عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس میں پیش بل کے پاکستان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے، سابق سفارتکار
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
دو روز قبل دو امریکی اراکینِ گانگریس جو وِلسن اور جمی پناٹا نے امریکی ایوان نمائندگان یا امریکی کانگریس میں بِل پیش کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے ریاستی اہلکاروں پر سفری پابندیاں عائد کی جائیں کیونکہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں اور خاص طور پر مُلک کے سابق وزیراعظم عمران خان کو مبینہ طور پر غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔
دو کانگریس مین کے پیش کردہ اِس بِل کا عنوان پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ ہے، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ جو ولسن وہی کانگریس مین ہیں جو عمران خان کے رہائی کے لیے ’فری عمران خان‘ کے ٹویٹس بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹا ہے، اگر امریکا عمران خان کا مطالبہ کرے تو حوالے کردینا چاہیے، رانا ثناللہ
گزشتہ روز ترجمان دفترِخارجہ شفقت علی خان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ تو اُنہوں نے کہاکہ یہ پیش کردہ بِل ایک انفرادی فعل ہے جو ایک دو کانگریس مین کی سوچ ہے لیکن یہ امریکی حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی بنیاد باہمی عزت و احترام پر مبنی ہے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات پر عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اس قرار داد کی کوئی اہمیت نہیں، علی سرور نقویسینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفارتکار علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دو کانگریس مینوں کی جانب سے پیش کردہ اِس قراردار کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اِس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ امریکی نظام حکومت میں یہ کانگریس مین وہاں کی حکومت کی نمائندگی نہیں کرتا، اِس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ امریکی انتظامیہ یا امریکی حکومت میں پاکستان کو لے کر ایسی کوئی سوچ پائی جاتی ہے۔ یہ کانگریس مین دراصل اپنے انتخابی حلقے کی نمائندگی کررہا ہے جہاں پاکستانی کمیونٹی اُس کو ایسا بِل پیش کرنے پر اُکساتی ہے۔
علی سرور نقوی نے بتایا کہ وہ بھی امریکا میں تعینات رہے ہیں اور وہاں کانگریس میں روزانہ 400/300 بل پیش ہوتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ کہ بِل یا قرارداد منظور ہو جائے لیکن اُنہیں ایسا نہیں لگتا اور اِس بل سے پاکستان کو کوئی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اس بل کے پاکستان پر کوئی زیادہ اثرات نہیں ہو سکتے، مسعود خالدپاکستان کے سابق سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جو وِلسن اور جمی پناٹا کا پیش کردہ یہ بِل ایک انفرادی فعل ہے اور اِس کے پاکستان پر کوئی زیادہ اثرات نہیں ہو سکتے ہاں اگر اِس بِل کو زیادہ اراکین کانگریس کی حمایت مِل جائے اور بالفرض اگر یہ بِل امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو جاتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مگر ایسا نہیں لگتا کہ یہ ہو سکے گا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے بہت مضبوط لابنگ کی ضرورت ہے جس سے امریکی اراکینِ کانگریس اور سینیٹرز کو اِس بات پر قائل کیا جا سکے۔
مسعود خالد نے کہاکہ اِس سے پہلے بھی 60 کانگریس مین سابقہ صدر جو بائیڈن کو عمران کی رہائی کے لیے خطوط لکھ چُکے ہیں لیکن اُن سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ ایسے وقت میں جب پاکستان نے کابل ایبی گیٹ بم حملے کے ملزم شریف اللہ کو امریکی حکام کے حوالے کیا ہے اور پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی نوعیت اِس وقت بہت اچھی ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکی صدر کے پاس کسی بھی کام کا اختیار ہوتا ہے، اگر امریکی ایوانِ نمائندگان کی بڑی تعداد اِس بِل کی حمایت کرتی ہے جو کہ فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا تو پھر امریکی صدر کے لیے اِس صورتِحال کو نظرانداز کرنا مُشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں امریکا میں داخلے پر پابندی کی تردید اور عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دینے سے انکار
