دہشتگردی قابلِ مذمت، اِس کی کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
پاکستان کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا ہے کہ دہشتگردی کا بنیادی مقصد سماجی ڈھانچے کو توڑنا، معاشرے میں سیاسی بحران پیدا کرنا ہوتا ہے، جبکہ پسِ منظر میں دہشتگردی کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ دہشتگردی ایک قابلِ مذمت عمل ہے اور اِس کی کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اللہ کریم نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اور جس نے جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کیا اُس کے لیے اور بڑی وعید ہے کہ اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے، جہاں وہ لمبا عرصہ قیام کرے گا، اُس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ نے اُس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں افغانستان نے دہشتگردوں کو نہ روکا تو کل خود بھی اسی آگ میں جلنا ہوگا، علامہ طاہر اشرفی
دہشتگردی کو کس طرح روکا جائے؟اس سوال کے جواب میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ اگر دہشتگردی کو روکنا ہے تو ریاست، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علما کا ایک پیج پر آنا انتہائی ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں جبکہ علما اس کے خلاف بیانیہ بناتے ہیں، سارے ایک پیچ پر ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشتگردی پر قابو نہ پایا جا سکے۔
انہوں نے کہاکہ پاک فوج ملکی سرحدوں کی محافظ جبکہ علما ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، ریاست اور علما کے بیانیے میں تصادم کا تاثر بالکل غلط ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اُس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ اُن عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے جو ملک میں دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔
کیا دہشت گردی کی بنیاد مذہب ہے؟علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے دہشتگردی اور مذہب کے تال میل سے متعلق ایک سوال پر کہاکہ پاکستان میں دہشتگردی کی کوئی ایک وجہ نہیں اور دہشت گردی کی بنیاد صرف مذہب نہیں بلکہ قوم پرستی اور لسانیت بھی ہے۔ لیکن دہشت گردی خواہ مذہب کی بنیاد پر کی جائے، قومیت یا لسانیت کی بنیاد پر، اُس کا ہر رنگ قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے اندر خونِ ناحق کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں ہے، اِسلام اگرچہ ایک اللہ کی عبادت کے نقطے کے گرد گھومتا ہے لیکن جب وہ سماجی زندگی کی بات کرتا ہے تو اُس کی اپروچ کثیرالجہتی یا پلورلسٹ ہوتی ہے۔ اِسلام تمام طبقات زندگی کو جینے کا پورا پورا حق دیتا ہے، قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جو بھی باعمل مسلمان ریاستیں رہی ہیں اُنہوں نے کبھی بھی اقلیتوں کے حقوق سے انکار نہیں کیا۔
دہشت گردوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ ہمیشہ مذہبی طبقے نے کیاعلامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ ایسے جرائم جن کی وجہ سے دہشت پھیلی ہو اُن کے لیے سزائے موت کا مطالبہ ہمیشہ مذہبی طبقے کی جانب سے آیا ہے جبکہ بعض دوسرے طبقات لبرلزم کی وجہ سے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور کئی دفعہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کے لیے بھی سزائے موت کے مطالبے میں رعایت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اِسے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہیں۔
دہشتگردوں کے ہاتھوں علما کا قتل ان کے مخالف ہونے کی دلیل ہےعلامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ اِس وقت علما کی ایک بہت بڑی تعداد دہشتگردوں کے نشانے پر ہے، پے در پے مسلسل علما کی شہادتیں اِس بات کا ثبوت ہیں دہشت گرد جس طرح مُلک کے دیگر طبقات کے خلاف ہیں اُسی طرح سے وہ علما کے بھی خلاف ہیں۔ کسی ایک شخص یا ایک چھوٹے گروہ کے بیانیے کو ہم مذہبی طبقے کا بیانیہ قرار نہیں دے سکتے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں قانونِ قصاص یا سزائے موت کا مطالبہ جب بھی کیا گیا ہے وہ علما ہی کی جانب سے کیا گیا ہے۔
کسی ایک فرد یا چھوٹے گروہ کا بیان مذہبی جماعتوں کا بیانیہ نہیںاُنہوں نے کہاکہ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں دہشتگردی کی مذمت کرنے پر متفق ہیں، کسی ایک فرد، کسی ایک چھوٹے گروہ کے کسی عمل کو ہم علما کا نقطہ نظر نہیں کہہ سکتے۔ ماضی قریب میں ایک مذہبی جماعت کے سربراہ نے ایسا ایک بیان دیا جس پر اُنہیں نہ صرف مذہبی طبقے بلکہ اُن کی جماعت کے اپنے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہاکہ نفاذِ شریعت کے حوالے سے تمام بڑی مذہبی جماعتوں کا مطالبات آئینی فریم ورک کے اندر ہیں۔
علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ مذہبی جماعتیں عام روایتی سیاسی جماعتوں سے اِس اعتبار سے الگ ہیں کہ عام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا صرف ترقی تک محدود ہے اور وہ معاشرے کے اندر قانون کی حکمرانی میں دین کی بات کو اُس طرح سے نہیں لیتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری مذہبی جماعتیں دین کی مکمل بالادستی پر مکمل یقین رکھنے کے باوجود اِس ساری کاوش کو دلائل کی روشنی میں، آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے پُرامن انداز میں کرنے کی قائل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دینی جماعتوں کے اندر کوئی انتہا پسندی نہیں پائی جاتی اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان عالمی تعاون سے دہشتگردی پر قابو پاسکتا ہے، چینی قونصل جنرل
کیا علما کو اپنے خطبات کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے؟اس سوال کے جواب میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ سمجھدار علما ہمیشہ جان کی حرمت کی بات کرتے ہیں، اور وہی قانونِ قصاص یا سزائے موت پر عملدرآمد کی بات کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئین و قانون دہشتگردی ریاستی ادارے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر علما قابل مذمت وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دہشتگردی ریاستی ادارے علامہ ابتسام ال ہی ظہیر وی نیوز علامہ ابتسام ال ہی ظہیر نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ نے کہاکہ ا کا مطالبہ سزائے موت کی بنیاد کرتے ہیں کے اندر کے خلاف کسی ایک ہیں کہ کی بات کے لیے
پڑھیں:
کینال معاملے پر لوگوں کے تحفظات جائز ہیں: شرجیل میمن
وزیرِاطلاعات سندھ شرجیل میمن — فائل فوٹووزیرِ اطلاعات سندھ شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ کینال معاملے پر لوگوں کے تحفظات جائز ہیں۔
شرجیل میمن نے اپنے بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نہروں کے معاملے پر پہلے روز سے اپنے مؤقف پر قائم ہے، کینال کا معاملہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اٹھایا، 14جون 2024ء کو نہروں کے معاملے پر بننے والی سمری پر وزیرِ اعلیٰ سندھ نے دستخط کیے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم صرف سندھ کے نہیں پورے ملک کے کسانوں کا سوچتے ہیں، مظاہرین سے درخواست ہے کہ احتجاج گراؤنڈز میں کریں، سڑکوں پر نہیں، کسی کو تکلیف دے کر احتجاج نہ کریں، ہم مہذب لوگ ہیں، احتجاج سے کسی کا نقصان نہیں چاہتے۔
وزیرِِ اطلاعات سندھ نے کہا کہ ن لیگ کے کچھ رہنما الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں، میرے خیال سے وہ معاملہ بنانا نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے بیانات کا رد عمل دیں تاکہ حالات مزید خراب ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے کہنے پر رانا ثناء اللّٰہ بات چیت کر رہے ہیں جو خوش آئند ہے، اب اگر ن لیگ کے رہنماؤں نے کوئی بیان دیا تو شاید ہم اب بھی اپنے ترجمانوں کو روک نہ سکیں، ہم نے ابھی تک کسی کی لیڈر شپ پر بات نہیں کی، ن لیگ کے جو لوگ باتیں کر رہے ہیں ان کا سیاسی قد ابھی اتنا نہیں کہ اتنی بڑی باتیں کریں۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو کئی خط لکھے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا، مگر اجلاس نہِیں بلایا گیا۔
شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی سنجیدگی سے معاملات کو دیکھتی ہے، پنجاب حکومت کا شاید وفاق سے ذاتی جھگڑا ہے، وزراء بیانات سے شاید وفاق کو مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں، وزیرِ اعظم اور نواز شریف سے اپیل ہے ماحول خراب کرنے والوں کو سمجھائیں، یہی روش رہی تو بات بنے گی نہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ شہباز شریف عوام میں احساس محرومی اور خدشات کو دور کریں، اتفاق رائے سے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے، ہمیں افہام و تفہیم کےساتھ معاملات کو حل کرنا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اپنی مرضی سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی، عمر کوٹ کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا، عمرکوٹ میں ضمنی الیکشن کا نتیجہ کیا نکلا سب کو پتہ ہے۔