Daily Ausaf:
2025-11-11@11:58:28 GMT

ایلون مسک اور دنیا کی ترقی کا اگلا مرحلہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

2025 ء میں دنیا کے امیر ترین آدمی ایلون مسک نے گزشتہ تمام امرا سے زیادہ شہرت حاصل کی ہے۔ شائد اس کی بنیادی وجہ ایلون مسک کے جدید نظریات، مصنوعی ذہانت پر یقین اور سائنس و ٹیکنالوجی کے منصوبے ہیں۔ دوسرا وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھی کافی قریب ہیں۔
ٹیسلا کا سٹاک اپنے عروج سے 50 فیصد تک گرا اور 2024 ء کے انتخابات کے بعد 1.

5 ٹریلین ڈالر تک پہنچا، اور بعد میں 700 بلین ڈالر تک گر گیا۔ اس کے باوجود مسک کو ابھی تک دنیا کی امیر ترین شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ ان کی دولت میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ایلون مسک کی کمپنیوں کے شیئرز کو بیک اپ کرنے کے لیئے کچھ عرصہ پہلے ان کی کمپنی ٹیسلا کی دو گاڑیاں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خریدی تھیں جس کی تقریب وائٹ ہائوس میں منعقد کروائی گئی تھی۔ اس کا مثبت اثر ان کے کاروبار پر یہ پڑا کہ ان کی کمپنی کے شیئرز کی قیمت دوبارہ اوپر چلی گئی۔
ایلون مسک کی کمپنی سٹار لنک نے اس سے قبل مریخ پر انسانی آبادیاں قائم کرنے کے لیئے انوسٹمنٹ کا اعلان کیا تھا اور ابھی وہ دنیا سے سمارٹ فون کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں منصوبے انسانی تہذیب کو ایک نئی دنیا میں داخل کرنے کا آغاز ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایلون مسک کا چار سالوں میں انسان کو مریخ پر پہچانے جبکہ 15سالوں میں 10لاکھ انسان مستقل طور پر وہاں آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اگلے چار سالوں میں انسانوں کو مریخ پر پہنچا دیا جائے گا، اور ان کے مطابق اس سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے کہ انسان ایک سیارے سے نکل کر دوسرے سیارے پر اپنی نئی اور جدید تہذیب کا آغاز کرے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے سینیٹر ٹیڈ کروز اور بین فرگوسن کے ساتھ ورڈکٹ ود ٹیڈ کروز پوڈکاسٹ پر بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’’سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے مریخ پر ایک آزاد شہر تعمیر کیا جائے۔‘‘ ایلون مسک نے مزید کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد صرف 15 سال اور درکار ہوں گے تاکہ مریخ کو ایک ایسی جگہ اور شہر میں بدلا جا سکے جہاں 10 لاکھ لوگ مستقل طور پر رہ سکیں۔ مسک کے الفاظ تھے کہ، ’’مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ منصوبہ زیادہ سے زیادہ 20 سال میں ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘
مسک کے جدید نظریات کے مطابق جب یہ شہر اس قابل ہو جائے کہ زمین سے سپلائی خلائی جہازوں کے بغیر بھی ممکن بنا دی جائے، تو دنیا میں خوشحالی آئے گی اور انسان مزید آگے بڑھ سکے گا۔ ایلون مسک کا ماننا ہے کہ اگر زمین پر کچھ ہو جاتا ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ تیسری عالمی جنگ ہو، زندگی کسی دھماکے یا دھیرے دھیرے زوال کے ساتھ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا، مریخ پر زندگی کو خودکفیل بننے کی ضرورت ہے جس سے انسانی تہذیب کے زندہ رہنے کا امکان کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
’’ ایلون مسک کہتے ہیں کہ ہم اس وقت زمین پر صنعت کے ایک بڑے اہرام کے اوپر کھڑے ہیں۔ یہ سب کچھ مختلف معدنیات کے وسیع پیمانے پر کان کنی سے شروع ہوتا ہے، جسے ہم کئی مراحل سے گزار کر بہتر بناتے ہیں۔ ہم خوراک اگاتے ہیں، درخت اگاتے ہیں، درختوں سے چیزیں بناتے ہیں، اور یہ سب کچھ مریخ پر بھی بنانا ہو گا۔‘‘لیکن مریخ ایک ایلین انسان دشمن ماحول رکھتا ہے۔ گرمیوں میں خط استوا کے قریب کسی گرم دن درجہ حرارت صفر ڈگری سے اوپر جا سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر وہاں بہت سردی ہوتی ہے۔کیا مریخ پر انسانوں کی آبادیاں ایک دن قائم ہو جائیں گی، مریخ پر موجود لوگ زمین کو دیکھ پائیں گے جو ان کا پہلے ایک آبائی گھر تھا؟
کیا آپ سمجھتے ہیں ایلون مسک اپنے اس مشن میں کامیاب ہو جائیں گے؟ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب نہ بھی ہوں تو انہوں نے ایک ایسے منصوبے کو تشکیل دیا ہے جس کی تکمیل ہماری آئندہ آنے والی نسلیں کرسکتی ہیں۔ جبکہ دنیا سے اسمارٹ فون کے خاتمہ سے مراد جدید ٹیکنالوجی جس کے ذریعے دور دراز کے انسان ایک دوسرے سے دماغی چپس وغیرہ کے ذریعے براہ راست کمیونیکیشن کر سکیں گے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہو گی جس میں پہننے والی ٹیکنالوجی اور دماغی انٹرفیسز کا غلبہ ہو گا۔ دنیا کے چار بڑے ٹاپ ویژنری ایلون مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور سیم آلٹمین اسمارٹ فون کے دور کے خاتمے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
( جاری ہے )

