اگست 2024 میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست تجارتی روابط قائم ہوئے۔

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 7 ماہ کے دوران دوطرفہ تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو اس سے قبل نہ ہونے کے برابر تھی۔

تاہم، بھارت اس تیزی سے فروغ پاتے اقتصادی تعاون سے ناخوش نظر آتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے مختلف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی معیشت کئی بڑے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتی ہے۔ بھارت اور چین اس کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنرز ہیں، جبکہ ترکی، جرمنی اور اسپین بھی اہم اقتصادی شراکت داروں میں شامل ہیں۔

بنگلہ دیش بنک ڈیٹا کے مطابق ملک کی تقریباً 15 فیصد درآمدات بھارت سے ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر اشیائے خورونوش شامل ہیں، جبکہ چین سے تقریباً 27 فیصد درآمدات آتی ہیں، خاص طور پر مشینری، الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل کے خام مال کی صورت میں۔

تاہم، حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش نے اپنی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی کی اور پاکستان کے ساتھ تجارت میں نمایاں اضافہ کیا۔

پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے آغاز کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان سے مختلف مصنوعات کی درآمد شروع کی، جن میں سب سے زیادہ کارٹن، چاول، ٹیکسٹائل کے خام مال، کیمیکل، سیمنٹ اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں۔

پاکستان نے تقریباً 2 دہائیوں بعد بنگلہ دیش کو 26 ہزار میٹرک ٹن چاول کی پہلی کھیپ اپنی قومی بحری کمپنی کے ذریعے برآمد کی ہے۔ فروری کے اوائل میں حتمی شکل دیے گئے نئے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے پاکستانی سفید چاول 499 ڈالر فی ٹن کے حساب سے خرید رہا ہے۔

بھارت کی تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے تجارتی افق میں پاکستان کی موجودگی مضبوط ہو رہی ہے، جو خطے میں بھارت کی اجارہ داری کو کمزور کر سکتی ہے۔

حسینہ واجد کی حکومت کے دوران بنگلہ دیش نے بھارت کی حمایت یافتہ پالیسیوں کو جاری رکھا، لیکن نئی حکومت کے تحت پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

اس صورتحال میں بھارتی میڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش پاکستان کو اپنا نیا تجارتی پارٹنر بنانے میں ناکام ہو گیا اور دوبارہ بھارت پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔

اس پروپیگنڈے کو مستند بنانے کے لیے بھارتی میڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے 7 ماہ کے تجارتی اعدادوشمار کا موازنہ بھارت اور بنگلہ دیش کے پچھلے 50 سالہ تجارتی حجم سے کیا، جو حقیقت کے برعکس اور غیرمناسب ہے۔

اصل صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت سے بنیادی درآمدات کبھی بند ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان درآمدات کے لئے بنگلہ دیش نے پاکستان کا رخ کیا، بلکہ اس کی تجارت معمول کے مطابق جاری ہے۔

بنگلہ دیش بھارت سے زیادہ تر اشیا خورد و نوش درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے زیادہ تر کارٹن، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، ادویات، کیمیکلز، فرٹیلائزرز اور چاول کی درآمدات کی جا رہی ہے۔

بھارت کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لیے بنگلہ دیش نے ترکی، جرمنی، چین اور اسپین سے بھی اشیا خورد و نوش کی درآمد شروع کر دی ہے۔

بنگلہ دیش نے انڈین مارکیٹ میں آلو اور پیاز کی قیمتوں میں اچانک اضافے اور ایکسپورٹ کی قدغن لگنے کے بعد جرمنی، اسپین، چائنہ اور مصر سے آلو جبکہ چائنہ پاکستان اور ترکی سے پیاز کی درآمدات انڈیا سے کم قیمت پر کی ہے۔

جبکہ بھارت نے سفارتی سطح پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی اور یہ پیغام دیا کہ بنگلہ دیش کو پاکستان کے بجائے بھارت پر ہی انحصار کرنا چاہیے۔

بھارت نے FY 24 میں بنگلہ دیش کو 5,620 اشیا کی برآمدات کی۔ مالی سال 2023 میں 12.

