Express News:
2025-07-25@11:13:28 GMT

بل فائٹنگ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

مجھے ایک بار اسپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ وہ ایک لمبی گیم تھی جس کے تین حصے تھے‘ گول اسٹیڈیم میں دائرے کی صورت میں تماشائی بیٹھے تھے اور میدان کے درمیان میں بل فائیٹر سفید چست پتلون اور شرٹ پہن کر کھڑا تھا‘ اس کے سر پر رنگین ہیٹ تھا اور اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا کپڑا تھا‘ اسٹیڈیم میں ’’ہے تورو‘ ہے تورو‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے‘ نعروں کی آوازوں کے درمیان لکڑی کا گیٹ کھلا اور خوف ناک بدمست بھینسا دوڑ کر میدان میں آ گیا اوراس کے بعد کھیل شروع ہو گیا‘ کھیل کے پہلے فیز میں بل فائیٹر سرخ رنگ کے کپڑے سے بل کو تھکانے میں مصروف ہو گیا۔

 بل دور سے دوڑ کر آتا تھا‘ فائیٹر اسے کپڑے میں الجھا کر پاؤں پر گھوم جاتا تھا اور بھینسا اسے چھوئے بغیر دور نکل جاتا تھا‘ یہ فیز دو گھنٹے جاری رہا‘ اس میں بھینسا بری طرح تھک گیا اور آخر میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا‘ بل فائیٹر اس کے قریب پہنچ کر کپڑا لہراتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ اس کے ساتھ ہی کھیل کا دوسرا فیز شروع ہو گیا‘ اسٹیڈیم کے سائیڈگیٹس سے تین گھڑ سوار نکلے‘ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بھالے اور تیر کمان تھے‘ انھوں نے دور سے بھینسے کو تیر مارنا شروع کر دیے‘ردعمل میں بھینسا جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو گیا‘ سوار بھی گھوڑوں پر اس کے پیچھے دوڑ پڑے‘ وہ اس کے قریب پہنچتے تھے۔

 اسے بھالے سے زخمی کرتے تھے اور پھر دور بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی گھنٹہ بھر جاری رہا‘ بھینسا اس دوران زخمی ہوتا رہا اور اس کے زخموں سے خون رستا رہا یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا‘ اس کے گرتے ہی بل فائیٹر دوبارہ اسٹیڈیم میں داخل ہو گیااور یوں کھیل کا تیسرا فیز شروع ہو گیا‘ بل فائیٹر کے ہاتھ میں اس بار تلوار تھی‘ اس نے ننگی تلوار کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگایا‘ تماشائیوں نے سیٹیوں اور نعروں کے ساتھ اس کا استقبال کیا‘ وہ پورے اسٹیڈیم کی داد وصول کرنے کے بعد نڈھال بھینسے کے سر پر پہنچا‘ تماشائیوں کی طرف مڑ کر دیکھااور تلوار فضا میں لہرادی‘ پورے اسٹیڈیم نے ہاتھوں کے انگوٹھے زمین کی طرف ڈاؤن کر کے اسے بھینسے کا سر اتارنے کی اجازت دی اور بل فائیٹر نے بھینسے کی گردن پر تلوار کے وار شروع کر دیے۔

 بھینسا آنکھوں میں خوف‘ بے چارگی اور رحم کی درخواست بھر کر اس کی طرف دیکھتا رہا اور قتل ہوتا رہا‘ اس کے خون کے فوارے اچھل کر اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گر رہے تھے‘ وہ تکلیف سے چلا رہا تھا لیکن ہجوم اس ظلم پر سیٹیاں بجا رہا تھا‘ اچھل کر بل فائیٹر کو داد دے رہا تھا اور وحشت میں نعرے لگا رہا تھا‘کھیل کے آخر میں اسٹیڈیم کی ریت پر بھینسے کا سر اور دھڑ الگ الگ پڑا تھا‘ وہ منظر انتہا درجے کا وحشیانہ اور اذیت ناک تھا‘ میں نے جھرجھری لی اورا سٹیڈیم سے نکل گیا جب کہ لوگ تالیاں اور سیٹیاں بجا رہے تھے اور سیٹوں پر کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے۔