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایلون مسک

پڑھیں:

جدید نصابِ تعلیم میں عشق کی اہمیّت

اسلام ٹائمز: جو لوگ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی خود مختار عقل کی روشنی میں آئی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ نہ صرف آئی اے کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے آگے رہیں گے، اپنے فیصلے خود کریں گے اور سماجی ترقی میں فعال کردار ادا کریں گے۔ جہاں بھی نصاب تعلیم، خود مختار عقل یعنی عشق کے مطابق ہوگا تو وہاں آئی اے کے عصر میں بھی انسان آزاد، بیدار اور خود مختار رہے گا اور اس کی سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت زندہ رہے گی۔ اس کے برعکس جو زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گے، وہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کے غلام اور محتاج رہیں گے۔ وہ مصنوعی ذہانت کے دور میں بھی لیلیٰ مجنوں و ہیر رانجھا کی کہانیوں میں الجھے رہیں گے اور کرونا جیسی بیماریوں کا علاج لہسن اور ہلدی سے کرتے رہیں گے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

آئی اے اور ڈیجیٹل دور میں "خود مختار عقل" کی اہمیت نئی معنویت اختیار کر گئی ہے۔ تکنیکی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی نے انسانی فکر کے دائرے کو مزید وسعت  دے دی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اس سے انسان کی خودی، اس کی خود مختار عقل اور اس کے ایمان و وجدان پس پشت چلے جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف معلومات کی بھرمار یا مشینی حساب کتاب میں انسان کو ڈھالنے سے انسان کی خودی، آزادی، خود مختاری، نیز ایمان اور وجدان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ "خود مختار عقل "انسان کو اندھی تقلید (خواہ اپنے نفس کی ہو یا اپنے اباو اجداد کی) اور بیرونی دباؤ (خواہ طاغوت و استکبار کا ہو یا حالات کا) سے آزاد کرتی ہے۔ اسی کو اقبالیات کی زبان میں عشق کہا گیا ہے۔ اقبال کے ہاں عشق یہ ہے کہ انسان اندرونی طور پر اپنی خواہشاتِ نفس اور بیرونی طور پر ہر طرح کے دباو، خوف اور لالچ سے آزاد ہو کر قدم اٹھائے۔

