ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں قیدیوں کا علاج کر رہی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
پی ٹی آئی کی سینئیر رہنما ڈاکٹر یاسمین 9 مئی 2023 کو ہونے والے واقعات میں گرفتار ہوئیں اور ابھی تک جیل میں قید ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پر جناح ہاؤس، عسکری ٹاور اور ن لیگ کا آفس جلانے پر فرد جرم عائد ہو چکی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر کی مریضہ ہیں۔ انکا علاج معالج بھی چل رہا ہے،کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر یاسمین راشد کی طبعیت خراب ہوئی تو انہیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا لیکن طبعیت بحالی کے بعد انہیں دوبارہ کوٹ لکھپت جیل میں قید کردیا گیا۔
جیل ذرائع کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد بڑی جرات مندی سے جیل کاٹ رہی ہیں، اگرچہ انہیں بی کلاس کی سہولیات دی گئی ہیں، جیل ذرائع نے بتایا کہ کوٹ لکھپیت جیل میں شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد قید ہیں۔ سیاسی قیدی ہونے کے ناتے ان ملزمان کو بی کلاس دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت کا فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا
بی کلاس کے قیدی اپنی مرضی سے اپنا کھانا بنوا سکتے ہیں گھر سے منگوا سکتے ہیں۔ قیدیوں والی وردی سے بھی اس گیٹگری میں آنے والے ملزمان مستشنیٰ ہوتے ہیں۔ ہفتے میں دو دن اپنے اہلخانہ سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں۔
جیل ذرائع کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت جیل میں آنے کے بعد زیادہ بہتر ہوئی ہے، وہ یہاں پر اپنی روٹین کے مطابق ادویات لیتی ہیں۔ مختلف مضوعات پر کتابیں پڑھتی ہیں۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ ان کا رویہ کافی اچھا ہے، وہ جیل میں قید خواتین قیدیوں کی اصلاح بھی کرتی رہتی ہیں۔
جیل ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے بارے میں جیل کے اندر مشہور ہے کہ کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو کہیں کہ وہ ہمارا معائنہ کردیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں بیٹھ کر جو قیدی بیمار ہو جاتے ہیں ان کا علاج معالجہ کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کی جیل میں طبیعت خراب، شوکت خانم اسپتال منتقل
ادویات تجویز کردیتی ہیں، جتنے بھی قیدیوں کا علاج کیا ہے ان کی صحت ان کی تجویز کردہ نسخے سے بہتر ہوئی ہے۔ جیل قیدی ڈاکٹر یاسمین راشد کی وجہ سے خوش ہیں، 70 سالہ بزرگ ہونے کے ناتے وہ سب کا خیال رکھتی ہیں۔
جیل ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نہ صرف جیل میں قیدی ان سے اپنا چیک اپ یا علاج معالجہ کرواتے ہیں بلکہ کبھی کبھار خواتین پولیس اہکار جو کوٹ لکھپت جیل میں تعینات ہیں، اگر بیمار پڑ جائیں تو وہ بھی ڈاکٹر یاسمین راشد سے اپنا چیک اپ کروا لیتی ہیں۔ کافی قیدی اور پولیس والے ان کے علاج سے بہتر ہوئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی جیل ڈاکٹر یاسمین راشد کوٹ لکھپت جیل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی جیل ڈاکٹر یاسمین راشد کوٹ لکھپت جیل ڈاکٹر یاسمین راشد کی جیل میں قید جیل ذرائع کا علاج
پڑھیں:
لندن ہائیکورٹ: آئی ایس آئی پر مقدمہ نہیں، معاملہ صرف عادل راجا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے درمیان ہے
لندن کی ہائیکورٹ میں آئی ایس آئی کے سابق سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی جانب سے پاک فوج کے سابق میجر عادل راجا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوگیا۔ مقدمے کا فیصلہ جلد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے۔ واضح رہے کہ یہ مقدمہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے ان پر دائر کیا ہے، جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عادل راجا کی 9 سوشل میڈیا اشاعتوں نے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا۔
پاکستان آرمی کے سابق میجر (ر) عادل راجا نے برطانیہ کی ہائیکورٹ کو بتایا ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف جو الزامات اور مواد شائع کیا، وہ عوامی مفاد میں تھا۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ یہ مقدمہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں نہیں بلکہ صرف 2 افراد کے درمیان ہتکِ عزت کا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے لندن ہائیکورٹ میں بیان: آئی ایس آئی کا اغوا، تشدد یا صحافیوں کو ہراساں کرنے سے کوئی تعلق نہیں، بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر
عادل راجا، جو کہ ایک یوٹیوبر اور سوشل میڈیا پر سرگرم سابق فوجی افسر ہیں، لندن ہائیکورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے جہاں انہوں نے اپنے بیانِ حلفی کا تیسرے روز بھی دفاع کیا۔
’یہ مقدمہ پاکستانی اداروں کے کردار پر نہیں‘دورانِ سماعت لندن ہائیکورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ اسپیئر مین کے سی (KC) نے کہا ’یہ مقدمہ صرف 2 افراد کے درمیان ہے۔ آئی ایس آئی، پاکستانی حکومت یا فوج اس مقدمے کا حصہ نہیں ہیں۔ عدالت کسی خفیہ ادارے کے کردار پر فیصلہ نہیں دے رہی۔‘
جب عادل راجا نے پاکستان میں الیکشن میں مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار جیسے وسیع تر موضوعات پر گفتگو کی تو جج نے کہا کہ ’مجھے احساس ہے کہ یہ مقدمہ پاکستان کے لیے حساس ہے، لیکن یہاں صرف ان مخصوص الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو راشد نصیر پر لگائے گئے ہیں۔‘
ذرائع معتبر اور معلومات عوامی مفاد میں تھیں، عادل راجا کا مؤقفعادل راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے جو بھی مواد شائع کیا وہ معتبر ذرائع سے حاصل کردہ تھا، جن میں پاکستانی حکومت اور انٹیلیجنس اداروں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ میں نے معلومات کی تصدیق اور جانچ پڑتال (cross-checking) کے بعد ہی اشاعت کی۔
یہ بھی پڑھیے ہتک عزت کیس: برطانوی عدالت نے عادل راجا پر مزید جرمانہ عائد کردیا
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنے ذرائع کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ‘Layered’ نظام کے ذریعے کام کرتے ہیں، تاکہ ذرائع کا براہ راست نام ظاہر نہ ہو۔
جب عدالت نے ان سے شواہد اور تحریری نوٹس فراہم کرنے کو کہا، تو انہوں نے 2 نوٹ بکس عدالت کے سامنے اسکرین پر پیش کیں لیکن اعتراف کیا کہ جون 2022 میں کی گئی متنازعہ اشاعتوں سے متعلق کوئی خاص نوٹ موجود نہیں۔
سوشل میڈیا پوسٹس پر سخت جرحراشد نصیر کے وکیل ڈیوڈ لیمر نے عادل راجا سے ان تمام 9 اشاعتوں کے بارے میں سوالات کیے، جن پر مقدمہ دائر ہے۔ انہوں نے پوچھا:
’کیا آپ نے کوئی ایسا ثبوت یا تحریری مواد عدالت میں پیش کیا جو آپ کے الزامات کی تصدیق کرتا ہو؟‘
اس پر راجا نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے ذرائع پر مکمل اعتماد کیا اور انہیں عوامی مفاد کے تحت شائع کیا۔
ارشاد شریف کیس پر تبصرہعادل راجا نے ارشاد شریف کے قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیا، تاہم وکیل صفائی نے نشاندہی کی کہ اس رپورٹ میں آئی ایس آئی کا نام کہیں درج نہیں۔ راجا نے اس پر کہا:
’رپورٹ میں شامل بعض افراد کا تعلق انٹیلیجنس اداروں سے ہے، اور ان کے کردار سے سب واقف ہیں۔‘
’قتل کی سازش کا دعوی مبالغہ آرائی ہے‘عادل راجا نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف پاکستانی ایجنسیز نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی۔ وکیل نے اس پر سوال اٹھایا کہ برطانوی پولیس کے خط اور گواہی میں صرف عمومی خطرے کا ذکر ہے، آئی ایس آئی یا قتل کی سازش کا کوئی ذکر نہیں۔
یہ بھی پڑھیے متنازع یوٹیوبر عادل راجا کو دھچکا، برطانوی عدالت نے 10 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کردیا
اس پر راجا نے کہا ’اگرچہ رپورٹ میں براہِ راست ذکر نہیں، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ میری جان کو خطرہ انہی حلقوں سے ہے۔‘
وکیل نے اسے مبالغہ آرائی اور غیر ذمہ دارانہ دعویٰ قرار دیا۔
راشد نصیر سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟عادل راجا نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے راشد نصیر سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ وہ ناقابلِ رسائی تھے۔ میں نے صرف آئی ایس پی آر سے مؤقف لینے کی کوشش کی، جو بے سود رہی۔
عدالت میں مقدمے کا اختتام قریبتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالت میں جرح کے بعد توقع ہے کہ مقدمہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ عادل راجا نے مؤقف اپنایا ہے کہ ان کی اشاعتیں صحافت، ذرائع، اور عوامی مفاد پر مبنی تھیں، لیکن مدعی کے وکیل نے انہیں بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں