حکومت کی تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کرلی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ زیادہ ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اس طبقے کو بھی فوری ریلیف سے معذرت ہی کرلی ہے، اسی طرح چینی کی گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر کرنے کی نوید سُنا دی ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی زیرصدارت ہوا، جس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بہت زیادہ دباؤ کیخلاف توجہ دلاونوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا کافی بوجھ ہے مگر ملکی معیشت کے حالات ایسے ہیں کہ فوری طور پر ملازمین کو ریلیف دیا جانا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ریلوے میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں، بلوچستان میں ٹرین پر اب 22 سکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے، بولان اور جعفر ایکسپریس کو جلد بحال کیا جائے گا۔
شاہد عثمان نے کہا ہے کہ کمیٹی چینی کی کمرشل اور گھریلو الگ الگ قیمتوں کے تعین کے لیے 17 اپریل تک کام مکمل کرلے گی۔
وزیر مملکت شاہد عثمان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بحالی میں ایک سال لگے گا۔ قومی بچت اسکیموں میں اسلامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے توجہ دلاؤ نوٹس پر ایوان کو بتایا گیاکہ 64 ارب روپے کی اسلامی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے
پڑھیں:
سوات قومی جرگہ کا دسمبر میں لویہ جرگہ بلانے کا عندیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سوات (صباح نیوز)سوات قومی جرگہ نے ملاکنڈ ڈویژن میں امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور مرکزی و صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر فوری طور پر دہشت گرد عناصر کے خلاف عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دسمبر میں ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر لویہ جرگہ بلایا جائے گا۔ سوات پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرگہ کے اراکین مختار خان یوسفزئی، خورشید کاکا جی، شیر شاہ خان، الحاج زاہد خان، اختر علی خان جی، شیر بہادر زادہ، احمد شاہ خان، ڈاکٹر خالد محمود اور دیگر نے کہا کہ سوات میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عوام میں شدید تحفظات اور بے چینی پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چار ماہ قبل ہونے والے مسلسل احتجاج کے بعد کمشنر ملاکنڈ اور ڈپٹی کمشنر سوات نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ماہ کے اندر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرکے علاقے میں امن بحال کیا جائے گا، لیکن چار ماہ گزرنے کے باوجود صورتحال میں بہتری نہیں آئی اور بے امنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رہنماؤں نے سوات قومی جرگہ کے رہنما ممتاز علی خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی حلقوں نے یقین دلایا تھا کہ پولیس فورس دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مگر زمینی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے جس سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔جرگہ رہنماؤں نے کہا کہ اب ایک بار پھر سوات اور پورے ملاکنڈ ڈویژن میں حالات کو خراب کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو یہاں کی عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ٹھوس، سنجیدہ اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھا کر علاقے میں قیام امن کو یقینی بنایا جائے، بصورت دیگر سوات قومی جرگہ دسمبر کے مہینے میں ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر لویہ جرگہ بلائے گا اور پھر جرگہ کے فیصلوں کے مطابق دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پر عملی اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