Express News:
2025-09-18@13:49:55 GMT

بل فائٹنگ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

مجھے ایک بار اسپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ وہ ایک لمبی گیم تھی جس کے تین حصے تھے‘ گول اسٹیڈیم میں دائرے کی صورت میں تماشائی بیٹھے تھے اور میدان کے درمیان میں بل فائیٹر سفید چست پتلون اور شرٹ پہن کر کھڑا تھا‘ اس کے سر پر رنگین ہیٹ تھا اور اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا کپڑا تھا‘ اسٹیڈیم میں ’’ہے تورو‘ ہے تورو‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے‘ نعروں کی آوازوں کے درمیان لکڑی کا گیٹ کھلا اور خوف ناک بدمست بھینسا دوڑ کر میدان میں آ گیا اوراس کے بعد کھیل شروع ہو گیا‘ کھیل کے پہلے فیز میں بل فائیٹر سرخ رنگ کے کپڑے سے بل کو تھکانے میں مصروف ہو گیا۔

 بل دور سے دوڑ کر آتا تھا‘ فائیٹر اسے کپڑے میں الجھا کر پاؤں پر گھوم جاتا تھا اور بھینسا اسے چھوئے بغیر دور نکل جاتا تھا‘ یہ فیز دو گھنٹے جاری رہا‘ اس میں بھینسا بری طرح تھک گیا اور آخر میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا‘ بل فائیٹر اس کے قریب پہنچ کر کپڑا لہراتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ اس کے ساتھ ہی کھیل کا دوسرا فیز شروع ہو گیا‘ اسٹیڈیم کے سائیڈگیٹس سے تین گھڑ سوار نکلے‘ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بھالے اور تیر کمان تھے‘ انھوں نے دور سے بھینسے کو تیر مارنا شروع کر دیے‘ردعمل میں بھینسا جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو گیا‘ سوار بھی گھوڑوں پر اس کے پیچھے دوڑ پڑے‘ وہ اس کے قریب پہنچتے تھے۔

 اسے بھالے سے زخمی کرتے تھے اور پھر دور بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی گھنٹہ بھر جاری رہا‘ بھینسا اس دوران زخمی ہوتا رہا اور اس کے زخموں سے خون رستا رہا یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا‘ اس کے گرتے ہی بل فائیٹر دوبارہ اسٹیڈیم میں داخل ہو گیااور یوں کھیل کا تیسرا فیز شروع ہو گیا‘ بل فائیٹر کے ہاتھ میں اس بار تلوار تھی‘ اس نے ننگی تلوار کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگایا‘ تماشائیوں نے سیٹیوں اور نعروں کے ساتھ اس کا استقبال کیا‘ وہ پورے اسٹیڈیم کی داد وصول کرنے کے بعد نڈھال بھینسے کے سر پر پہنچا‘ تماشائیوں کی طرف مڑ کر دیکھااور تلوار فضا میں لہرادی‘ پورے اسٹیڈیم نے ہاتھوں کے انگوٹھے زمین کی طرف ڈاؤن کر کے اسے بھینسے کا سر اتارنے کی اجازت دی اور بل فائیٹر نے بھینسے کی گردن پر تلوار کے وار شروع کر دیے۔

 بھینسا آنکھوں میں خوف‘ بے چارگی اور رحم کی درخواست بھر کر اس کی طرف دیکھتا رہا اور قتل ہوتا رہا‘ اس کے خون کے فوارے اچھل کر اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گر رہے تھے‘ وہ تکلیف سے چلا رہا تھا لیکن ہجوم اس ظلم پر سیٹیاں بجا رہا تھا‘ اچھل کر بل فائیٹر کو داد دے رہا تھا اور وحشت میں نعرے لگا رہا تھا‘کھیل کے آخر میں اسٹیڈیم کی ریت پر بھینسے کا سر اور دھڑ الگ الگ پڑا تھا‘ وہ منظر انتہا درجے کا وحشیانہ اور اذیت ناک تھا‘ میں نے جھرجھری لی اورا سٹیڈیم سے نکل گیا جب کہ لوگ تالیاں اور سیٹیاں بجا رہے تھے اور سیٹوں پر کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے۔

