Express News:
2025-07-06@06:44:37 GMT

تعلیم اور جدید تصورات

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

آج دنیا میں جدید تعلیم کے تصورات بدل گئے ہیں۔پرانے نظریات یا پرانے خیالات پر مبنی تعلیمی تصورات نے اپنی اہمیت ختم کر دی ہے اور ان کی جگہ نئے تصورات نے لے لی ہے۔جو معاشرے جدید ریاستی تعلیمی نظام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہی نئی دنیا کی سطح پر نئے امکانات کو پیدا بھی کر رہے ہیں۔جب کہ اس کے برعکس پرانے خیالات سے جڑے معاشرے میںنہ تو اپنی تعلیم میں جدید تصورات کو اہمیت دے رہے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے نئے امکانات کو پیدا کر رہے ہیں۔

اس لیے آج جب ہمارے جیسے معاشروں میں تعلیمی نظام پر تنقید ہوتی ہے یا عالمی سطح پر ہماری تعلیمی قبولیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ جدید تعلیمی تصورات کا نہ ہوناہے۔

جدید سطح کے تعلیمی تصورات میں بنیادی فوقیت طلبہ و طالبات کو دی گئی ہے اور ان کی انفرادی ضروریات کو بنیاد بنا کر یا ان کی دلچسپی کے پہلوؤں کو ہی عملاً اہمیت دے کر تعلیمی نظام کو وضع کیا گیا ہے۔طلبہ و طالبات کا آپس میں مل کر رہنا یا ٹیم ورک کا ماحول پیدا کرنا اور باہمی احترام کی حوصلہ افزائی کو شامل کرنا جدید تعلیمی تصورات کا اہم نقطہ ہے۔اسی طرح طلبہ و طالبات پر تنقیدی سوچ کو پیدا کرنا تجزیاتی بنیادوں پر مسائل کا ٹھوس مشاہدہ اور تجزیہ کرنا اور مسئلہ حل کرنے کی طرف پیش رفت کرنے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔اسی طرح تخلیقی سوچ کی مہارتیں تیار کرنا اور طلبہ کو مسلسل سیکھنے کے لیے ماحول فراہم کرنا اہم حصہ ہے۔

اسی طرح تعلیم کی گہرائی میں وسعت پیدا کرنے کے لیے طلبہ و طالبات کو مختلف موضوعات اور عنوانات سے روشناس کرانا اور ان سب کوعملاً نصابی کتب میں یکجا کرنا بھی تعلیمی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔عمر یا گریٹ کی سطح کی بجائے طلبہ کی مہارت اور علم کے مظاہرے پر توجہ مرکوز کرنا بھی تعلیم کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔

آج ہمارا تعلیمی نظام کیونکہ ٹیکنالوجی کے ایک نئے دور سے گزر رہا ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی نے عملًا بہت سی نئی چیزوں کو روشناس بھی کرایا ہے اور نئے امکانات کو پیدا بھی کیا ہے۔اس لیے طلبہ و طالبات کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرانا اور ارٹیفیشل انٹیلیجنس جیسے امور سے آگاہی دینا اور اس کا بہتر استعمال کرنا بھی ہماری ضرورت بنتا ہے۔بچوں اور بچیوں کو نصابی کتابوں تک محدود کرنے کی بجائے غیر نصابی کتابوں تک رسائی دینا اور دنیا میں جتنی تیزی سے نیا علم آرہا ہے ان سے آگاہی حاصل کرنا اور ٹیکنالوجی کا استعمال پر زور دیا جانا چاہیے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہمارے تعلیمی ادارے خود بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوں اور وہاں یہ تمام سہولیات بچوں اور بچیوں کے لیے میسر ہوں اور ان کو علم دینے والے وہ قابل اساتذہ بھی اس نظام کا حصہ ہوں ۔

جدید تعلیمی تصورات میں تعلیم کی ایک بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور بچیوں میں ایسی سوچ اور فکر کو پیدا کرے جہاں پر ہمیں ایک دوسرے کی قبولیت ملے اور ڈائیورسٹی کے اصول کو اختیار کیا جائے جہاں ایک دوسرے کی سوچ کو عزت و احترام دیا جانا چاہیے۔

ان میں ثقافتی آزادیاں ہوں اور مذہب فرقہ وارانہ یا لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے بارے میں تفریق کے پہلو نہ ہوں۔ بچوں کو اس انداز سے تیار کیا جائے تو ان کو اپنے ملک کے حالات کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک اور عالمی معاملات پر کچھ نہ کچھ نظر ہونی چاہیے۔یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اب ہمارا بچہ اور بچی صرف ہمارے ملک کا بچہ بچی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق گلوبل دنیا سے ہے، اس لیے بچے اور بچی کو اس انداز سے تیار کیا جائے کہ وہ گلوبل دنیا کے معاملات پر بھی نظر رکھ سکیں۔

اسی طرح آج کی دنیا میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مہارتوں پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور خاص طور پہ ایسی مہارتیں جو بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکیں ۔ان میں بولنے کی اعلی صلاحیتیں،اپنے کام کو بہتر انداز میں پیش کرنا،تنقیدی جائزہ لینا، تنقیدی سوچ کو پیدا کرنا، تنازعات سے نمٹنا ،اچھا لکھنا، اچھے تعلقات کو قائم کرنا، اچھی نیٹ ورکنگ کو بنانا، دوستوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری، ٹیم ورک کے ساتھ کام کرنااور ڈیجیٹل میں مہارتیں حاصل کرنا شامل ہیں۔

  اب اگر ہمارا بچہ اور بچی ان مہارتوں سے خود کو طاقتور نہیں بناتے تو آج کی دنیا میں ان کو عملی سطح پرآگے بڑھنے کی گنجائش کم ہوگی۔اسی طرح بچوں کو اپنے سماجی معاملات، سیاسی معاملات کے بارے میں آگاہی دینا اور خاص طور پر ان میں شدت پسندی کا پیدا نہ ہونا جیسے امور بھی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔یہ جو عالمی سطح کے چیلنجز ہیں جن میں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیات کے معاملات ،عورتوں پر تشدد، بچوں کے خلاف جنسی زیادتی یا سائبر کرائم جیسے امور پر بھی بچوں کو بنیادی معلومات دینی ضروری ہے۔

بچے اور بچیاں بنیادی طور پر ایک ریاستی نظام میں سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کو اس انداز سے تیار کرنا کہ وہ اپنے ملک کی بہتر تصویر اپنے ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر اس انداز سے پیش کریں جس سے پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہو۔سیاسی تعصب اور سیاسی نفرت کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنے کی کوششوں کو فروغ دینا ہوگا۔اسی طرح بچوں میں رضاکارانہ کاموں کی ترغیب دینا یا ہمدردی کے پہلو پیدا کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کو بھی اجاگر کرنا ہوگا۔کیونکہ تعلیم کا مقصد محض انفرادی ترقی نہیں ہوتی بلکہ وہ انفرادی ترقی اگر معاشرتی ترقی میں تبدیل ہوگی تو تب ہی ہم تعلیم کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

ہمیں روایتی تعلیم یا روایتی سطح کے امتحانی نظام میں خود کو الجھانے کی بجائے بچوں کو مختلف نوعیت کے منصوبوں میں ڈالنا ہوگا جہاں وہ اپنی منصوبے خود تیار کریں اور خود ہی اس کی تکمیل میں آگے بڑھیں اور جہاں ان کو اپنے اساتذہ کی مدد درکار ہو وہ حاصل کریں۔ان منصوبوں میں ایسے موضوعات کا چناؤ کیا جائے جو معاشرے میں حساسیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ماں باپ پر بہت زیادہ مالی بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی تعلیم کے دوران اپنے لیے مالی وسائل پیدا کریں کیونکہ آج کل ٹیکنالوجی کی مدد سے بچے چند گھنٹوں کی بنیاد پر کچھ وسائل اپنے لیے پیدا کر سکتے ہیں۔ بچوں کی انگلیاں پکڑنے کی بجائے ان کو خود سے چلنے کی عادت ڈالیں ۔

تعلیمی ادارے ہوں یا گھر کا ماحول بچوں کو اس میں مختلف قسم کے منصوبوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان اداروں یا گھر کی بہتری میں اپنی سطح پر جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر کے دکھائیں۔ اسی طرح سے معاشرے میں موجود سماجی مسائل کے حوالے سے مختلف سماجی مہم کا حصہ بننا اور لوگوں کو سیاسی اور سماجی شعور دینا بھی ہماری تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے۔یہ جو بچوں اور بچیوں میں ہم نے ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے اس سے انھیں باہر نکالنے کے لیے ایک بہتر ماحول دینا بھی تعلیمی نظام کی ضرورت بنتی ہے۔

آج کے دور میں ہم بچوں پر بلاوجہ تشدد ڈرا کے یا دھمکا کے یا خوف پیدا کر کے ان کو تعلیم نہیں دے سکتے ان کو آزادانہ ماحول دینا ہوگا۔ پرانے طرز کی لائبریریاں اب غیر موثر ہو چکی ہیں کیونکہ ان کی جگہ ڈیجیٹل لائبریری نے لے لی ہے ۔اس لیے تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل لائبریریوں کی موجودگی اور بچوں کی ان تک عملی رسائی کو یقینی بنانا بھی ہماری تعلیمی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔اسی طرح بچوں کا سوالات اٹھانا ان کا حق ہے اور ہمیں تعلیمی نظام میں بچوں اور بچیوں کے سوالات کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور وہ تمام تنقیدی سوالات جو ان کی جانب سے آرہے ہیں ان کا مثبت جواب دینا چاہیے۔

ویسے بھی یہ صدی سوالات کی صدی ہے اور لوگ سوالات اٹھائیں گے اور وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کون سامنے کھڑا ہے اس لیے ہمیں سوالات سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ان کا مثبت جواب دینا چاہیے۔کیونکہ اگر ہم سوالات کی حوصلہ شکنی کریں گے تو اس سے بچوں میں رد عمل پیدا ہوگا اور یہ رد عمل انتہا پسندانہ رجحانات کو بھی فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ہمیں بچوں کے ساتھ ہر سطح پر مکالمے کو فروغ دینا ہوگا ان کے ساتھ بیٹھنا ہوگا ان کے خیالات کو سننا ہوگا ۔

اسی طرح ہمارے تعلیمی نظام کی ترجیحات میں بچوں کی سوک ایجوکیشن پر بنیادی فوقیت دینی چاہیے یعنی ایک اچھا بچہ اور ایک اچھی بچی سے ہماری کیا مراد ہے اور کیسے وہ اپنے آپ کو گھر کے ماحول کو کمیونٹی اور معاشرے کے ماحول کو مثبت طور پر بدل سکتی ہے۔اس میں قانون کی حکمرانی کے تصورات ہوں اور اس کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہو کہ قانون کی حکمرانی پر عمل کر کے ہی وہ خود کو بہتر شہری کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا حصہ ہونا چاہیے تعلیمی تصورات طلبہ و طالبات اسی طرح بچوں تعلیمی نظام جدید تعلیم کو پیدا کر پیدا کرنا ایک دوسرے میں تعلیم بھی ہماری کرنا اور کی حوصلہ تعلیم کے دنیا میں چاہیے یہ کیا جائے کی بجائے کرنے کی ہوں اور کے ساتھ بچوں کو رہے ہیں ہے اور اور ان کیا جا اس لیے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

ریاض احمدچودھری

یونیورسٹی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیمی معاملات نے ”اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، عصری دنیا میں چین کا کردار اور پاکستان میں ریاست اور معاشرہ” کو ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔یہ ہدایت وائس چانسلر یوگیش سنگھ کی طرف پاکستان کی تعریف والے مواد کو ہٹانے کی سفارش کے بعد کی گئی ہے۔یونیورسٹی کے فیکلٹی ارکان نے اس ہدایت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ مذکورہ کورسز کو ہٹانے سے جغرافیائی فہم کو نقصان پہنچے گا۔
ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کی سکریٹری ابھا دیو کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیمی خود مختاری ختم ہو رہی ہے، عقائد کے نظام پر مبنی کورسز کو ختم کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔اکیڈمک کونسل کے ایک منتخب رکن متھوراج دھوسیا نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اختیار کے دائرہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیٹی مشورہ دے سکتی ہے،یکطرفہ طور پر حکم نہیں دے سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا اور پاکستان مخالف جذبات کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دہلی یونیورسٹی نے مختلف انڈرگریجویٹ کورسز، خاص طور پر تاریخ اور سماجیات کے نصاب میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔اس سے قبل بھارت میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں پڑھائی جانے والی پاکستانی اور مصری مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ممتاز عالم دین اور مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصری اسکالر اور مصنف سید قطب کی کتابیں بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے طلبا کو شعبہ اسلامیات میں پڑھائی جاتی تھیں۔تاہم مودی حکومت کے حکم پر یونیورسٹی کی انتظامی کمیٹی نے اب نصاب سے دونوں علمائے دین کی کتابوں کو نکال دیا ہے۔
بھارت میں دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل تقریباً دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا، ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے”۔اس میں مزید لکھا گیا، ”ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں، ڈھٹائی سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے”۔
یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ کا کہناہے کہ انتظامی بورڈ نے پاکستانی مصنفین کی لکھی ہوئی تما م کتابیں نصاب سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ کتابیں طویل عرصے سے پڑھائی جا رہی تھیں۔یہ اقدام بظاہر یونیورسٹی میں کسی بھی تنازعہ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں، شاید جو بات پہلے پڑھانے کے قابل سمجھی جاتی تھی وہ اب اس قابل نہیں سمجھی جاتی ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں حکومت اور انتظامیہ سے متعلق اسلامی نظریات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے اسلامی طرز حکومت پر جو نظریات پیش کیے ہیں وہ نصاب کا حصہ تھے۔
ہندو انتہا پسندوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کتابوں کا مواد جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے اس پریونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے لیکن وائس چانسلر نے حکومتی دباؤ پر ان کتب کو نصاب سے نکال دیا۔ سیدمودودی اور سید قطب کی تعلیمات در اصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اوربعض ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔
یوں توراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پورے ہندستان اور انسانیت کی دشمن ہے لیکن اس کی اصل دشمنی مسلمانوں اور اسلام سے ہے۔ آر ایس ایس قائم ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔اس کا سارا لٹریچر اور اس کے لیڈروں کے بیانات اس بات کی پورے طور پر تصدیق کرتے ہیں۔آر ایس ایس کو بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ اس تنظیم کی کوکھ سے شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہی سے آر ایس ایس نے بھارت کو ہندو ریاست کا درجہ دلانے سے متعلق اپنی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کردی تھیں، اس تنظیم کے سرکردہ ذہن ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ بھارت میں صرف اور صرف ہندو پسند ذہنیت پروان چڑھے اور اسلام پسند ذہنیت خاص طور پر ناکام ہو۔ دیگر اقلیتوں کے لیے بھی آر ایس ایس کا یہی ایجنڈا رہا ہے۔ ایک زمانے تک اِس نے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا مگر اب یہ عیسائیوں، بدھ ازم کے پیرو کاروں اور سِکھوں کو بھی نشانے پر لیے ہوئے ہے۔
بھارت میں تعلیم کے حوالے سے اپنی بات منوانے کے لیے آر ایس ایس خاص طور پر فعال رہی ہے۔ حکومت پر دباؤ ڈال کر وہ اپنا تعلیمی ایجنڈا پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے سکولوں کی سطح پر نصابی کتب کی تبدیلی کے ذریعے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کی بھرپور کوششوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ پنڈت تیار کرنے اور رسوم ادا کرنے سے متعلق کتب بھی نصاب کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ آر ایس ایس کی خواہش رہی ہے کہ ہندوتوا سے متعلق ایجنڈے کو زیادہ سے زیادہ وسعت کے ساتھ اور نہایت تیزی سے نافذ یا مسلط کیا جائے قدیم، ادوارِ وسطی اور جدید زمانے کی تاریخ کو تبدیل کرنے یعنی اْسے ہندو رنگ دینے کی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کر دی گئی ہیں یہ عمل اس قدر تیز ہے کہ اب اقلیتیں بھارت میں اپنی بقاء کے حوالے سے شدید خطرات محسوس کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • آن لائن تعلیمی ادارہ
  • گھروں کو ٹھنڈا رکھیں
  • سیاست دان ملک کے لیے لچک پیدا کرکے کوئی راستہ نکالیں، مفتاح اسماعیل
  • بچوں سے زیادتی کے ملزم کے ساتھ کام کرنا نین تارا کو مہنگا پڑگیا
  • پسماندہ علاقوں میں تعلیمی انقلاب، 19 ارب روپے کے دانش سکول منصوبے منظور
  • بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار
  • ڈیڑھ کروڑ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور جدید سہولیات فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں، چیئرمین ایچ ای سی
  • کبھی بھی خیبر پختونخوا میں بحران پیدا کرنے والا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، سینیٹر عرفان صدیقی
  • چین میں انسان نما روبوٹس کا فٹبال میچ، انسانی ٹیموں سے زیادہ جوش و خروش پیدا کرگیا
  • چین اور یورپی یونین حریف کے بجائے شراکت دار ہیں، چینی وزیر خارجہ