اس بل کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، نغمانہ ہاشمیسابق سفارتکار نغمانہ ہاشمی نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایسے بہت سے بِل پیش ہوتے رہتے ہیں، وہاں موجود لوگ اپنے حلقے کے کانگریس مینوں اور سینیٹرز سے مِل مِلا کر ایسے بِل پیش کروا لیتے ہیں لیکن اِن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ بس ہر لابی کے لوگ اپنے حلقے کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اِس طرح کے بِل پیش کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی کانگریس مین بانی پی ٹی آئی بل پیش پاکستانی کمیونٹی جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان رہائی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی کانگریس مین بانی پی ٹی ا ئی بل پیش پاکستانی کمیونٹی جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان رہائی وی نیوز امریکی کانگریس سابق سفارتکار کانگریس مین پیش کردہ نے کہاکہ کہاکہ ا نہیں ہو ب ل پیش کے لیے لیکن ا
پڑھیں:
سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟
خیبر پختونخوا سینیٹ الیکشن کے دوران نشستوں کے لیے نامزدگی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز کی جانب سے قیادت کے خلاف بغاوت کے بعد قائدین اگست سے عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کے متاثر ہونے کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی قیادت نے پارٹی ورکرز اور نظریاتی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود بیرسٹر سیف کی جانب سے دی گئی فہرست کے مطابق سینیٹ امیدواروں کو فائنل کیا جبکہ احتجاج کے باوجود پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو مبینہ طور پر نظرانداز کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ انتخابات کے بعد اب ایوان میں کس جماعت کو کتنی نشستیں حاصل ہوگئیں؟
پارٹی ورکرز کے مطابق پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور رہنماؤں نے بیرسٹر سیف کی فہرست کو مسترد کر دیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق عرفان سلیم، ذیشان خرم اور عائشہ بانو کو ٹکٹ دیے جانے چاہییں، جو منظور نہیں کیا گیا۔
پارٹی کے اندرونی معاملات سے باخبر رہنماؤں کے مطابق سینیٹ انتخابات سے پارٹی میں اختلافات شدید حد تک بڑھ گئے ہیں اور ہر گروپ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے جس سے قیادت اور ورکرز میں دوریاں اور عدم اعتماد مزید بڑھ گیا ہے۔
اختلافات اور قیادت پر عدم اعتمادسینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر ورکرز اور کئی پرانے نظریاتی اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹ الیکشن کے دوران دیرینہ کارکنان عرفان سلیم، عائشہ بانو اور دیگر نے مؤقف اپنایا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا، تاہم ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بیرسٹر سیف فہرست کے ساتھ سامنے آئے اور نظریاتی لوگ نظر انداز ہوئے۔ عرفان سلیم، عائشہ بانو اور ارشاد حسین نے آخری وقت میں الیکشن سے دستبرداری اختیار کی، لیکن ذیشان خرم نے الیکشن میں حصہ لیا۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم: نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کرنے پر پشاور میں پی ٹی آئی کا احتجاج
ناراض اراکین کا مؤقف تھا کہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ‘چند مخصوص شخصیات’ کے مفادات کے تحت کیے گئے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سابق وزراء اور دیرینہ کارکنان نے نجی محفلوں میں علی امین گنڈاپور کی قیادت پر سخت تنقید کی جبکہ بعض نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وہ پارٹی کو عمران خان کے نظریے سے ہٹا رہے ہیں؟
ذرائع کے مطابق پارٹی اپنی من پسند شخصیات کو ٹکٹ دینے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن ورکرز کو ناراض کیا، جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ورکرز کی ناراضگی، ایک خاموش بغاوتسینیٹ الیکشن کے بعد بظاہر خاموشی چھا گئی ہے، لیکن باخبر حلقے اسے طوفان کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر پارٹی کی موجودہ صورت حال اور اختلافات پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ورکرز کی یہ ناراضگی محض محدود سطح تک نہیں بلکہ کئی اضلاع میں کھل کر سامنے آئی ہے۔ پارٹی کی ضلعی سطح کی تنظیمیں بھی اب تقسیم ہوتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عرفان سلیم کی خیبر پختونخوا میں مضبوط جڑیں ہیں اور وہ ورکرز میں بہت مقبول ہیں۔ وہ اس وقت سخت ناراض ہیں۔ ’عرفان سلیم کی ناراضگی کا مطلب ورکرز کو ناراض کرنا ہے اور ورکرز کی ناراضگی کا مطلب پارٹی کا نقصان ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: مراد سعید کی سیاست میں واپسی، سینیٹ انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل
رہنما نے بتایا کہ پارٹی ورکرز اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کو نشستیں دی گئیں۔ حکومت نے مبینہ طور پر کمپرومائز کیا اور مرزا آفریدی کو لایا گیا۔ ’یہ سب کچھ ورکرز کے دل میں ہے، وہ سخت ناراض ہیں۔‘
کیا عمران خان کی رہائی کے لیے اعلان کردہ تحریک متاثر ہو سکتی ہے؟پی ٹی آئی نے حال ہی میں عمران خان کی رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور خیبر پختونخوا کی قیادت نے ورکرز کو فعال کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا ہے۔
لیکن سینیٹ الیکشن کے بعد قائدین پریشان دکھائی دیتے ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ ورکرز اب احتجاج سے دوری اختیار کر سکتے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ ورکرز اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ ‘ٹکٹ سرمایہ داروں کے لیے ہیں اور احتجاج، لاٹھی چارج، اور آنسو گیس کھانے کے لیے ورکرز ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی بھی جلسے یا تحریک کی کامیابی کا انحصار پشاور کے ورکرز پر رہا ہے، اور ہمیشہ پشاور سے سب سے زیادہ ورکرز نکلتے ہیں، لیکن اس بار عرفان سلیم کو نظر انداز کرنے سے شاید حالات مختلف ہوں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ پارٹی قیادت نے سینیٹ الیکشن اور فہرست کو عمران خان کی منظور کردہ قرار دے کر تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن ورکرز اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر ارب پتی افراد کے سینیٹ تک پہنچنے کی داستان
عارف حیات، سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار کا ماننا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے ایشو پر پی ٹی آئی مزید تقسیم ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی میں بیرسٹر سیف اور مرزا آفریدی کو مقتدر حلقوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ ’ورکرز اور نظریاتی لوگ ہر وقت اور ہر پارٹی میں نظر انداز ہوتے ہیں، لیکن اس بار ایشو بیرسٹر سیف کا ہے، جیل سے نام بھی بیرسٹر سیف لے کر آئے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ورکرز کو بیرسٹر سیف کسی صورت منظور نہیں۔
عارف کا کہنا تھا کہ اختلافات کا پارٹی پر اثر پڑتا ہے اور سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا، اس کا آنے والی تحریک پر ضرور اثر پڑے گا۔ ’پی ٹی آئی نے اگست سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس وقت ورکرز ناراض ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت ورکرز علی امین گنڈاپور کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور پہلے بھی احتجاج کے دوران علی امین پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ الیکشن کا معمہ: خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی نے پانچویں نشست کیوں گنوائی؟
عارف حیات نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے لیے لوگ نکلتے ہیں اور ورکرز کسی حد تک جانے کو تیار ہیں، لیکن اس بار سینیٹ الیکشن سے ورکرز میں یہ تصور پیدا ہوا ہے کہ فیصلے علی امین گنڈاپور مقتدر حلقوں کے کہنے پر کرتے ہیں اور نام عمران خان کا استعمال ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اور قیادت میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کا اثر پارٹی کی احتجاجی تحریکوں پر پڑے گا۔ ’یہ نہیں کہ کوئی بھی نہیں نکلے گا، لوگ ضرور نکلیں گے، لیکن شاید تعداد اتنی زیادہ نہ ہو اور ورکرز کی دلچسپی کم ہو۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انتخابات پی ٹی آئی احتجاج ٹکت خٰبرپختونخوا سینیٹ وزیراعلیٰ خٰبرپختونخوا