ایم ڈی اے، افسران کی نورا کشتی میں ڈی جی کی رٹ خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
ڈی جی سعید صالح جمانی کے عرفان بیگ سے ویگو گاڑی لینے کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے
عرفان بیگ کے خلاف کارروائی ماتحت عملے کے ذریعے سست روی کا شکار کر دی جاتی ہے، ذرائع
ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں افسران کی نورا کشتی کے درمیان ڈی جی سعید صالح جمانی کی رٹ خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ایم ڈی اے میں موجود ایک گروپ پانچ گریڈ کے میل ویکسی نیٹر عرفان بیگ کی مکمل حمایت میں مصروف ہیں جس نے جعلسازی سے ایم ڈی اے میں اپنے پنجے اس طرح گاڑے ہوئے ہیں کہ وہ ڈی جی کے تمام منصوبوں کو اپنے اثر سے چوپٹ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل ڈائریکٹر جنرل سعید صالح جمانی نے سیکریٹری ایم ڈی اے کو احکامات جاری کیے تھے کہ عرفان بیگ گریڈ پانچ کا ملازم اور ڈی ایم سی ساؤتھ کا باشندہ ہے ۔اس گریڈ کے ملازم کو ویگو گاڑی الاٹ ہوہی نہیں سکتی ۔اس سے فی الفور گاڑی واپس لی جائے ۔ اطلاعات کے مطابق عرفان بیگ کو ایم ڈی اے ہیڈ آفس سے ابھی بھی پوری سپورٹ حاصل ہے اور ایم ڈی اے کے اندر ہونے والے اقدامات کے بارے میں عرفان بیگ کو پل پل آگاہ کیا جاتا ہے ۔ چونکہ ابھی بھی عرفان بیگ کے لوگ ایم ڈی اے میں موجود ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے خط سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عرفان بیگ کے خلاف جو بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ،ڈی جی ایم ڈی اے کے ماتحت لوگ اس کارروائی کو سست روی کا شکار کر دیتے ہیں اور عرفان بیگ کو لائف لائن میسر آجاتی ہے ۔ باخبر ذرائع کے مطابق موجودہ اسسٹنٹ سیکریٹری عرفان بیگ کا خاص بندہ بتایا جا رہا ہے ماضی میں یہ شخص عرفان بیگ کا منظور نظر رہا ہے ۔ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حیرانگی اس بات کی ہے کہ عرفان بیگ پوری سندھ کابینہ کی مشینری پر بھاری ثابت ہورہا ہے اور سرکاری ویگو جس کا نمبر GSB-082ہے واپس کرنے کا نام نہیں لے رہااور پورا ایم ڈی اے اور لوکل گورنمنٹ عرفان بیگ کے سامنے گم صم اور لاچار دکھائی دیتا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