آپ اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو آپ کو یہ ملک بھی بل فائٹنگ کا رنگ محسوس ہو گا‘ اس رنگ کا بھینسا ہماری نیشنل اسپرٹ ہے‘بل فائیٹر ہمارے حالات ہیں اورپوری دنیا اس کھیل کی تماشائی ہے اوریہ تالیاں پیٹ کر بل فائیٹرز کو داد دے رہی ہے‘ ہمیں پہلے سرخ کپڑے کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بھینسے کی طرح باقاعدہ تھکایا گیا تھاجب ہم تھک کرٹوٹ گئے تو پھر ہم پر تیروں اور بھالوں سے وار کیے گئے‘ ہمیں زخمی کیا گیا تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکیں‘ ہم اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گریں اور اس کے بعد کھیل کے تیسرے فیز میں بل فائیٹر آگے بڑھ کر ہمارا سر کاٹ دے‘ یہ ہے کل اسکیم‘ آپ سیاسی محاذ پر دیکھ لیجیے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم اسکیم میں شامل نہیں تھا‘ یہ فاسٹ باؤلر تھا‘ اسے سیاست میں صرف تیز گیندیں پھینکنے کے لیے لایا گیا تھا۔

 اس سے صرف ایک کام لیا جا رہا تھا‘ یہ جنرل مشرف کی وکٹوں پر حملہ کرتا رہے‘ یہ پیپلز پارٹی کی وکٹیں اڑاتا رہے اور آخر میں یہ میاں نواز شریف کو سانس نہ لینے دے اور بس آپ2000سے2017تک  خان کی سیاست دیکھ لیں‘ آپ کویہ اپنا فاسٹ باؤلنگ کا کردار ٹھیک ٹھاک نبھاتا ہوا محسوس ہو گا‘ یہ کردار اسی اسپرٹ کے ساتھ مزید چلنا تھا لیکن یہ کھیل اس وقت خراب ہوگیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘اس سے قبل  خان کو صادق اور امین اور عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن کی گئی اور نوجوانوں کو اس کے گرد جمع کر دیا گیا اور اس کے بعد  خان نے اسٹیبلشمنٹ کی وکٹیں ہی اڑا دیں اور یہ مسلسل یہ کام کرتا چلا جا رہا ہے‘ اب جب بل فائیٹر رنگ میں موجود ہے تو پھر دوسرے کھلاڑی فائدہ کیوں نہ اٹھاتے چناں چہ بھینسے کے دوسرے دشمن بھی میدان میں کود پڑے اور انھوں نے بھی تیر اور بھالے چلانا شروع کر دیے‘ آپ کے پی اور بلوچستان کے حالات دیکھ لیں۔

دنیا میں اس وقت معیشت سب سے بڑا میدان جنگ ہے‘ آپ کے پاس اگر وسائل ہیں‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹس اور فارن ریزروز ہیں تو آپ کام یاب ہیں بصورت دیگر آج کی دنیا میں بھکاریوں‘ طفیلیوں اور معاشی محتاجوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘ پاکستان سردست معاشی طفیلی‘ محتاج اور بھکاری ہے‘ ہم چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کے بغیر آئی ایم ایف کو بھی قائل نہیں کر پا رہے اگر یہ تین ملک ہمارے خزانے میں جمع اپنی رقم واپس مانگ لیں تو آئی ایم ایف فوراً بھاگ جائے گا اور یوں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ ہمیں اس صورت حال سے صرف معاشی استحکام بچا سکتا ہے اور یہ استحکام اب صرف معدنیات اور قدرتی وسائل سے ممکن ہے‘ انڈسٹری‘ سکل ڈویلپمنٹ اور نیشن بلڈنگ کے لیے کم از کم تیس سال چاہییں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں‘ ہم فوری طور پر زمین‘ مائینز اور منرلز بیچ کر ہی موجودہ معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں‘ اس حقیقت سے ہمارا ازلی دشمن بھی اچھی طرح واقف ہے۔

 بھارت جانتا ہے ہم اگر معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو ہم اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘ ہم پھر اس سے کشمیر بھی مانگیں گے‘ اپنے دریاؤں کا پانی بھی اور ماضی کے مظالم کا حساب بھی‘ اس کا خیال ہے ہم ڈان ہیں اورڈان جب تک اپنے مسئلوں میں پھنسا رہتا ہے دوسرے اس وقت تک اس سے محفوظ رہتے ہیں جس دن ڈان مسائل سے آزاد ہو جائے یا اس کے دانے پورے ہو جائیں تو وہ آنکھ کھول کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر سب کو کان پکڑا دیتا ہے چناں چہ بھارت چاہتا ہے ہم اپنے مسئلوں سے آزاد نہ ہو سکیں‘ ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے مصروف رہیں کہ ہمیں بھارت یاد آئے اور نہ کشمیر اور نہ ہی خشک دریاؤں کا پانی چناں چہ اس نے ہمیں کے پی اور بلوچستان میں الجھا رکھا ہے۔

 اب سوال یہ ہے بلوچستان اور کے پی کیوں؟ بھارت سندھ اور پنجاب میں چھیڑچھاڑ کیوں نہیں کر  رہا؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول پنجاب اور سندھ کا معیار تعلیم دوسرے دونوں صوبوں سے بہتر ہے لہٰذا یہاں کے لوگ نسبتاً سمجھ دار ہیں‘ یہ جلد پروپیگنڈے میں نہیں آتے‘ دوم سندھ اور پنجاب میں کوالٹی آف لائف بہتر ہے‘ لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں‘ ان کے پاس بجلی‘ سڑک‘ اسکول‘ اسپتال‘ مکان اور روزگار کے ذرایع ہیں اور جہاں یہ تمام سہولتیں موجود ہوں وہاں بغاوت کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ انقلاب فرانس‘ انقلاب روس اور انقلاب ایران بھی شہر کے لوگ نہیں لے کر آئے تھے‘ یہ بھی کسانوں اور مزدوروں کا کمال تھا اور وہ لوگ دور دراز علاقوں سے دارالحکومتوں میں آئے تھے اور انھوں نے بادشاہوں سے پہلے بڑے شہروں کے امراء کو اپنا لقمہ بنایا تھا چناں چہ پنجاب اور سندھ دشمنوں سے بچے ہوئے ہیں اور ان کا فوکس کے پی اور بلوچستان ہیں‘ اس فوکس کی بھی اب دو وجوہات ہیں۔

 پہلی وجہ تعلیم اور روزگار کی کمی ہے‘ یہ علاقے تعلیم بالخصوص سکلڈ ایجوکیشن میں پیچھے ہیں اور اس وجہ سے یہاں بے روزگاری ہے اور دوسری وجہ دونوں صوبوں کی زمین میں خزانے چھپے ہیں‘ بلوچستان میں سونے‘ تانبے‘ لوہے اور کوئلے اور کے پی میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر ہیں ‘ یہ ذخائر چند برسوں میں ملک کو معاشی لحاظ سے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں اور یہ بھارت کے لیے قابل قبول نہیں چناں چہ اس وقت بل فائٹنگ کے رنگ میں موجود بھینسے پر دو طرف سے حملے ہو رہے ہیں‘ اندرونی حملے اور بیرونی حملے‘ اندرونی محاذ پر عمران خان اور ان کے خودکش نوجوان سرگرم ہیں‘ خان بے شک اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مقبولیت کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے‘ زیلنسکی نے یوکرین کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا جب کہ ٹرمپ امریکا کے ساتھ پوری دنیا کو تباہ کر رہے ہیں۔

عمران خان بھی اگر مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آگیا تو یہ اس ملک کا کیا حشر کرے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘ ان کے پاس ایسا ایسا گنڈا پور موجود ہے کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور یہ بھی اس شکل میں ممکن ہو گا جب ہاتھ یا کان بچ سکیں گے جب کہ بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم عمل ہے‘ یہ نہیں چاہتا کے پی اور بلوچستان میں امن آئے‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر یہاں امن ہو گیا تو پاکستان تیل بھی نکال لے گا اور سونا اور تانبا بھی اور اگر یہ ہو گیا تو یہ معاشی طور پر قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا سوچیں اگر غریب پاکستان بھارت کے لیے اتنی بڑی تھریٹ ہے تو یہ امیر ہونے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرے گا؟۔

آپ اگر اس سیناریو پر غور کریں تو آپ پھرچند لمحوں میں سمجھ جائیں گے‘ 8اپریل کو جب اسلام آباد میں منرلز سمٹ ہو رہی ہے‘اس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار آ رہے ہیں اور عین اس وقت اختر مینگل کوئٹہ کا محاصرہ کر رہے ہیں اور بی ایل اے پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا رہی ہے‘ کیوں؟ آپ اس کیوں کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو بل فائٹنگ کا یہ سارا کھیل سمجھ آ جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے پی اور بلوچستان اسٹیڈیم کی بل فائٹنگ بل فائیٹر اور اس کے کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں چناں چہ رہا تھا تھا اور تھے اور رہے تھے ہے اور اور ان ہو گیا کے لیے کے بعد اور یہ

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage