھا۔ سو مشترکہ دفاع کے لیے امریکی پابندیوں کی آنکھ میں دھول جھونکنا کوئی مشکل کام نہیں، جب دونوں ملکوں کا بارڈر ملتا ہے تو پھر کیا ٹینشن؟ سو پریشانی والی کوئی بات نہیں، جب دونوں ممالک کے دشمن ایک ہیں تو پھر دفاع بھی ایک ہونا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایران جنگ ایران پاک فضائیہ پاکستان مسئلہ فلسطین مسئلہ کشمیر مشترکہ دفاع وی نیوز مشترکہ دفاع کی میں پاکستان میں انڈیا کہ امریکا میں ایران کا سامنا فی الحال ایران کے کے ساتھ کے لیے رہا ہے جنگ کا
پڑھیں:
ابراہم اکارڈز سے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 30 جون 2025ء ) وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ابراہم اکارڈز سے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے، اگر ہم تماشائی بنے اور کھلاڑی نہ بنے تو اس کا نقصان ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق وزیردفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابراہم اکارڈزسے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے، موجودہ صورتحال میں اگر ہم تماشائی بنے اور کھلاڑی نہ بنے تو اس کا نقصان ہوگا، عالمی سطح پر موجودہ صورتحال میں ہم کھیل کا حصہ ہیں۔ ایک اور بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ مودی کا تکبر خاک میں مل ہے۔بھارت کی جانب سے دوبارہ پاکستان پر حملے کا امکان موجود ہے، بھارت نے اگر پاکستان کا پانی روکا تو اس کو جنگ تصور کیا جائے گا۔(جاری ہے)
پاک بھارت جنگ میں پاکستانی میڈیا نے مثبت کردارادا کیا، جبکہ بھارتی میڈیا میں سرکس اور نوٹنکی ہورہی تھی، پاکستان نے بھارت کے طیارے گرائے جو فخر کی بات ہے، پاکستان اس وقت سراٹھا کر دنیا میں چل رہا ہے۔
بھارت بلوچستان میں اسپانسرڈ دہشتگردی میں ملوث ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت مانے یا نہ مانے، عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ،پاکستان کے اس وقت امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن ماضی کے برعکس یہ تعلقات مشترکہ فوجی مصروفیات پر مبنی نہیں، افغان شہری پاکستان میں غیر قانونی کاروبار اور زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں، افغان اپنے وطن واپس لوٹے تو پاکستانی شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کھلیں گے. ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہاکہ جس نہر میں وہ اکثر تیراکی کرتے ہیں، وہاں کناروں کے ساتھ ڈمپر کھڑے ہیں، جو افغان باشندوں کی ملکیت ہیں جو عارضی پناہ گاہوں میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے آبپاشی کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افغان ڈمپر مالکان شاید محکمہ آبپاشی کو رشوت دیتے ہیں، پاکستان میں جتنے ناجائز کاروبار ہیں سب افغان کرتے ہیں، ہماری تمام نہروں کے کنارے افغان شہریوں نے تجاوزات کر رکھی ہیں. وزیر دفاع نے دعوی کیا کہ تقریبا 6 سے 7 ملین غیر دستاویزی افراد پاکستان میں ہیں، اور تجویز دی کہ اگر افغان اپنے وطن واپس لوٹے تو پاکستانی شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کھلیں گے خارجہ تعلقات کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس وقت امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن ماضی کے برعکس یہ تعلقات مشترکہ فوجی مصروفیات پر مبنی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مانے یا نہ مانے، عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ہے، بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل اور بھارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکا اور یورپ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل بے دریغ کام کر رہا ہے، اگر بھارت بھی ایسا ہی کررہا ہے تو اس کے پیچھے کون ہے؟ وزیر دفاع نے زور دے کر کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن تنازعات کا حل ضروری ہے انہوں نے کہا کہ اگر اندرونی مسائل حل ہو جائیں تو پاکستان نمایاں طور پر ترقی کر سکتا ہے پاکستان تحریک انصاف سے متعلق گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمجھ رہی تھی قانون کی پروا نہیں، شخصیت پرستی کام آئے گی، جیل کاٹنا مشکل ہے لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