Islam Times:
2025-04-26@03:46:49 GMT

صدر یا مافیا کا سرغنہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

صدر یا مافیا کا سرغنہ

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ حتی اپنے اتحادیوں سے بھی بھتہ لینا شروع ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کانگریس میں اپنے سالانہ خطاب میں ایک بار پھر گرین لینڈ پر قبضے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے کہا: "میں ہر قیمت پر اسے حاصل کر کے رہوں گا۔" اسی طرح ٹرمپ نے ڈنمارک حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اگر وہ امریکہ کے مطالبات نہیں مانتا تو اس کے خلاف زیادہ سخت اقدامات انجام دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے ڈنمارک کو خبردار کیا ہے کہ اس کی درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا: "آپ کے پاس بہت قیمتی زمین ہے اور افسوس کی بات ہے اس کے لیے کوئی برا حادثہ پیش آ جائے۔" ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا ہی رویہ اپنے دیگر اتحادی ممالک جیسے کینیڈا سے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ تحریر: جوناتھن فریڈ لینڈ (تجزیہ کار اخبار گارجین)
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ جانے پہچانے سیاسی لیڈر کی بجائے مافیا کے سرغنے جیسا ہے۔ البتہ مافیا کے سرغنے سے ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کسی اخلاقی اصول کا پابند نہیں ہے۔ مافیا کے سرغنے عام طور پر عوام میں محبوب ہوتے ہیں اور کچھ اخلاقی اصولوں کے پابند بھی ہوتے ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کے دشمنوں کو مفت میں مراعات دے دیتا ہے جبکہ اس نے چند ہفتوں میں ہی اپنے اتحادی ممالک کو دشمن میں تبدیل کر دیا ہے۔ یوکرین جنگ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے ایک بار پھر اس کے مافیائی رویے کو عیاں کر دیا ہے جو زیادہ تر سیسیلی کے مافیاوں سے شباہت رکھتا ہے۔ گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے دعوی کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بہت جلدی ختم ہو سکتی ہے لیکن اس کے فوراً بعد خبردار کیا کہ جو معاہدہ نہیں کرنا چاہتا وہ زیادہ عرصہ باقی نہیں رہے گا۔
 
جمعرات کے دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پورے یقین سے کہا کہ یوکرین آخرکار اس کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد بند کر کے ایک طرح سے زیلنسکی کی کنپٹی پر روسی پستول رکھ دیا ہے۔ ٹرمپ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان غیر جانبداری سے ثالثی کر رہا ہے لیکن کوئی بھی اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے توقع کر رہا ہے کہ وہ تمام مقبوضہ علاقے روس کے سپرد کر دے جبکہ اپنے معدنی ذخائر کا بڑا حصہ امریکہ کو سونپ دے۔ یوکرین کے لیے اس قسم کے مطالبات قبول کرنا تقریباً ناممکن ہے لیکن اگر امریکہ اس کی فوجی اور مالی امداد بند کر دیتا ہے تو اس کے پاس یہ مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں بچے گا۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ حتی اپنے اتحادیوں سے بھی بھتہ لینا شروع ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کانگریس میں اپنے سالانہ خطاب میں ایک بار پھر گرین لینڈ پر قبضے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے کہا: "میں ہر قیمت پر اسے حاصل کر کے رہوں گا۔" اسی طرح ٹرمپ نے ڈنمارک حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اگر وہ امریکہ کے مطالبات نہیں مانتا تو اس کے خلاف زیادہ سخت اقدامات انجام دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے ڈنمارک کو خبردار کیا ہے کہ اس کی درآمدات پر ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا: "آپ کے پاس بہت قیمتی زمین ہے اور افسوس کی بات ہے اس کے لیے کوئی برا حادثہ پیش آ جائے۔" ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا ہی رویہ اپنے دیگر اتحادی ممالک جیسے کینیڈا سے بھی اختیار کر رکھا ہے۔
 
کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے گذشتہ ہفتے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ کینیڈا کی معیشت مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح کینیڈا کا امریکہ سے الحاق کا زمینہ فراہم ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم ہر گز امریکہ کی 51 ویں ریاست نہیں بنیں گے۔" ٹرمپ کا یہ طریقہ کار مکمل طور پر ان پست ہتھکنڈوں سے مشابہت رکھتا ہے جو کسی زمانے میں نیو جرسی کے مافیا گروہوں میں رائج تھے۔ مشکوک انداز میں آگ لگائی جاتی تھی اور اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک مدمقابل مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سفارتی سطح پر بھی مافیائی انداز اپنائے ہوئے ہے۔ بیضوی شکل والے دفتر میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ یہ رویہ ہر لحاظ سے مافیائی سرغنوں والا تھا۔
 
ٹرمپ کی پالیسیاں اور اقدامات اس قدر غیر متوقع اور یکطرفہ ہیں کہ حتی اس کے قریبی ترین مشیر بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے بیانات کس طرح صدر سے ہم آہنگ کریں۔ اس کی واضح ترین مثال وہ ٹیکسز ہیں جن کے بارے میں وسیع ردعمل سامنے آتا ہے لیکن اچانک ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو درآمدات پر ٹیکس عائد کر کے انہیں صدارتی ریفرنس کے ذریعے فوری طور پر لاگو کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے۔ چینل MSNBC کے تجزیہ کار کرس ہیز کے بقول ٹرمپ کا یہ اقدام ایک طرح سے بھتہ خوری ہے۔ صدر ہونے کے ناطے ٹرمپ ایک دستخط کے ذریعے ایک تجارت کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے یا اسے عروج پر لے جاتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ تاجر ٹرمپ سے کس حد تک وفادار ہے۔
 
وہ افراد جن کے ہاتھ میں آج امریکہ کی حکومت ہے یوں عمل کر رہے ہیں گویا بنیادی ترین اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہیں۔ یہ مسئلہ پریشان کن ہے کیونکہ امریکہ خاص طور پر ایڈورڈ ہفتم کے زمانے سے برطانیہ کا قریبی ترین اتحادی ملک تصور کیا جاتا ہے لیکن اس وقت لیڈرشپ کی سطح پر شدید چیلنجز سے روبرو ہے۔ ایسے حالات میں برطانیہ کو خارجہ سیاست میں نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی کیونکہ بریگزٹ 2016ء کے بعد والے حقائق اب موجود نہیں رہے اور ہمسایہ ممالک سے دوری نہ صرف نامعقول اور غیر منطقی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ جب دنیا کا طاقتور ترین ملک خطرناک حد تک انحراف کا شکار ہو جاتا ہے تو فطری بات ہے کہ دیگر ممالک کو بھی اپنے مفادات اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات انجام دینے پڑتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹرمپ نے کہا خبردار کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات جاتا ہے ٹرمپ کا ہے لیکن کے پاس ہے اور سے بھی کر دیا کے لیے کیا کہ

پڑھیں:

تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) واشنگٹن سے جمعہ 25 اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے منگل کے دن امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویو دیا تھا، جو اس جریدے کی تازہ اشاعت میں جمعے کے روز چھپا۔

ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف

اس انٹرویو میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے خود انہیں فون کیا اور دونوں کے مابین گفتگو ہوئی۔

اس بیان میں امریکی صدر نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ ان کے چینی ہم منصب نے انہیں کب فون کیا اور دونوں صدور کے مابین کس مو‌ضوع یا موضوعات پر بات چیت ہوئی تھی۔ چین کی طرف سے تردید

امریکی صدر کے ٹائم میگزین کے ساتھ اس انٹرویو کے مندرجات کے ردعمل میں جمعے ہی کے روز بیجنگ میں چینی حکومت کی طرف سےڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان، دونوں کے مابین شدید نوعیت کے تجارتی تنازعے سے متعلق، قطعاﹰ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی اس پس منظر میں صدر شی نے امریکی صدر کو کوئی فون کال کی ہے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ٹرمپ نے ٹائم میگزین کے ساتھ انٹرویو میں محصولات کی جنگ اور چینی صدر شی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا، ''انہوں (صدر شی) نے فون کیا۔ اور میرے خیال میں یہ ان کی طرف سے کسی کمزوری کا اشارہ نہیں ہے۔‘‘