21 بلین ڈالر، مالی سال 2024 میں 11.06 بلین ڈالر جبکہ مالی سال 2025 میں اکتوبر 2024 تک 6.21 بلین ڈالر کی بھارت نے بنگلہ دیش کو برآمدات کی۔

مالی سال 2025 کے آخری 5 ماہ کے اعداد و شمار آنے کے بعد مجموعی موازنہ پچھلے مالی سال کے ساتھ کیا جا سکے گا۔ بھارت بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ مالیت والی چیز کاٹن (تقریبا 2 بلین ڈالر) برآمد کرتا تھا۔

اس مالی سال میں بھارت بنگلہ دیش کو 1.52 بلین ڈالر کی کاٹن برآمد کر چکا ہے۔ اگر بھارت کی بنگلہ دیش کو کی جانے والی برآمدات متاثر ہوئیں تو FY 25 کے آخری 5 ماہ کی ہوں گی۔ جن میں بنگلہ دیش نے اشیا خردونوش کے لئے دیگر مالک جبکہ کاٹن اور چاول کے لئے پاکستان کا رخ کیا۔

بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ تجارت کو بھارت کی جگہ لینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اقتصادی تنوع بڑھانے کے لیے اپنایا ہے۔ بھارت سے اشیائے خورونوش کی درآمد بدستور جاری ہے، جبکہ پاکستان سے بالکل مختلف اشیا منگوائی جا رہی ہیں۔

اس حوالے سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے تصدیق کی کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات معمول کے مطابق چل رہے ہیں اور عبوری حکومت کے دور میں تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اگر بنگلہ دیش پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مزید تجارتی معاہدے کرتا ہے اور بھارت پر انحصار مزید کم ہوتا ہے، تو یہ نئی اقتصادی حکمت عملی بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔

چین پہلے ہی بنگلہ دیش کی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، اور اگر پاکستان بھی تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھرتا ہے تو بھارت کی پوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت جنوبی ایشیا کے تجارتی منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت اس تبدیلی سے ناخوش ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔

تاہم، اقتصادی حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنی تجارتی حکمت عملی کو متنوع بنا رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شاہزیب نجی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تجارت بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کو کہ بنگلہ دیش نے پاکستان بلین ڈالر کے درمیان کے تجارتی مالی سال سے زیادہ کے مطابق حکومت کے بھارت سے بھارت کی ممالک کے سکتی ہے کے لیے رہا ہے ہے اور کے بعد اور اس

پڑھیں:

امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے

بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کل  نئی دہلی میں ہوں گے، یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی ملک سے درآمدات پر محصولات عائد کئے، جس سے اگست میں بھارت کی برآمدات 9 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے  کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا تجارتی مذاکرات کو ’ تیزی’ سے آگے بڑھائیں گے، راجیش اگروال، بھارت کے چیف مذاکرات کار اور وزارتِ تجارت میں خصوصی سیکریٹری نے تجارتی اعداد و شمار جاری کرنے کی تقریب میں صحافیوں کو بتایا، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
راجیش گروال نے کہا کہ امریکا کے تجارتی نمائندہ برائے جنوبی ایشیا برینڈن لنچ منگل کو ایک روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچیں گے۔
بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 37 ارب 24 کروڑ ڈالر تھیں، اگست میں کم ہوکر 35 ارب 10 کروڑ ڈالر رہ گئیں، اور اس کا تجارتی خسارہ جولائی کے 27 ارب 35 کروڑ ارب ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر اگست میں 26 ارب 49 کروڑ ڈالر ہو گیا۔
واضح رہے کہ امریکا نے 27 اگست سے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر بھارتی مصنوعات پر اضافی 25 فیصد محصول عائد کیا تھا جس سے امریکی منڈی میں بھارتی برآمدات پر مجموعی محصول 50 فیصد ہو گیا، جو کسی بھی امریکی تجارتی شراکت دار کے لیے سب سے زیادہ ہے۔
امریکا کو بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 8 ارب ایک کروڑ ڈالر تھیں اگست میں کم ہوکر 6 ارب 86 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔
اپریل سے اگست کے دوران واشنگٹن کو بھارت کی ترسیلات 40 ارب 39 کروڑ ڈالر رہیں، امریکا کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر بلند محصولات کا مکمل اثر اگلے ماہ محسوس کیا جائے گا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • وزیر تجارت جام کمال خان کی ایرانی اول نائب صدر سے ملاقات، پاک ایران تجارتی تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • آئی سی سی ٹی20 رینکنگ: بنگلہ دیش نے بھارت سے نویں پوزیشن چھین لی
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • ایشیا کپ 2025: بنگلہ دیش کا افغانستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • ایشیا کپ: بنگلا دیش کو آج افغانستان کیخلاف کرو یا مرو کا چیلنج درپیش
  • تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
  • امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے
  • سی پیک پاک چین دوستی کا عملی ثبوت، علاقائی ترقی کا منصوبہ ہے، بلاول بھٹو