جموں کشمیر اسمبلی میں وقف ایکٹ پر بحث سے انکار، اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
عدم اعتماد کے درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام ایوان میں اسپیکر کے رویے پر مجموعی ناراضی کی عکاسی ہے، خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے التوا کی تحریک کو مسترد کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں منگل کو اس وقت سیاسی ہلچل مچ گئی جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور پیپلز کانفرنس (پی سی) نے اسپیکر عبد الرحیم راتھر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، جن پر وقف (ترمیمی) بل 2025 پر بحث کی اجازت نہ دینے کا الزام ہے۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک اسمبلی میں شور شرابے کے بعد پیش کی گئی، جس پر پیپلز کانفرنس (پی چی) کے سربراہ اور ہندوارہ کے ایم ایل اے سجاد غنی لون اور پی ڈی پی کے اراکین اسمبلی وحید الرحمن پرہ، میر محمد فیاض اور رفیق احمد نائیک کے دستخط ہیں۔
عدم اعتماد کے درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام ایوان میں اسپیکر (عبد الرحیم راتھر) کے رویے پر مجموعی ناراضی کی عکاسی ہے، خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے التوا کی تحریک کو مسترد کیا اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر غور کرنے سے صاف انکار کیا، یہ رویہ جمہوری اقدار اور پارلیمانی طریقۂ کار کے منافی ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف (ترمیمی) بل 2025 کو جموں و کشمیر میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ حزب اختلاف اور حکمران اتحاد، دونوں نے اس متنازع قانون پر اسمبلی میں بحث کا مطالبہ کیا ہے، جس کا مقصد ریاست میں اسلامی اوقاف کی نگرانی ہے۔ منگل کو بجٹ اجلاس کے دوسرے روز ایوان میں اس وقت پھر سے شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جب اسپیکر نے وقف قانون پر بحث کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
نیشنل کانفرنس، جو حکمران اتحاد کی قیادت کر رہی ہے نے التوا کی تحریک جمع کی تھی جبکہ وحید الرحمن پرہ نے وقف قانون کے خلاف قرارداد پیش کی۔ جب وحید الرحمن پرہ نے ایوان کے اندر احتجاج کرتے ہوئے ویل آف دی ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو انہیں اسپیکر کے حکم پر باہر نکال دیا گیا۔ اسپیکر راتھر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لئے اسمبلی میں اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے اور ریاستی اسمبلی کو اسے منسوخ کرنے یا مخالفت کا اختیار نہیں۔ ہنگامے کے بیچ اسپیکر نے اجلاس کو 30 منٹ کے لئے ملتوی کر دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسمبلی میں کی تحریک پیش کی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی نمائندوں کو نظر بند کر کے نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کر دیا۔
کشمیری شہداء کی توہین ہندوتوا نظریے کے تحت مسلم شناخت کو دبانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے 13 جولائی کو منتخب سرکاری عہدیداران بشمول وزیر اعلیٰ کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔
دی وائر نیوز کے مطابق حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور یوم شہداء کی سرکاری تعطیل ختم کر دی گئی تھی، 1931 کا واقعہ کشمیری عوام کی خود مختار سیاسی اور آئینی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر نے 1931 میں ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں مارے گئے 22 افراد کو غدار قرار دیا۔
بھارتی اخبار کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، بی جے پی جلد از جلد جموں و کشمیر کو باقی ملک کے قوانین کے تحت ضم کرنے کی کوشش میں ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے آئینی طور پر مشکوک اقدامات جموں و کشمیر کے ساتھ دیگر ریاستوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونے چاہئیں۔
دی وائر کے مطابق بی جے پی کے اقدامات کا پہلا مسئلہ قوم پرست تاریخ اور شناخت کی یک جہتی کی سوچ سے جڑا ہے، بی جے پی مرکزی حکومت وفاقی اکائیوں پر اپنا تاریخی بیانیہ تھوپ رہی ہے۔
بی جے پی کا 1931 کے شہداء کو ’’غدار‘‘ کہنا کشمیری جدوجہد کو دبانے کوشش ہے، کشمیریوں کے یادگار دنوں پر پابندی لگانا مودی سرکار کی ذہنی شکست کی علامت ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر زبردستی حکمرانی مودی سرکار کی غیر جمہوری سوچ اور آمریت کی عکاس ہے۔ مودی سرکار کے ان جارحانہ اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ غیر مستحکم ہو رہی ہے۔