اقبالیات میں جو عشق مذکور ہے، اس سے انسان اپنے اعمال کا مالک بنتا ہے اور اسے اپنے ارادے، شعور، ایمان اور اپنے وجدان کی روشنی میں زندگی گزارنے کی سمت ملتی ہے۔ تعلیم و تربیّت کا مقصد انسان کو نفسِ امّارہ سے نفسِ مطمئنہ تک پہنچنے کا راستہ دکھانا اور نصاب تعلیم اسے خلیفۃُ اللّٰہ کے مقام تک لے جانے کے راستے کا نام ہے۔ اس راستے میں خود مختار عقل ایک ریل کی پٹڑی کی مانند ہے، جبکہ ایمان اور وجدان رہنمائی کا ستارہ اور اقبالیات روشنی کا چراغ ہیں۔ اقبال نے اپنے عہد میں انسان کے اندر جس خودی کی بیداری، ایمان کی روشنی اور وجدان کی جلا کی بات کی تھی، آج کے عہد میں وہ سب سے بڑی ضرورت بن گیا ہے۔ آج کا آئی اے دور انسان کو وسائل کی بھرمار دے سکتا ہے، مگر  "فیصلے کی آزادی، اخلاقی شعور اور اپنی ذات کی تخلیقی قوت" صرف انسان کی خود مختار عقل سے جنم لیتی ہے۔

خود مختار عقل یعنی عشق انسان کو بیدار کرتا ہے۔ انسان اور نظریہ دونوں کی عملی شکل کو بیداری کہتے ہیں۔ کیا عشق کی طرح اے آئی بھی دونوں کو بیدار رکھ سکے گی۔؟ انسان کی ظاہری بیداری کے علاوہ انسان کے اندر سوئے ہوئے امکانات  اور خوابیدہ صلاحیتوں کی بیداری بھی ایک لازمی امر ہے۔ ازل سے ہر بیدار مغز شخص کا ہم و غم یہی رہا ہے کہ سماج میں انسان اور نظریہ دونوں بیدار رہیں۔ حالتِ خواب میں پڑے ہوئے انسان کو کمزوری، جمود اور غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانا ممکن نہیں۔ بیدار انسان وہ ہے، جو اپنی قوتِ ارادی اور اپنی ذات کے تخلیقی جوہر سے خود جنم لیتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس سے آزاد ہو کر اپنی اقدار خود وضع کرتا ہے۔ یہی ہے وہ عاشق انسان، جو اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی ذات کو اس مقام تک پہنچاتا ہے، جہاں وہ کسی کا غلام نہیں رہتا بلکہ خدا کی مرضی کا آئینہ بن جاتا ہے۔ یہ بظاہر خود کے لیے جیتا ہے، لیکن حقیقت میں کسی نظریئے کے لیے زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے عمل ہی نظریئے کا پیمانہ ہوا کرتا ہے۔

یاد رہے کہ ہر عمل نہیں بلکہ ایسا عمل جو کسی بیرونی دباؤ، کسی ظالم استعماری اتھارٹی یا خواہشِ نفس کے تابع ہو کر نہیں بلکہ اپنی خود مختار عقل کے فیصلے کے مطابق کرے۔ صرف اور صرف خود مختار عقل ہی قابلِ اعتماد ہے۔ اگر انسانی عقل خواہشاتِ نفس یا کسی بیرونی دباو کے تابع ہو تو پھر اُس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ یعنی کوئی انسان اگر اپنا کوئی عمل صرف کسی سزا کے خوف، یا انعام کی امید پر انجام دیتا ہو تو وہ خود مختار نہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ معاشرہ تب ترقی کرتا اور آزاد ہوتا ہے کہ جب افراد اپنے فیصلے اندھی تقلید یا کسی دباو کے بجائے سوچ سمجھ کر دلیل کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا اے آئی کے دور میں ایسا ممکن رہے گا۔؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عقل اگر ایمان اور وجدان کے بجائے نفع و نقصان کے تابع ہو جائے تو محض حساب و منطق کی غلام بن جاتی ہے۔ جی ہاں سب سے بڑی سچائی تو یہی ہے کہ قومیں تب آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں، جب اپنے فیصلے ایمان اور وجدان کے مطابق کریں۔ بصورتِ دیگر
عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ مُلّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم!

مذکورہ بالا تناظر میں عشق کی تفسیر ایمان و وجدان اور خود مختار عقل کے سوا کچھ اور نہیں کی جا سکتی۔ انسان کی نجات عقل کی خود مختاری میں ہے اور عقل اس وقت تک خود مختار نہیں ہوسکتی، جب تک ایمان اور وجدان انسان کے اندر زندہ نہ ہوں۔ تعلیم و تربیت اور اجتماعی شعور کو اقبالیات کے قالب میں ڈھالنے کیلئے نصابِ تعلیم کے اندر ایمان اور وجدان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خود مختار عقل زمانے کے سوالوں سے مکالمہ کرتی رہے۔ ایسی عقل کے تجربات معاشرتی حرکت کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ غُلام عقل کالے انگریز اور کلرک تو پیدا کرسکتی ہے، لیکن سماج میں کوئی بیداری کی تحریک نہیں لاسکتی اور نہ ہی کسی تمدّن کو جنم دے سکتی ہے۔ جو انسان بیدار نہ ہو، یعنی خود مختار عقل نہ رکھتا ہو، وہ اپنی تقدیر بھی خود نہیں تراش سکتا۔ پس جو نصابِ تعلیم خود مختار عقل کی تولید نہ ہو، وہ قوم کی تقدیر کیا بدلے گا!۔

آخر میں یہ سوال کہ کسی بھی دور میں تعلیم کا مقصد انسان سے سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت سلب کرنا ہرگز نہیں رہا، لیکن کیا اے آئی کے دور میں انسان کیلئے یہ سب ممکن رہے گا۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی خود مختار عقل کی روشنی میں آئی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ نہ صرف آئی اے کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے آگے رہیں گے، اپنے فیصلے خود کریں گے اور سماجی ترقی میں فعال کردار ادا کریں گے۔ جہاں بھی نصاب تعلیم، خود مختار عقل یعنی عشق کے مطابق ہوگا تو وہاں آئی اے کے عصر میں بھی انسان آزاد، بیدار اور خود مختار رہے گا اور اس کی سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت زندہ رہے گی۔ اس کے برعکس جو زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گے، وہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کے غلام اور محتاج رہیں گے۔ وہ مصنوعی ذہانت کے دور میں بھی لیلیٰ مجنوں و ہیر رانجھا کی کہانیوں میں الجھے رہیں گے اور کرونا جیسی بیماریوں کا علاج لہسن اور ہلدی سے کرتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا بھر میں جاری تنازعات نے امن کی اہمیت کو اُجاگر کیا، ہ پاکستان نے کئی بار امن دشمن کارروائیوں کا سامنا کیا: وزیر اعظم کا بین الپارلیمانی سپیکرز کانفرنس سے خطاب
  • مکالمہ ہمارا پل، تعاون ہمارا راستہ ہونا چاہیے، چیئرمین سینیٹ کا بین الاپارلیمانی کانفرنس سے خطاب
  • مصنوعی ذہانت کا سونامی ملازمتیں ختم کردیگا‘ایلون مسک
  • اوپن اے آئی مائیکروسافٹ کا براہ راست مقابلہ کرے گی، ایلون مسک کا سیم آلٹمین پر طنز
  • عالمی موسمیاتی گورننس میں چین کی سبز تبدیلی کا کلیدی اور رہنما کردار
  • جدید نصابِ تعلیم میں عشق کی اہمیّت
  • رقت آمیز دعا کے ساتھ رائیونڈ اجتماع کا پہلا مرحلہ ختم، شرکاء گڑگڑاتے رہے، ہچکیاں بندھ گئیں
  • ہوائے نفس اور اس کے خطرات
  • ڈپریشن ایک خاموش قاتل
  • ہائیکورٹ نے سندھ کے چڑیا گھروں کے مرحلہ وار خاتمے کیلئے کمیٹی بنادی