تجارتی معاہدے کے لیے امریکہ کی 'خوشامد' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، چین

اس سلسلے میں چینی وزارت تجارت کے ترجمان ہے یاڈونگ نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا، ''میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقتچین اور امریکہ کے مابین کسی بھی طرح کے کوئی اقتصادی اور تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے۔

‘‘ چینی تردید کے باوجود ٹرمپ کا اصرار

بیجنگ میں چینی حکام کی طرف سے ٹرمپ اور شی کے مابین گفتگو کی سرے سے تردید کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے آج پھر زور دے کر کہا کہ ان کی چینی صدر سے بات چیت ہوئی ہے اور انہیں فون بھی چینی صدر نے ہی کیا تھا۔

امریکی صدر نے اس موضوع پر اپنے تازہ ترین بیان میں بھی جمعے کے دن یہ تو نہیں بتایا کہ چینی صدر سے ان کی بات چیت کب ہوئی، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ اس کی تفصیلات ''مناسب وقت پر‘‘ جاری کریں گے۔

چینی صدر کا دورہ جنوب مشرقی ایشیا، آزاد تجارت پر زور

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تازہ ترین بیان اس وقت دیا، جب وہ ویٹیکن سٹی میں کل ہفتے کے روز پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کی خاطر اٹلی جانے کے لیے وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو رہے تھے۔

دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کی تجارتی جنگ

امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کا بیرونی دنیا کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے چند ہفتے قبل دنیا کے تقریباﹰ 200 ممالک سے امریکہ میں درمدآت پر جو بہت زیادہ نئے محصولات عائد کر دیے تھے، اس عمل کے بعد سے خاص طور پر امریکہ اور چین کے مابین تو ایک شدید تجارتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور چین کا نام اامریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اب تک واشنگٹن اور بیجنگ اپنے ہاں ایک دوسرے کی برآمدی مصنوعات پر 'ادلے کے بدلے‘ کے طور پر اتنے زیادہ نئے محصولات عائد کر چکے ہیں کہ کئی مصنوعات پر اس نئے ٹریڈ ٹیرف کی شرح 145 فیصد تک بنتی ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے ان محصولات کے اعلان کے بعد خود ٹرمپ ہی کے بقول اس وقت دنیا کے بیسیوں ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے متعدد ممالک پر ٹیرفس کا اطلاق نوے دن کے لیے روک دیا

ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں امریکہ کے تجارتی ساتھی ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''میں تو کہوں گا کہ اگلے تین چار ہفتوں تک ہم یہ کام مکمل کر لیں گے۔‘‘

ٹرمپ کے اصرار کے بعد پھر چینی تردید

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کے چینی ہم منصب کے ساتھ گفتگو ہونے پر اصرار کے جواب میں بیجنگ نے پھر تردید کی کہ ٹرمپ انتظامیہ اور چین کے مابین کوئی ایسی بات چیت جاری ہے، جس کا مقصد تجارتی محصولات کے شعبے میں کوئی ڈیل طے کرنا ہو۔

اضافی امریکی محصولات کا نفاز، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس مندی کا شکار

امریکہ میں چینی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شائع کردہ چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''چین اور امریکہ کے مابین محصولات سے متعلق کوئی بھی مشاورت یا مذاکرات نہیں ہو رہے۔ امریکہ کو اس سلسلے میں کنفیوژن پیدا کرنے کا عمل بند کرنا چاہیے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے، دونوں مسئلہ خود حل کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کا واضح ترین سگنل دیدیا
  • جنگ یوکرین کے 1 ہی دن میں خاتمے پر مبنی وہم کا ٹرمپ کیجانب سے اعتراف
  • چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ نے گھٹنے ٹیک دیئے؟ چین پر عائد ٹیرف میں نمایاں کمی کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ
  • ٹیرف میں کمی کا امکان، فی الحال ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