اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ حتی اپنے اتحادیوں سے بھی بھتہ لینا شروع ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کانگریس میں اپنے سالانہ خطاب میں ایک بار پھر گرین لینڈ پر قبضے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے کہا: "میں ہر قیمت پر اسے حاصل کر کے رہوں گا۔" اسی طرح ٹرمپ نے ڈنمارک حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اگر وہ امریکہ کے مطالبات نہیں مانتا تو اس کے خلاف زیادہ سخت اقدامات انجام دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے ڈنمارک کو خبردار کیا ہے کہ اس کی درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا: "آپ کے پاس بہت قیمتی زمین ہے اور افسوس کی بات ہے اس کے لیے کوئی برا حادثہ پیش آ جائے۔" ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا ہی رویہ اپنے دیگر اتحادی ممالک جیسے کینیڈا سے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ تحریر: جوناتھن فریڈ لینڈ (تجزیہ کار اخبار گارجین)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ جانے پہچانے سیاسی لیڈر کی بجائے مافیا کے سرغنے جیسا ہے۔ البتہ مافیا کے سرغنے سے ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کسی اخلاقی اصول کا پابند نہیں ہے۔ مافیا کے سرغنے عام طور پر عوام میں محبوب ہوتے ہیں اور کچھ اخلاقی اصولوں کے پابند بھی ہوتے ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کے دشمنوں کو مفت میں مراعات دے دیتا ہے جبکہ اس نے چند ہفتوں میں ہی اپنے اتحادی ممالک کو دشمن میں تبدیل کر دیا ہے۔ یوکرین جنگ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے ایک بار پھر اس کے مافیائی رویے کو عیاں کر دیا ہے جو زیادہ تر سیسیلی کے مافیاوں سے شباہت رکھتا ہے۔ گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے دعوی کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بہت جلدی ختم ہو سکتی ہے لیکن اس کے فوراً بعد خبردار کیا کہ جو معاہدہ نہیں کرنا چاہتا وہ زیادہ عرصہ باقی نہیں رہے گا۔
جمعرات کے دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پورے یقین سے کہا کہ یوکرین آخرکار اس کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد بند کر کے ایک طرح سے زیلنسکی کی کنپٹی پر روسی پستول رکھ دیا ہے۔ ٹرمپ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان غیر جانبداری سے ثالثی کر رہا ہے لیکن کوئی بھی اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے توقع کر رہا ہے کہ وہ تمام مقبوضہ علاقے روس کے سپرد کر دے جبکہ اپنے معدنی ذخائر کا بڑا حصہ امریکہ کو سونپ دے۔ یوکرین کے لیے اس قسم کے مطالبات قبول کرنا تقریباً ناممکن ہے لیکن اگر امریکہ اس کی فوجی اور مالی امداد بند کر دیتا ہے تو اس کے پاس یہ مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں بچے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ حتی اپنے اتحادیوں سے بھی بھتہ لینا شروع ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کانگریس میں اپنے سالانہ خطاب میں ایک بار پھر گرین لینڈ پر قبضے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے کہا: "میں ہر قیمت پر اسے حاصل کر کے رہوں گا۔" اسی طرح ٹرمپ نے ڈنمارک حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اگر وہ امریکہ کے مطالبات نہیں مانتا تو اس کے خلاف زیادہ سخت اقدامات انجام دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے ڈنمارک کو خبردار کیا ہے کہ اس کی درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا: "آپ کے پاس بہت قیمتی زمین ہے اور افسوس کی بات ہے اس کے لیے کوئی برا حادثہ پیش آ جائے۔" ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا ہی رویہ اپنے دیگر اتحادی ممالک جیسے کینیڈا سے بھی اختیار کر رکھا ہے۔
کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے گذشتہ ہفتے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ کینیڈا کی معیشت مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح کینیڈا کا امریکہ سے الحاق کا زمینہ فراہم ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم ہر گز امریکہ کی 51 ویں ریاست نہیں بنیں گے۔" ٹرمپ کا یہ طریقہ کار مکمل طور پر ان پست ہتھکنڈوں سے مشابہت رکھتا ہے جو کسی زمانے میں نیو جرسی کے مافیا گروہوں میں رائج تھے۔ مشکوک انداز میں آگ لگائی جاتی تھی اور اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک مدمقابل مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سفارتی سطح پر بھی مافیائی انداز اپنائے ہوئے ہے۔ بیضوی شکل والے دفتر میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ یہ رویہ ہر لحاظ سے مافیائی سرغنوں والا تھا۔
ٹرمپ کی پالیسیاں اور اقدامات اس قدر غیر متوقع اور یکطرفہ ہیں کہ حتی اس کے قریبی ترین مشیر بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے بیانات کس طرح صدر سے ہم آہنگ کریں۔ اس کی واضح ترین مثال وہ ٹیکسز ہیں جن کے بارے میں وسیع ردعمل سامنے آتا ہے لیکن اچانک ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو درآمدات پر ٹیکس عائد کر کے انہیں صدارتی ریفرنس کے ذریعے فوری طور پر لاگو کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے۔ چینل MSNBC کے تجزیہ کار کرس ہیز کے بقول ٹرمپ کا یہ اقدام ایک طرح سے بھتہ خوری ہے۔ صدر ہونے کے ناطے ٹرمپ ایک دستخط کے ذریعے ایک تجارت کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے یا اسے عروج پر لے جاتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ تاجر ٹرمپ سے کس حد تک وفادار ہے۔
وہ افراد جن کے ہاتھ میں آج امریکہ کی حکومت ہے یوں عمل کر رہے ہیں گویا بنیادی ترین اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہیں۔ یہ مسئلہ پریشان کن ہے کیونکہ امریکہ خاص طور پر ایڈورڈ ہفتم کے زمانے سے برطانیہ کا قریبی ترین اتحادی ملک تصور کیا جاتا ہے لیکن اس وقت لیڈرشپ کی سطح پر شدید چیلنجز سے روبرو ہے۔ ایسے حالات میں برطانیہ کو خارجہ سیاست میں نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی کیونکہ بریگزٹ 2016ء کے بعد والے حقائق اب موجود نہیں رہے اور ہمسایہ ممالک سے دوری نہ صرف نامعقول اور غیر منطقی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ جب دنیا کا طاقتور ترین ملک خطرناک حد تک انحراف کا شکار ہو جاتا ہے تو فطری بات ہے کہ دیگر ممالک کو بھی اپنے مفادات اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات انجام دینے پڑتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ نے کہا خبردار کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات جاتا ہے ٹرمپ کا ہے لیکن کے پاس ہے اور سے بھی کر دیا کے لیے کیا کہ
پڑھیں:
یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔
Tweet URLڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔
(جاری ہے)
خود انحصاری اور غیرمعمولی کامآدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔
اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔
2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔
ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔
یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردیدان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔
یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔
علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