آپ اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو آپ کو یہ ملک بھی بل فائٹنگ کا رنگ محسوس ہو گا‘ اس رنگ کا بھینسا ہماری نیشنل اسپرٹ ہے‘بل فائیٹر ہمارے حالات ہیں اورپوری دنیا اس کھیل کی تماشائی ہے اوریہ تالیاں پیٹ کر بل فائیٹرز کو داد دے رہی ہے‘ ہمیں پہلے سرخ کپڑے کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بھینسے کی طرح باقاعدہ تھکایا گیا تھاجب ہم تھک کرٹوٹ گئے تو پھر ہم پر تیروں اور بھالوں سے وار کیے گئے‘ ہمیں زخمی کیا گیا تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکیں‘ ہم اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گریں اور اس کے بعد کھیل کے تیسرے فیز میں بل فائیٹر آگے بڑھ کر ہمارا سر کاٹ دے‘ یہ ہے کل اسکیم‘ آپ سیاسی محاذ پر دیکھ لیجیے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم اسکیم میں شامل نہیں تھا‘ یہ فاسٹ باؤلر تھا‘ اسے سیاست میں صرف تیز گیندیں پھینکنے کے لیے لایا گیا تھا۔

 اس سے صرف ایک کام لیا جا رہا تھا‘ یہ جنرل مشرف کی وکٹوں پر حملہ کرتا رہے‘ یہ پیپلز پارٹی کی وکٹیں اڑاتا رہے اور آخر میں یہ میاں نواز شریف کو سانس نہ لینے دے اور بس آپ2000سے2017تک  خان کی سیاست دیکھ لیں‘ آپ کویہ اپنا فاسٹ باؤلنگ کا کردار ٹھیک ٹھاک نبھاتا ہوا محسوس ہو گا‘ یہ کردار اسی اسپرٹ کے ساتھ مزید چلنا تھا لیکن یہ کھیل اس وقت خراب ہوگیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘اس سے قبل  خان کو صادق اور امین اور عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن کی گئی اور نوجوانوں کو اس کے گرد جمع کر دیا گیا اور اس کے بعد  خان نے اسٹیبلشمنٹ کی وکٹیں ہی اڑا دیں اور یہ مسلسل یہ کام کرتا چلا جا رہا ہے‘ اب جب بل فائیٹر رنگ میں موجود ہے تو پھر دوسرے کھلاڑی فائدہ کیوں نہ اٹھاتے چناں چہ بھینسے کے دوسرے دشمن بھی میدان میں کود پڑے اور انھوں نے بھی تیر اور بھالے چلانا شروع کر دیے‘ آپ کے پی اور بلوچستان کے حالات دیکھ لیں۔

دنیا میں اس وقت معیشت سب سے بڑا میدان جنگ ہے‘ آپ کے پاس اگر وسائل ہیں‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹس اور فارن ریزروز ہیں تو آپ کام یاب ہیں بصورت دیگر آج کی دنیا میں بھکاریوں‘ طفیلیوں اور معاشی محتاجوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘ پاکستان سردست معاشی طفیلی‘ محتاج اور بھکاری ہے‘ ہم چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کے بغیر آئی ایم ایف کو بھی قائل نہیں کر پا رہے اگر یہ تین ملک ہمارے خزانے میں جمع اپنی رقم واپس مانگ لیں تو آئی ایم ایف فوراً بھاگ جائے گا اور یوں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ ہمیں اس صورت حال سے صرف معاشی استحکام بچا سکتا ہے اور یہ استحکام اب صرف معدنیات اور قدرتی وسائل سے ممکن ہے‘ انڈسٹری‘ سکل ڈویلپمنٹ اور نیشن بلڈنگ کے لیے کم از کم تیس سال چاہییں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں‘ ہم فوری طور پر زمین‘ مائینز اور منرلز بیچ کر ہی موجودہ معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں‘ اس حقیقت سے ہمارا ازلی دشمن بھی اچھی طرح واقف ہے۔

 بھارت جانتا ہے ہم اگر معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو ہم اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘ ہم پھر اس سے کشمیر بھی مانگیں گے‘ اپنے دریاؤں کا پانی بھی اور ماضی کے مظالم کا حساب بھی‘ اس کا خیال ہے ہم ڈان ہیں اورڈان جب تک اپنے مسئلوں میں پھنسا رہتا ہے دوسرے اس وقت تک اس سے محفوظ رہتے ہیں جس دن ڈان مسائل سے آزاد ہو جائے یا اس کے دانے پورے ہو جائیں تو وہ آنکھ کھول کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر سب کو کان پکڑا دیتا ہے چناں چہ بھارت چاہتا ہے ہم اپنے مسئلوں سے آزاد نہ ہو سکیں‘ ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے مصروف رہیں کہ ہمیں بھارت یاد آئے اور نہ کشمیر اور نہ ہی خشک دریاؤں کا پانی چناں چہ اس نے ہمیں کے پی اور بلوچستان میں الجھا رکھا ہے۔

 اب سوال یہ ہے بلوچستان اور کے پی کیوں؟ بھارت سندھ اور پنجاب میں چھیڑچھاڑ کیوں نہیں کر  رہا؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول پنجاب اور سندھ کا معیار تعلیم دوسرے دونوں صوبوں سے بہتر ہے لہٰذا یہاں کے لوگ نسبتاً سمجھ دار ہیں‘ یہ جلد پروپیگنڈے میں نہیں آتے‘ دوم سندھ اور پنجاب میں کوالٹی آف لائف بہتر ہے‘ لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں‘ ان کے پاس بجلی‘ سڑک‘ اسکول‘ اسپتال‘ مکان اور روزگار کے ذرایع ہیں اور جہاں یہ تمام سہولتیں موجود ہوں وہاں بغاوت کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ انقلاب فرانس‘ انقلاب روس اور انقلاب ایران بھی شہر کے لوگ نہیں لے کر آئے تھے‘ یہ بھی کسانوں اور مزدوروں کا کمال تھا اور وہ لوگ دور دراز علاقوں سے دارالحکومتوں میں آئے تھے اور انھوں نے بادشاہوں سے پہلے بڑے شہروں کے امراء کو اپنا لقمہ بنایا تھا چناں چہ پنجاب اور سندھ دشمنوں سے بچے ہوئے ہیں اور ان کا فوکس کے پی اور بلوچستان ہیں‘ اس فوکس کی بھی اب دو وجوہات ہیں۔

 پہلی وجہ تعلیم اور روزگار کی کمی ہے‘ یہ علاقے تعلیم بالخصوص سکلڈ ایجوکیشن میں پیچھے ہیں اور اس وجہ سے یہاں بے روزگاری ہے اور دوسری وجہ دونوں صوبوں کی زمین میں خزانے چھپے ہیں‘ بلوچستان میں سونے‘ تانبے‘ لوہے اور کوئلے اور کے پی میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر ہیں ‘ یہ ذخائر چند برسوں میں ملک کو معاشی لحاظ سے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں اور یہ بھارت کے لیے قابل قبول نہیں چناں چہ اس وقت بل فائٹنگ کے رنگ میں موجود بھینسے پر دو طرف سے حملے ہو رہے ہیں‘ اندرونی حملے اور بیرونی حملے‘ اندرونی محاذ پر عمران خان اور ان کے خودکش نوجوان سرگرم ہیں‘ خان بے شک اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مقبولیت کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے‘ زیلنسکی نے یوکرین کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا جب کہ ٹرمپ امریکا کے ساتھ پوری دنیا کو تباہ کر رہے ہیں۔

عمران خان بھی اگر مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آگیا تو یہ اس ملک کا کیا حشر کرے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘ ان کے پاس ایسا ایسا گنڈا پور موجود ہے کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور یہ بھی اس شکل میں ممکن ہو گا جب ہاتھ یا کان بچ سکیں گے جب کہ بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم عمل ہے‘ یہ نہیں چاہتا کے پی اور بلوچستان میں امن آئے‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر یہاں امن ہو گیا تو پاکستان تیل بھی نکال لے گا اور سونا اور تانبا بھی اور اگر یہ ہو گیا تو یہ معاشی طور پر قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا سوچیں اگر غریب پاکستان بھارت کے لیے اتنی بڑی تھریٹ ہے تو یہ امیر ہونے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرے گا؟۔

آپ اگر اس سیناریو پر غور کریں تو آپ پھرچند لمحوں میں سمجھ جائیں گے‘ 8اپریل کو جب اسلام آباد میں منرلز سمٹ ہو رہی ہے‘اس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار آ رہے ہیں اور عین اس وقت اختر مینگل کوئٹہ کا محاصرہ کر رہے ہیں اور بی ایل اے پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا رہی ہے‘ کیوں؟ آپ اس کیوں کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو بل فائٹنگ کا یہ سارا کھیل سمجھ آ جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے پی اور بلوچستان اسٹیڈیم کی بل فائٹنگ بل فائیٹر اور اس کے کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں چناں چہ رہا تھا تھا اور تھے اور رہے تھے ہے اور اور ان ہو گیا کے لیے کے بعد اور یہ

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …

یہ کہا جا رہا ہے کہ سزاؤں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ نو مئی کے مقدمات میں سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک دن میں دو فیصلوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں نو مئی کے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔

سپریم کورٹ جلد فیصلوں کا کہہ چکی ہے۔ اور اب سزائیں شروع ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بری بھی ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف بریت ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بریت اور سزائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی سوالات کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے اپنی بریت کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ وہ کل بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے سائفر میں بانی کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ویڈیو پیغام انھوں نے ان انگنت شکوک و شبہات کے بعد جاری کیا ہے جو ان کی بریت کے بعد پیدا ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ان کی بریت ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرتے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مفاہمت کی سیاست ہی کی ہے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کے ساتھ مزاحمت کی سیاست کرتے دیکھا۔ جس پر سب حیران بھی تھے۔ لوگ سوال کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا خاندان تو مفاہمت کی سیاست کی پہچان رکھتا ہے۔ پھر وہ کیسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ہیں۔ لیکن اب رائے یہ ہے کہ وہ واپس مفاہمت کی سیاست کی طرف آگئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ نو مئی کو شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے۔ وہ کسی احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ شائد نو مئی کے احتجاج کی تیاری کے لیے جو اجلاس ہوئے وہ ان میں بھی شریک نہیں تھے۔ بانی جانتے تھے کہ وہ اسٹبلشمنٹ پر اس طرح حملے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لیے وہ شامل نہیں تھے۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا گیا تھا پھر وہ رہا ہو گئے تھے۔

اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ان کی رہائی سیاسی طور پر مشروط تھی۔ وہ رہائی کے بعد بانی تحریک انصاف کو ملے تھے لیکن ان کی ملاقات کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کو کوئی فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور اب انھوں نے لمبی جیل بھی کاٹی ہے اور ٹرائل کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اب ان کی بریت ہو گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی مفاہمت کی مفاہمت کی دوبارہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی اس بریت سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان کو جہاں چھپنے کے لیے کہا گیا تھا وہ وہاں نہیں تھے بلکہ وہاں سے غائب تھے۔

غائب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پاس چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ زین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ شک کے دائرے میں تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس لیے ان کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن ان کا ووٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا۔ وہ ووٹ دینے پر راضی تھے۔

زین قریشی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تحریک انصاف کی طرف سے شو کاز جاری کیا گیا، انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے شوکاز کا جواب دیا جس کے بعد اس پر مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن تب سے زین قریشی خاموش ہیں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے ٹاک شوز میں آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہیں۔

ان کا غا ئب ہونا بھی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خاموش ہیں یہ بھی معنی خیز ہے۔ اس لیے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ بات پہلے طے ہو گئی تھی۔ بہر حال سوال اب شاہ محمود قریشی کیا کریں گے۔ میری رائے میں وہ تحریک انصاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف بننے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاہمت کو آگے لے کر چلیں گے، انھوں نے جیل سے بھی مفاہمت کے لیے خط لکھے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی مفاہمت کی آواز بن جائیں۔ وہ مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کریں۔ لیکن کیا بانی انھیں یہ کرنے دیں گے ۔ شائد انھیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے انھیں پارٹی سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی انھیں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

وہ مفاہمت کا گروپ بنا سکتے ہیں، وہ لوگ جو تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں وہ ان کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں مفاہمت کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھی مفاہمت کے نام پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ وہ تحریک انصاف میں مفاہمت کا ایک دھڑا بنا لیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کریں۔

جو بات چیت سے بند دروازے کھولنے کی بات کریں۔ یہ سب کہیں گے یہی کہ ہم کپتان کے وفادار ہیں۔ لیکن مزاحمت بند ہونی چاہیے۔ گالم گلوچ بند ہونی چاہیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ بھی گھر میں ہیں۔ وہ بھی باہر آسکتے ہیں ایسے اور بھی لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بانی سے ملنے کی سہولت بھی مل سکتی ہے۔ وہ ایک بار نہیں بار بار مل سکتے ہیں۔ جیل سے مل کر وہ اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔

یہ سب بانی کو قبول نہیں ہوگا۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ پھر شاہ محمود قریشی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ فیصلہ کیا ہوگا، ان کے پاس کوئی گھر نہیں۔ ان کا حال بھی فواد چوہدری کا ہے، کوئی سیاسی جماعت لینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر میں ملتان کی سیاست کو سامنے رکھوں تو وہ ن لیگ میں آسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ لیکن ابھی وہ تحریک انصاف میں رہ کر کام کریں گے ، پھر آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بند دروازے کھل سکتے ہیں۔

یہ ایک مشکل کھیل ہے۔ لیکن آگے چل کر کچھ ایسا نظر آرہا ہے۔ اب یہ بانی پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کب تک برداشت کرتا ہے۔ جب تک بانی برداشت کرے گا وہ بانی کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن کھیل اپنا کھیلیں گے۔ اس بار وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ انھیں سمجھ آگئی ہے، وہ کافی سمجھدار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • ملک میں ایک شخص کی مرضی چل رہی ہے( عمران خان)
  • بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!