ٹرمپ انتظامیہ کیجانب سے یمن جنگ کا خفیہ منصوبہ غلطی سے صحافی کو بھیجے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ سے متعلق اپنے انتہائی اہم خفیہ منصوبے لاپروائی سے امریکی جریدے کے سینئرصحافی کو بھیج دیے، اس بات کا دعویٰ اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹرانچیف جیفری گولڈبرگ نے کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو تو یمن پر امریکی بمباری کا پندرہ مارچ کو امریکا کے ایسٹرن ٹائم دو بجے دوپہر معلوم ہوا تاہم اسے یہ اطلاع دو گھنٹے پہلے ہی مل گئی تھی کہ ممکنہ طور پر حملے کیے جارہے ہیں، وجہ یہ تھی کہ وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گیارہ بج کر چوالیس منٹ پر انہیں بھی جنگ کا تمام تر منصوبہ ٹیکسٹ پیغام میں غلطی سے بھیج دیا تھا۔
اس منصوبے میں ہتھیاروں کی نوعیت، اہداف اور حملے کا وقت بھی درج تھا۔
صحافی نے بتایا کہ گیارہ مارچ کو اسے میسیجنگ سروس سے متعلق سگنل ایپلی کیشن پر مائیکل والز Michael Waltz نامی شخص کی جانب سے کنکشن کی ریکویسٹ ملی تھی۔
وہ یہ سمجھے کہ مائیکل والز صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی مشیر ہیں تاہم انہیں یقین نہیں تھا کہ یہ ریکویسٹ صدارتی مشیر ہی کی جانب سے ہے۔
وہ مائیکل والز سے ماضی میں مل تو چکے ہیں تاہم انہیں زرا غیرمعمولی لگا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان سے رابطہ کیا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کا ان سے ماضی میں رویہ بعض اوقات سرد مہری پر مبنی رہا تھا۔
صحافی نے کہا کہ اس لیے وہ یہ سمجھے کہ شاید کوئی انہیں پھانسنے کیلیے والز کا بہروپ اختیار کیے ہوئے ہے، تاہم درخواست اس امید سے قبول کرلی کہ شاید اصل صدارتی مشیر ہی ان سے یوکرین، ایران یا کسی اور اہم معاملے پر چیٹ کریں گے۔
جمعرات کو یعنی دو روز بعد چار بجکر اٹھائیس منٹ پر انہیں نوٹس ملا کہ انہیں سگنل چیٹ گروپ میں شامل کیا جارہا ہے جسے حوثی پی سی اسمال گروپ کا نام دیا گیا تھا۔
مائیکل والز کی جانب سے گروپ میں پیغام بھیجا گیا کہ ٹیم ایک گروپ بنایا جارہا ہے تاکہ حوثیوں سے متعلق رابطہ رکھا جائے بلخصوص اگلے 72 گھنٹوں کیلیے یہ بھی کہ علی الصبح Sit Room سیٹ روم میں ہوئی میٹنگ کے تناظر میں ان کے نائب الیکس وانگ ایکشن آئٹمز کیلیے ٹائیگر ٹیم بنا رہے ہیں اور یہ بھی کہ معلومات شام کے وقت بھیجی جائیں گی، یہ بھی کہ رابطوں کیلیے بہترین اسٹاف مہیا کیا جائے۔
صحافی کے مطابق جس پرنسپلز کمیٹی کی بات کی گئی اس میں سینئر ترین قومی سلامتی اہلکار بشمول وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ اور ڈائریکٹر سی آئی اے شامل ہوتے ہیں۔
صحافی کے بقول یہ پہلی بار تھا کہ اس نے سنا ہو کہ اس سطح کی میٹنگ کمرشل میسیجنگ ایپ پر کی جارہی ہو۔
ایک ہی منٹ گزرا تھا کہ ایم اے آر نامی شخص نے پیغام دیا کہ اس نے محکمہ خارجہ کی جانب سے مائیک Needham کو نمائندہ مقرر کردیا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ کا نام مارکو انٹونیو روبیو ہے، جبکہ مائیک نیڈہیم قونصلر ہیں۔
اسی لمحے جے ڈی وینس نامی شخص نے لکھا کہ نائب صدر کی جانب سے اینڈی بیکر نمائندہ ہوں گے، ایک ہی منٹ گزرا تھا کہ ٹی جی نامی شخصیت نے جو کہ ممکنہ طور پر ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تُلسی گیبارڈ تھیں، انہوں نے لکھا کہ انکے نمائندے Joe Kent جو کینٹ ہوں گے۔
نومنٹ بعد اسکاٹ بی نامی شخص نے جو کہ بظاہر وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ تھے، انہوں نے لکھا کہ انکے نمائندے Dan Katz ڈین کاٹز ہوں گے۔
چار بجکر تریپن منٹ پر پیٹ ہیگسیتھ نامی صارف نے لکھا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے Dan Caldwell نمائندہ ہوں گے، چھ بجکر چونتیس منٹ پر برائن نامی صارف نے لکھا کہ این ایس سی کیلئے برائن مک کورمک McCormack ہوں گے، ایک اور شخص John Ratcliffe نے ایک سی آئی اے اہلکار کا نام لکھا۔
صحافی کا کہنا ہےکہ وہ اس اہلکار کا نام اس لیے ظاہر نہیں کررہا کیونکہ وہ حاضر سروس انٹیلی جنس افسر ہے، مجموعی طور پر اٹھارہ افراد فہرست میں شامل کیے گئے، جن میں قومی سلامتی اہلکار اسٹیو وٹکافSteve Witkoff، صدر کی مشرق وسطیٰ سے متعلق مذاکرات کارSusie Wiles، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ایس ایم یعنی شاید اسٹیفن ملرStephen Miller تھے، جمعرات کو صرف اتنی ہی بات ہوئی۔
اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر انچیف جیفری گولڈ برگ نے کہا کہ انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اتنی لاپروائی برت سکتی ہے کہ جنگی منصوبے کیلئے سنگل پلیٹ فارم استعمال کیا جارہا ہو اور قومی سلامتی مشیر انہیں گروپ میں شامل کرلے، تاہم اگلے روز حیرانی اور بڑھ گئی۔
صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر مائیکل والز نے محکمہ خارجہ اور دفاع کو مخاطب کرکے لکھا کہ علاقائی اتحادیوں اور شراکت داروں کیلئے مجوزہ نوٹی فکیشن فہرست بنائی گئی ہے۔
جے ڈی وینس نے کہا کہ امریکا کی تین فیصد جبکہ یورپ کی چالیس فیصد بحری تجارت سوئز کینال سے ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ لوگ نہ سمجھ سکیں کہ یہ اقدام کیوں ضروری ہے۔
سب سے بڑی دلیل یہ ہے جیسا صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ پیغام دینا چاہتے ہیں، تاہم ساتھ ہی وینس نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ صدر اس بات سے آگاہ بھی ہیں کہ یہ یورپ سے متعلق انکے موقف سے کتنا متضاد ہے، ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے تیل کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔مگر لکھا کہ وہ اپنےخدشات ایک طرف رکھتے ہوئے ٹیم کے اتفاق رائے پر چلیں گے، تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ معاشی صورتحال اور دیگر عوامل کی وجہ سے ٹھوس دلائل ہیں کہ یہ کام ایک ماہ کیلئے ملتوی کیاجانا چاہیے۔
اس پر صدرٹرمپ کی جانب سے نامزد نیشنل انسداد دہشتگردی سینٹر کے سربراہ جو کینٹ نے لکھا کہ ایک ماہ بعد بھی ہمارے پاس یہ آپشنز موجود ہوں گے، کچھ ہی دیر بعد جان ریٹ کلیف John Ratcliffe نے حالیہ انٹیلی جنس آپریشنز سے متعلق معلومات شئیر کی۔
تب پیٹ ہیگسیتھ نے لکھا کہ میں آپ کے خدشات سمجھ سکتا ہوں، ساتھ ہی کہا کہ کوئی بھی حوثیوں سے واقف نہیں، اس لیے ہماری توجہ دو باتوں پر رہنی چاہیے۔
پہلی یہ کہ بائیڈن ناکام رہے اور دوسرے کہ ایران حوثیوں کو فنڈ کرتا ہے، ہیگسیتھ نے کہا کہ ایک ماہ انتظار سے کیلکولس بدل نہیں جائے گا، انتظار سے خدشہ یہ ہے کہ راز افشا ہوجائے اور ہم غیر فیصلہ کن نظر آئیں اور اسرائیل حملے میں پہل کرلے یا غزہ جنگ بندی ختم ہوجائے اور پھر ہم اسے اپنی شرائط پر شروع نہ کرسکیں۔
ہیگسیتھ نے کہا کہ اگر ان کے ہاتھ میں معاملہ ہو تو وہ کہیں گے کہ نیوی گیشن کی آزادی بحال کرنے اور ڈیٹرینس کو پھر سے قائم کرنے کی خاطر ہمیں یہ اقدام کرلینا چاہیے۔
آٹھ بجکر پنتالیس منٹ پر جے ڈی وینس نے لکھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ کرنا چاہیے تو آغاز کیا جائے، مجھے نفرت ہے کہ یورپ کو پھر سے بیل آوٹ کیا جائے۔
اس پر ہیگسیتھ نے کہا کہ وہ یورپیوں کی جانب سے فری لوڈنگ پر وینس کی اس نفرت سے متفق ہیں۔
اس پر ایس ایم یعنی ممکنہ طور پر اسٹیفن ملر نے کہا کہ صدر پہلے ہی گرین سگنل دے چکے ہیں تاہم ہمیں مصر اور یورپ پر واضح کرنا چاہیے کہ ہمیں بدلے میں کیا چاہیے، اگر نیوی گیشن بحال کردیا جاتا ہے تو امریکا کو مزید معاشی فائدہ ہونا چاہیے،جس پر پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ وہ متفق ہیں۔
