وقف ترمیمی بل کو پاس کرنا ہماری مذہبی شناخت پر حملہ ہے، فاروق ترالی
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
سٹیزن کونسل ترال کے سربراہ نے بتایا کہ وقف املاک میں شفافیت لانے کیلئے مودی حکومت کے پاس دیگر طریقے بھی تھے، تاہم اسطرح کی کارروائی قابلِ مذمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جہاں ایک طرف بی جے پی کی زیر قیادت بھارت کی مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کرا لیا ہے، وہیں اس معاملے پر ملک بھر میں ہنگامہ جاری ہے۔ جموں و کشمیر میں بھی سیاسی اور سماجی سطح پر اس بل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس دوران سٹیزن کونسل ترال کے سربراہ فاروق ترالی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کو پاس کرنا ملک کے مسلمانوں کو زد و کوب کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس بل کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، بلکہ اسے ملک کے مسلم آبادی میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کو پاس کرنا ہماری مذہبی شناخت پر حملہ ہے۔
وادی کشمیر کے قصبہ ترال میں میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے فاروق ترالی نے بتایا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے جہاں آئین ہر ایک کو اپنے طور سے زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، تاہم صرف مسلم وقف ترمیمی بل پاس کر کے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ شاید مرکزی حکومت مسلمانوں کے حقوق کو دبانا چاہتی ہے۔ فاروق ترالی نے بتایا کہ وقف املاک میں شفافیت لانے کے لئے مودی حکومت کے پاس دیگر طریقے بھی تھے، تاہم اس طرح کی کارروائی قابلِ مذمت ہے اور اس حوالے سے مسلمانان ہند کے مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لینا وقت کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وقف ترمیمی بل کو فاروق ترالی کہ وقف
پڑھیں:
مسلم امہ کو کمزور کرنیکی سازشوں کے خلاف اتحاد کی ضرورت ہے، میرواعظ عمر فاروق
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کیجانب سے وقف معاملے پر دی گئی عبوری راحت کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس متعصبانہ قانون کو کالعدم قرار دیگی۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے حکام کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد آج بڈگام کا دورہ کیا اور معروف اور معتبر عالم دین آغا سید محمد باقر الموسوی النجفی کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ انہوں نے مرحوم عالم دین کے بیٹوں آغا سید احمد موسوی، آغا سید ابو الحسن اور آغا سید حسن الموسوی الصفوی اور دیگر معزز اراکین خاندان سے ملاقات کر کے تعزیت کی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق نے مرحوم عالم دین کی دینی، علمی اور فکری خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے انتقال کو جموں و کشمیر کے مذہبی و علمی حلقے کے لئے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی عالم دین اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ علم، رہنمائی اور فکری وراثت چھوڑ کر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جلیل القدر شخصیات کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ ہم ان سے تحریک لیں اور بحیثیت امتِ مسلمہ ثابت قدمی اختیار کریں۔
میرواعظ کشمیر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج مسلمانوں کو مختلف سطحوں پر فرقہ وارانہ، سیاسی اور سماجی طور پر تقسیم کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کو مسلمانوں کی دینی و ملی شناخت پر ایک اور حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حساس مسئلے پر بات چیت کے لئے متحدہ مجلس علماء جموں و کشمیر کو بھی حکام نے اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود ہم وادی کشمیر سے جموں اور لداخ تک متحد ہیں اور اس ناانصافی پر مبنی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں آگے بڑھیں گے۔
میرواعظ عمر فاروق نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے وقف معاملے پر دی گئی عبوری راحت کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس متعصبانہ قانون کو کالعدم قرار دے گی۔ اپنی مسلسل نظربندی پر بات کرتے ہوئے میرواعظ نے سخت افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں بار بار تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے اور اہم دینی مواقع پر مسجد کے دروازے بند کئے جا تے ہیں۔ انہوں نے کہا "میں نے اپنی طویل اور بلاجواز خانہ نظربندی کے خلاف معزز ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور اس ہفتے اس پر سماعت متوقع ہے"۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ عدالت حکومت کو اس غیر منصفانہ مداخلت سے باز رہنے کی ہدایت دے گی اور میرے مذہبی حقوق کا تحفظ کرے گی۔