لندن:

برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اہم انکشاف کیا ہے کہ معروف لیجنڈری آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن کی عزت کی خاطر ان کی موت کی اصل وجہ چھپائی گئی۔

اخبار نے ایک سینیئر تھائی پولیس افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ لیگ اسپنر کی موت کی وجہ صرف دل کا دورہ نہیں تھی، تھائی پولیس افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شین وارن نے ممکنہ طور پر ممنوعہ دوا استعمال کی تھی۔

مزید پڑھیں: سابق آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن انتقال کرگئے

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ جس کمرے میں شین وارن مردہ حالت میں پائے گئے وہاں سے ممنوعہ دوا کی شیشی بھی ملی تھی جو پولیس نے کمرے سے غائب کر دی اور اس دوا کا رپورٹ میں بھی کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔

افسر نے اپنے اس دعوے میں اخبار کو بتایا کہ ممنوعہ دوا کو غائب کرنے کے لیے ’اوپر‘ سے حکم آیا تھا، اور اس کی تحقیقات نہ کرانے کا فیصلہ آسٹریلوی کھلاڑی کی عزت کے خاطر کیا گیا تھا، جس میں آسٹریلوی حکام کی منشا بھی شامل تھی۔

مزید پڑھیں: شین وارن کی موت طبعی تھی پوسٹمارٹم رپورٹ

برطانوی اخبار کو تھائی پولیس افسر نے بتایا کہ شین وارن کے ساتھ اس رات موجود خواتین سے بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ لیگ اسپن بولنگ کے جادوگر 52 سالہ سابق کینگرو کھلاڑی شین وارن 4 مارچ 2022 کو تھائی لینڈ کے کوہ ساموئی کے جزیرے میں ایک ولا میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے، ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پولیس افسر ا سٹریلوی شین وارن موت کی

پڑھیں:

الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار

لاہور:

ہائیکورٹ نے الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب ریٹرننگ آفیسر کے فرائض انجام دینے والے سول جج کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ درست قرار دیدیا ۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ اصل نتائج کو جاری کرنے کے ایک ماہ بعد نتائج کو تبدیل کیا گیا۔ مختلف پولنگ اسٹیشنز پر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کو کم کیا گیا۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں  کو ہارنے والے امیدواروں میں تقسیم کر دیا گیا اور  ایک گواہ کے مطابق انکوائری شروع ہونے پر سول جج نے شکایت کنندہ سے خدا کے نام پر معافی مانگی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے گواہی دی کہ الیکشن کے ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی۔  ٹریبونل کے سامنے سوال تھا کہ کیا سول جج کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ڈکلیئر ہو چکے رزلٹ کو تبدیل کر سکے ؟۔ ٹریبونل کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا یہ مس کنڈکٹ ہے؟ اور کیا اپیل کنندہ کو اس بنا پر سروس سے نکالا جا سکتا ہے؟۔

فیصلے کے مطابق سول جج کی جانب سے نتائج کی تیاری کے 4 دن بعد الیکشن ٹریبونلز قائم کر دیے گئے تھے، مگر سول جج نے 23 دنوں بعد نتائج تبدیل کرتے ہوئے فارم الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ سول جج نے کس قانون کے تحت یہ عمل کیا جب کہ الیکشن تنازعات صرف الیکشن ٹریبونل حل کرتا ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سول جج کی جانب سے مخالف فریق کو اس حوالے سے کوئی بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ سول جج کی جانب سے ڈی آر او کے بجاے نتائج براہ راست صوبائی الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے۔ عدالت مختلف عدالتی نظیروں کے بعد موجودہ درخواست کو خارج قرار دیتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ سول جج شیخ علی جعفر نے اپیل کے ذریعے 2015 کے دو آرڈرز کو چیلنج کیا۔ شیخ علی جعفر کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور بعد ازاں نمائندگی بھی مسترد کردی گئی۔ سول جج کو شاہ کوٹ تحصیل میں یونین کونسل کے الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق الیکشن میں امیدوار اصغر علی اصغر کامیاب ہوا جب کہ سول جج کی جانب سے امیدوار مقبول احمد جاوید کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ امیدوار اصغر علی اصغر نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو ایک شکایت درج کروائی۔ ڈی آر او کے ایک خط پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ نتیجہ چیک کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔ الیکشن کمیشن کو اس بابت رپورٹ ارسال کی گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک شکایت کا اندراج کروایا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے مارچ 2006 میں سول جج شیخ علی جعفر کو عہدے سے برخاست کر دیا۔ سروس ٹریبونل نے اکتوبر 2008 میں برخاستگی کا آرڈر معطل کردیا اور اعلیٰ عدلیہ نے ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے آبزرویشن دی کہ مس کنڈکٹ کا الزام بغیر باقائدہ انکوائری کے ثابت نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ اتھارٹی نے انکوائری کے بعد سول جج کو جون 2015 میں پھر سے سروس سے خارج کردیا۔ سول جج نے محکمانہ اپیل دائر کی جسے ستمبر 2015 میں خارج کردیا گیا ۔

سول جج کے وکیل کے مطابق الیکشن کے معاملات میں شکایت الیکشن کمیشن کے پاس درج کروانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے یا پھر سول جج کے اپنے محکمے کو شکایت بھیج سکتا ہے۔ سول جج کے خلاف شکایت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مصطفی عامر قتل کیس؛ مرکزی ملزم ارمغان منی لانڈرنگ کیس میں جیل روانہ
  • الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار
  • قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب، بھارتی اقدامات کا خاطر خواہ جواب دیا جائے گا، خواجہ آصف
  • برطانوی وزیر ریلوے کو دوران ڈرائیونگ موبائل سننے پر جرمانہ
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ
  • اسکردو: سیاحوں کی گاڑی پر پتھر لگنے سے تھائی لینڈ کی خاتون سیاح ہلاک ہوگئی
  • ریلوے پولیس اہلکاروں کیلیے 20 دن کا یومیہ فکس الاونس لگانے کا انکشاف
  • پنجاب حکومت نے ملازمین کی ٹیکس کٹوتی سے  متعلق نئی ترمیم متعارف کرادی
  • برطانوی طیارہ بردار جہاز بحر ہند اور بحر الکاہل میں جنگی گروپ کی قیادت کرے گا
  • افغانستان سے کینیڈا اسمگلنگ کی کوشش ناکام، کشمش کے ڈبوں میں چھپائی گئی 2600 کلو افیون برآمد