پاکستان کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا ہے کہ دہشتگردی کا بنیادی مقصد سماجی ڈھانچے کو توڑنا، معاشرے میں سیاسی بحران پیدا کرنا ہوتا ہے، جبکہ پسِ منظر میں دہشتگردی کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ دہشتگردی ایک قابلِ مذمت عمل ہے اور اِس کی کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اللہ کریم نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اور جس نے جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کیا اُس کے لیے اور بڑی وعید ہے کہ اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے، جہاں وہ لمبا عرصہ قیام کرے گا، اُس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ نے اُس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں افغانستان نے دہشتگردوں کو نہ روکا تو کل خود بھی اسی آگ میں جلنا ہوگا، علامہ طاہر اشرفی

دہشتگردی کو کس طرح روکا جائے؟

اس سوال کے جواب میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ اگر دہشتگردی کو روکنا ہے تو ریاست، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علما کا ایک پیج پر آنا انتہائی ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں جبکہ علما اس کے خلاف بیانیہ بناتے ہیں، سارے ایک پیچ پر ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشتگردی پر قابو نہ پایا جا سکے۔

انہوں نے کہاکہ پاک فوج ملکی سرحدوں کی محافظ جبکہ علما ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، ریاست اور علما کے بیانیے میں تصادم کا تاثر بالکل غلط ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اُس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ اُن عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے جو ملک میں دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔

کیا دہشت گردی کی بنیاد مذہب ہے؟

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے دہشتگردی اور مذہب کے تال میل سے متعلق ایک سوال پر کہاکہ پاکستان میں دہشتگردی کی کوئی ایک وجہ نہیں اور دہشت گردی کی بنیاد صرف مذہب نہیں بلکہ قوم پرستی اور لسانیت بھی ہے۔ لیکن دہشت گردی خواہ مذہب کی بنیاد پر کی جائے، قومیت یا لسانیت کی بنیاد پر، اُس کا ہر رنگ قابلِ مذمت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے اندر خونِ ناحق کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں ہے، اِسلام اگرچہ ایک اللہ کی عبادت کے نقطے کے گرد گھومتا ہے لیکن جب وہ سماجی زندگی کی بات کرتا ہے تو اُس کی اپروچ کثیرالجہتی یا پلورلسٹ ہوتی ہے۔ اِسلام تمام طبقات زندگی کو جینے کا پورا پورا حق دیتا ہے، قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جو بھی باعمل مسلمان ریاستیں رہی ہیں اُنہوں نے کبھی بھی اقلیتوں کے حقوق سے انکار نہیں کیا۔

دہشت گردوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ ہمیشہ مذہبی طبقے نے کیا

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ ایسے جرائم جن کی وجہ سے دہشت پھیلی ہو اُن کے لیے سزائے موت کا مطالبہ ہمیشہ مذہبی طبقے کی جانب سے آیا ہے جبکہ بعض دوسرے طبقات لبرلزم کی وجہ سے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور کئی دفعہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کے لیے بھی سزائے موت کے مطالبے میں رعایت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اِسے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہیں۔

دہشتگردوں کے ہاتھوں علما کا قتل ان کے مخالف ہونے کی دلیل ہے

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ اِس وقت علما کی ایک بہت بڑی تعداد دہشتگردوں کے نشانے پر ہے، پے در پے مسلسل علما کی شہادتیں اِس بات کا ثبوت ہیں دہشت گرد جس طرح مُلک کے دیگر طبقات کے خلاف ہیں اُسی طرح سے وہ علما کے بھی خلاف ہیں۔ کسی ایک شخص یا ایک چھوٹے گروہ کے بیانیے کو ہم مذہبی طبقے کا بیانیہ قرار نہیں دے سکتے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں قانونِ قصاص یا سزائے موت کا مطالبہ جب بھی کیا گیا ہے وہ علما ہی کی جانب سے کیا گیا ہے۔

کسی ایک فرد یا چھوٹے گروہ کا بیان مذہبی جماعتوں کا بیانیہ نہیں

اُنہوں نے کہاکہ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں دہشتگردی کی مذمت کرنے پر متفق ہیں، کسی ایک فرد، کسی ایک چھوٹے گروہ کے کسی عمل کو ہم علما کا نقطہ نظر نہیں کہہ سکتے۔ ماضی قریب میں ایک مذہبی جماعت کے سربراہ نے ایسا ایک بیان دیا جس پر اُنہیں نہ صرف مذہبی طبقے بلکہ اُن کی جماعت کے اپنے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہاکہ نفاذِ شریعت کے حوالے سے تمام بڑی مذہبی جماعتوں کا مطالبات آئینی فریم ورک کے اندر ہیں۔

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہاکہ مذہبی جماعتیں عام روایتی سیاسی جماعتوں سے اِس اعتبار سے الگ ہیں کہ عام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا صرف ترقی تک محدود ہے اور وہ معاشرے کے اندر قانون کی حکمرانی میں دین کی بات کو اُس طرح سے نہیں لیتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری مذہبی جماعتیں دین کی مکمل بالادستی پر مکمل یقین رکھنے کے باوجود اِس ساری کاوش کو دلائل کی روشنی میں، آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے پُرامن انداز میں کرنے کی قائل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دینی جماعتوں کے اندر کوئی انتہا پسندی نہیں پائی جاتی اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان عالمی تعاون سے دہشتگردی پر قابو پاسکتا ہے، چینی قونصل جنرل

کیا علما کو اپنے خطبات کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے؟

اس سوال کے جواب میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ سمجھدار علما ہمیشہ جان کی حرمت کی بات کرتے ہیں، اور وہی قانونِ قصاص یا سزائے موت پر عملدرآمد کی بات کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئین و قانون دہشتگردی ریاستی ادارے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر علما قابل مذمت وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دہشتگردی ریاستی ادارے علامہ ابتسام ال ہی ظہیر وی نیوز علامہ ابتسام ال ہی ظہیر نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ نے کہاکہ ا کا مطالبہ سزائے موت کی بنیاد کرتے ہیں کے اندر کے خلاف کسی ایک ہیں کہ کی بات کے لیے

پڑھیں:

چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور

10 دن سے دہشتگردی کی کارروائیوں اور اس کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے بڑھ چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہورہے ہیں۔ 3 دہشتگردوں کو مارتے ہوئے ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ اس سے آپ کارروائیوں کی نوعیت اور شدت کا اندازہ لگا لیں۔

پاکستان دنیا کی 5ویں بڑی آبادی ہے۔ گلوبل فائر پاور نامی ویب سائٹ کے مطابق فوجی طاقت کے حساب سے ہمارا رینک 12واں بنتا ہے۔ فوجیوں کی تعداد کے حساب سے ہمارا 7واں نمبر ہے۔ ایئر فورس چھٹے نمبر پر آتی ہے۔ ٹینکوں کے حساب سے 7ویں، ہیلی کاپٹر اور آرٹلری کے حساب سے ہم 10ویں نمبر پر ہیں۔

ہماری معیشت کا سائز 2.08 کھرب ہے اور ہم 40ویں بڑی معیشت ہیں۔ قوت خرید کے حساب سے ہم 26ویں نمبر پر آتے ہیں۔ قوت خرید میں سنگاپور، سویٹزرلینڈ ، اسرائیل اور ڈنمارک جیسے ملک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ کریٹکل منرل کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ ابھی طے نہیں کی جاسکی ہے۔ کریٹکل منرل کی مارکیٹ اور سپلائی پر چین کی اجارہ داری ہے۔

امریکا کریٹکل منرل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اے آئی کو اپنے سیکیورٹی ڈومین میں لاتا جارہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کا پوٹینشل اسے امریکا کا قریبی اتحادی بنا رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت 4 روزہ جنگ میں پاکستان نے دنیا کا وہم دور کردیا ہے کہ یہ کوئی فیل ہوتی ریاست ہے۔ یہ اب ثابت ہوچکا کہ پاکستان کو فوجی حساب سے کوئی شکست دینا ممکن نہیں۔

اس نو دریافت اعتماد نے پاکستان کی عالمی لینڈ اسکیپ پر سفارتی، سیاسی اور علاقائی پوزیشن بالکل تبدیل کردی ہے۔ اب معیشت بہتر کرنا واحد فوکس رہ جاتا ہے۔ معاشی بہتری کے لیے امن و امان کی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی اور افغانستان کے ساتھ مسائل بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس تناسب پر غور کریں جس کے مطابق ہر 3 دہشتگردوں کے مقابل ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ پھر یہ دھیان میں لائیں کہ یہ نقصان جس فوج کو اٹھانا پڑ رہا اس کی طاقت اور رینکنگ کیا ہے۔

یہیں رک کر کپتان کے جیل سے دیے گئے حالیہ بیان پر غور کریں، جس میں اس نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ ملک میں 71 جیسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ پارٹی کے منتخب ممبران دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کریں۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر ڈرون حملوں کی مخالفت کریں اور اس آپریشن کو رکوائیں۔ پھر ان معززین کی بات پر ایمان لے آئیں جو بتاتے رہتے ہیں کہ کپتان جیل میں بیٹھا بڑی گیم لگا رہا ہے۔ یہ بڑی گیم بھائی اپنے ہی خلاف لگا کر بیٹھا ہے۔

آپ دہشتگردی کو مانیٹر کرنے والی کسی بھی سائٹ کو کھولیں۔ اس پر صرف یہ سرچ کریں کہ پاک بھارت جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں دہشتگردی کی کارروائیوں اور نوعیت میں کیا فرق آیا ہے؟ دہشتگردی کی کارروائیوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہشتگردوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال 10 گنا بڑھا دیا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے ڈرون اور کواڈ کاپٹر کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کو اب حوالدار بشیر کی آنکھ سے دیکھیں، دوسری آنکھ سے کپتان کا بیان پڑھیں اور توبہ استغفار کرتے ہوئے اس پارٹی کی خیر مانگیں۔

بیجنگ میں 17 سے 19 جنوری تک شیانگ شانگ سیکیورٹی فورم کا اجلاس ہورہا ہے۔ اس میں روس، امریکا اور ایران سمیت 10 ملکوں کے وفود شریک ہورہے ہیں۔ اس بار اجلاس کی تھیم ہے کہ عالمی آرڈر برقرار رکھتے ہوئے ترقی کا فروغ۔ سیکیورٹی فورم کا ایجنڈا بھی امن اور ترقی ہو جس کے لیے بظاہر متحارب ملک بھی سر جوڑ کر بیٹھیں۔ تو ایسے میں دہشتگردی، عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

افغانستان کی موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یو این سے لے کر ہر اہم فورم پر افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کی بات ہوتی ہے۔ ان گروپوں سے خطے کے سارے ملک خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ یہ خطرہ حقیقی ہے۔ اس کے خلاف مکمل اتفاق رائے بنتا جارہا ہے۔ افغان طالبان کو لگتا ہے کہ پاکستان ہر عالمی فورم پر ان کی مخالفت کررہا ہے جبکہ افغانستان میں موجود مسلح گروپوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان لاکھوں افغانوں کا دوسرا گھر بنا رہا ہے۔ پاکستان میں وہ پاکستانیوں کی طرح کاروبار، روزگار اور جائیدادیں بناتے ترقی کرگئے اور تعلیم حاصل کی۔ اب اسی افغانستان سے پاکستان کے اندر مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں جن میں افغان باشندے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہورہا ہے وہ کم از کم ریاست پاکستان نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان مسلح تنظیموں کو ہر جگہ نشانہ بنائے گا۔

چھوٹی عینک لگا کر مقامی، سیاسی اور معاشی صورتحال دیکھیں یا بڑی عینک لگا کر خطے اور عالمی سیاست، معیشت اور سفارت کو دیکھ لیں۔ پاکستان اپنی نو دریافت طاقت کے مطابق ہی پوزیشن لیتا اور معاملات کو حل کرتا ہی دکھائی دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • پاک سعودی دفاعی معاہدے پر وزیراعظم اور آرمی چیف کو خراجِ تحسین، علما کونسل کا یوم تشکر منانے کا اعلان
  • اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