صحافی نے کہا کہ وہ حیرت ذدہ تھے کہ کسی نے انکی موجودگی کا ابتک نوٹس کیوں نہیں لیا، پندرہ مارچ کو کہانی عجیب و غریب رُخ اختیار کرگئی۔ کیونکہ ہیگسیتھ نے یمن پر حملے کی آپریشنل تفصیلات شئیر کردیں جس میں اہداف، امریکی اسلحہ اور حملوں کی ترتیب شامل تھی، تاہم یہ خفیہ معلومات دشمن ممالک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے صحافی نے اپنے مضمون میں انہیں ظاہر نہیں کیا تاہم اتنا بتایا کہ جے ڈی وینس نے کہا کہ وہ کامیابی کیلئے دعاگو ہیں۔
صحافی کے بقول وہ سپر مارکیٹ کی پارکنگ لاٹ میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر منتظر تھے کہ کیا یہ چیٹ حقیقت پر مبنی ہے؟ صحافی کے بقول یمن پر پہلا حملہ ان تمام تر پیغامات کے ٹھیک دو گھنٹے بعد ہوا۔
ایک بجکر پچپن منٹ پر ایکس پلیٹ فارم پر انہوں نے یمن سرچ کیا تو اطلاع تھی کہ یمن کے دارلحکومت صنعا میں ہرطرف بمباری کی جارہی ہے۔
سگنل چینل کو چیک کیا تو مائیکل والز اس پر اپ ڈیٹ دے رہے تھے اور اسے شاندار اقدام قرار دے رہے تھے جس پر جان ریٹکلیف نے لکھا کہ یہ اچھا آغاز ہے، بعد میں ایک مخصوص شخص کی ممکنہ موت سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔
یمن کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ ان حملوں میں تریپن افراد مارے گئے ہیں۔صحافی کے بقول پورے واقعہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سگنل چیٹ گروپ حقیقی تھا، اس پر انہوں نے خود کو گروپ سے نکال لیا۔
یہ سوچ کر بھی گروپ قائم کرنے والے مائیکل والز کو پیغام ملے گا کہ میں یہ گروپ چھوڑ چکا ہوں، تاہم صحافی کے بقول انکے نکلنے پر بھی کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اس میں شامل کیوں کیے گئے تھے اور نکلے کیوں؟تاہم اب نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمانBrian Hughes کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کاجائزہ لے رہے ہیں کہ آخر نادانستہ نمبر کیسے چینchain کا حصہ بنا لیا گیا۔
جیفری گولڈ برگ نے کہا کہ اہم بات یہ بھی کہ بطور صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ مطالبہ کرتے رہے تھے کہ ہلیری کلنٹن کو اس لیے جیل بھیجا جائے کہ بطور وزیر خارجہ سرکاری امور کے لیے انہوں نے نجی ای میل سرور استعمال کیا تھا اور یہ بھی کہ خفیہ دستاویز کو مس ہینڈل کرنے پر خود صدر ٹرمپ پر سن دو ہزار تئیس فردجرم عائد کی جاچکی ہے تاہم وہ الزامات ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ختم کردیے گئے۔
صحافی کےنزدیک مائیکل والز کا انہیں گروپ میں شامل کرنا، خواہ وہ غیرارادی ہی کیوں نہ ہو، راز افشا کرنے کی ٹھوس مثال ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ صحافی کے بقول نے کہا کہ وہ مائیکل والز قومی سلامتی جے ڈی وینس نے لکھا کہ کی جانب سے یہ بھی کہ انہوں نے گروپ میں صحافی نے وینس نے کا نام اس لیے ہوں گے تھا کہ ہیں کہ
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز
نیویارک:امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
وائس آف امریکا کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی نجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی علیمہ خان کاعدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر اظہار تشویش ، چیف جسٹس سے براہِ راست ملاقات کی خواہش پہلگام حملہ: بھارت کے فالس فلیگ بیانے کا پردہ چاک مستونگ: پولیو ٹیم پر حملہ، سکیورٹی پر مامور 2 لیویز اہلکار شہید وزیراعظم نے حکومتی کارکردگی کے نظام میں بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی امریکی کانگریس مین جیک برگمین کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم