Express News:
2025-08-01@05:01:10 GMT

کینال منصوبہ نہ کھپے

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

کراچی میں 85 فیصد پانی دھابیجی کے کنوؤں سے آتا ہے۔ دھابیجی میں پانی دریائے سندھ سے آتا ہے۔ جب چولستان کے لیے نہری منصوبہ پر عمل درآمد ہوا تو کراچی میں پانی کا قحط پڑجائے گا۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور سکھرکی ہوگی۔ جب زراعت پانی کی بناء پر تباہ ہوگئی تو برے شہروں میں خوراک ، دودھ اور دہی نایاب ہوجائیں گے۔

دریائے سندھ پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے رکن نصیر میمن کا بیانیہ ہے کہ جب دریا کا صاف پانی سمندر میں نہیں جائے گا تو بحیرہ عرب کے کناروں پر لگے منگروز کے جنگل ختم ہوجائیں گے۔ پھر جب بحیرہ عرب میں طغیانی آئے گی اور سونامی جیسا طوفان سمندر میں برپا ہوگا تو کراچی کو بچانے والے منگروز کے درخت موجود نہیں ہونگے اور یہ طوفان اسی طرح کراچی کو تباہ کردے گا جس طرح کئی سو سال قبل کراچی، ٹھٹہ اور اطراف کے علاقوں میں سمندری پانی نے تباہی مچاہی تھی۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو دریائے سندھ کی خشک سالی کا ادراک ہونا چاہیے۔

چولستان کینال منصوبہ کی گزشتہ سال صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت دریائے بیاس کے سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لیے یہ 6 نہریں تعمیر کی جائیں گی، یوں اس خبر نے سندھ میں بھونچال پیدا کردیا۔ جب ماہرین نے ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس کی روداد کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ تعمیر ہونے والی نہروں کا Status تبدیل کردیا گیا۔ اب ان میں سے ایک نہر پورے سال کھلی رہے گی۔

سابق صدر ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہونے والے سندھ طاس منصوبے کے تحت مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج کو بھارت کے کنٹرول میں دیدیا گیا تھا اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ جب دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں طغیانی آئے یا سیلاب آئے تو ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم گرما میں بھارت میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ان مشرقی دریاؤں میں پانی آتا ہے۔ جب وہاں خشک سالی ہوتی ہے تو پاکستان کے علاقے میں آنے والے دریا خشک رہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اربوں روپوں کے منصوبے کو محض سیلابی پانی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر یہ نکتہ بھی توجہ کا مرکز بن گیا کہ چولستان پروجیکٹ کی نہروں کا Status تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی ان شہروں کو سیراب کرے گا۔ دریائے سندھ اس سال خشک سالی کا شکار ہے۔ دریاؤں کے پانی کو مینیج کرنے والے ادارے ارسا نے پانی کے تحفظ کے لیے سخت وارننگ جاری کی ہے۔ اس بناء پر اس منصوبے کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے معاملے کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا مگر جب احتجاج زیادہ بڑھا تو سندھ کی حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔

حکومت نے دریاؤں کے پانی کی کنٹرولنگ اتھارٹی میں اعتراض داخل کیا مگر ارسا کے بیوروکریٹس نے سندھ حکومت کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ جب اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں اور سندھ حکومت نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے صوبوں کے معاملات کا تصفیہ کرنے والے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل (Council of Common Interests) میں لے جانا چاہیے۔

جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس ہی نہیں ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ نے اس خبر کو بھرپور کوریج دی کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس خبر نے سندھ بھر میں چولستان نہری پروجیکٹ کے خلاف تحریک کو تیز کردیا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے علاوہ چھوٹے شہروں اور گوٹھوں میں احتجاج شروع ہوا۔ جب اس احتجاج میں وسعت آئی تو یہ سوال اہم ہوگیا کہ اس منصوبے کی منظوری ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی تھی، یوں اب پیپلز پارٹی بھی تنقید کا نشانہ بننے لگی۔ یہی دباؤ تھا کہ صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے نئے سال کے آغاز پر اپنی تقریر میں اس منصوبے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اجلاس کی روداد میں تبدیلی کی گئی ہے، مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر کی جانب سے اس بارے میں کوئی تردیدی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ بھر میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور پیپلز پارٹی کو بھی اس منصوبے کے خاتمے کی تحریک میں شامل ہونا پڑگیا ہے۔ سندھ میں اس معاملہ پر رائے عامہ اتنی ہموار ہوئی کہ عید الفطر کے تہوار کے موقع پر ہر تعلقہ میں جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو دوسری طرف کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ جماعت اسلامی کے سندھی رہنما تو احتجاجی تحریک میں شامل ہیں مگر کراچی کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی جماعت اسلامی کی قیادت کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت پیپلز پارٹی سے اختلافات کی بناء پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرسکی۔

 پیپلزپارٹی کی بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اس موقع پر اہم تقریر کیا کرتے ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمے داری سنبھال لی تو وہ بھی اس موقعے پر اہم تقریر کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ صدر زرداری کورونا میں مبتلا ہونے کی بناء پر اس دفعہ اس جلسے میں شرکت نہ کرسکے مگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ’’ شہباز شریف صاحب سندھ کے عوام کو یہ منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ہم سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔‘‘ مگر انھوں نے سندھ میں اس منصوبے کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ’’پاکستان نہ کھپے ‘‘کا نعرہ لگانے والا قرار دیا ۔ بلاول بھٹو کے اس الزام پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ سندھ کی معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ کینال منصوبہ کی مخالفت کرنے والے غدار نہیں ہیں۔ تمام تر واقعات کے جائزے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ یہ منصوبہ فوری طور پر منسوخ ہونا چاہیے اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں ہونے والے اس منصوبے کے اس منصوبے کی پیپلز پارٹی دریائے سندھ کرنے والے میں پانی بناء پر سندھ کی

پڑھیں:

سندھ اسمبلی : سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کی زائد بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف قرارداد منظور

کراچی:

سندھ اسمبلی نے نیپرا کی جانب سے کراچی کے بجلی صارفین پر 50 ارب کا بوجھ ڈالنے کی منظوری کے خلاف اور نیپرا، سیپکو، حیسکو، کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ اور زائد بلنگ  کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ارکان ہیرسوہو، عامرصدیقی اور شبیرقریشی نے سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کے خلاف قراداد ایوان میں پیش کی۔

ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے قرارداد پر کہا کہ کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے کراچی کے عوام پر 50 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا نیپرا یہ فیصلہ واپس لے، نیپرا نے 18 جولائی کو حکم نکالا یہ کراچی کے کاروبار کو ختم کرنے کی سازش ہے، ہماری صنعتیں دیگر صوبوں میں منتقل ہو رہی ہیں، کے الیکٹرک کی اپنی نااہلی ہے، بجلی چوری کے 50 ارب روپے کراچی کے شہریوں سے وصول کیے جا رہے ہیں، آئین میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ اجتماعی سزائیں دی جائیں، کے الیکٹرک اپنے لائن لاسز کی سزا پورے شہر کے عوام سے وصول کررہی ہے، اس قراداد کو متفقہ طور پر منظور کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے رکن شبیر قریشی نے کہا کہ کے الیکٹرک اور حیسکو پوری قوم کو قرض دار بنا رہی ہیں، عوام کو سہولت دی جائے پہلے 300 یونٹ کے بعد ریٹ تبدیل ہوتے تھے اب 199 یونٹ سے ایک یونٹ بھی بڑھتا ہے تو 10 ہزار روپے کا بل آتا ہے، پُر زور مطالبہ کرتا ہوں کہ کم سے کم یونٹس کی حد 300 رکھی جائے، نیپرا کو پابند کیا جائے کہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں لے کر آئیں، 200 یونٹ کے بعد اضافی بل کو ختم کیا جائے، کم سے کم حد 300 یونٹ مقرر کی جائے۔

پیپلز پارٹی کے رکن آصف موسی نے کہا کہ آج جو قرارداد ایوان میں پیش کی وہ اہم ہے نیپرا کی جانب سے 200 یونٹ والا سلیب ختم کیا جائے، غریب آدمی 200 یونٹ استعمال کرتا ہے، 201 یونٹ ہوجاتے ہیں وہ غریب کے دسترس سے زیادہ ہے، بلدیہ ٹاؤن میں 12 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی، کے الیکٹرک کے نمائندوں کو اسمبلی میں بلایا کوئی فرق نہیں پڑا، پچھلی بار میٹنگ بلائی تھی کے الیکٹرک کے لیے سزا اور جزا کا عمل ہونا چاہیے، نیپرا میں سندھ حکومت یا کراچی کا کوئی نمائندہ نہیں ہے، یہ ایوان 200 یونٹ کی پالیسی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، حکومت سندھ وفاقی حکومت سے رابطہ کرے 200 یونٹ کی حد کو بڑھایا جائے۔

ہیر سوہو نے کہا کہ حیسکو اور سیپکو کی لوڈ شیڈنگ کی کوئی حد نہیں، دو گھنٹے بجلی ہوتی ہے چار گھنٹے نہیں ہوتی۔

پیپلز پارٹی کے رکن جمیل سومرو نے کہا کہ بجلی کی کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے، کسی علاقے میں ایک بندہ بھی بجلی چوری کرے تو پی ایم ٹی اٹھا کر لے جاتے ہیں، لاڑکانہ شہر میں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہے، عام شہریوں نے سولر لگانا شروع کردیا ہے، 49 ڈگری گرمی میں بجلی نہیں تو لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے، ہماری تقاریر کا کوئی اثر نہیں ہوتا بجلی کمپنیاں شتر بے مہار ہیں، لاہور میں کتنی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور کراچی میں کتنی ہوتی ہے، ہم قراداد پاس تو کرتے ہیں اس کی ویلیو نہیں ہے ہم خالی تقریریں کرنے آئے ہیں کیا؟ ایوان سے گزارش ہے کہ کمیٹی بلا کر ان کو بلائیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن خرم سومرو نے کہا کہ الیکٹرک کمپنیوں کو اسمبلی میں بلایا گیا وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے، کے الیکٹرک اور واپڈا کے خلاف قانون بنایا جائے، قراداد منظور کی جائے قانون سازی بھی کی جائے۔

ایم کیو ایم کے رکن نجم مرزا نے کہا کہ نیپرا نے حالیہ دنوں میں ایک فیصلہ جاری کیا ہے سندھ کے شہریوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، کراچی کے شہریوں سے زبردستی 50 ارب روپے وصول کیے جارہے ہیں، لائین لاسز کا بہانہ ہے جبکہ اضافی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، نشانہ وہ صارفین بن رہے ہیں جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں نیپرا یہ حکم فوری واپس لے۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد اویس نے کہا کہ دس گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ غیر قانونی ہے، کے الیکٹرک قانون توڑ رہی ہے، آج یہ قانون پاس کریں کہ کے الیکٹرک کے جنرل مینیجر کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ کے الیکٹرک عملہ خود بجلی چوری کرواتا ہے۔

وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ ہر بار اسمبلی میں یہ قراداد آتی ہے کے الیکٹرک حیسکو سیپکو کے کان پر جوں نہیں رینگتی، اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے 50 سینٹی گریڈ گرمی میں بجلی نہیں ہوتی سندھ حکومت 4 لاکھ گھروں کو سولر دے رہی ہے یہ پاور کمپنیوں کو حل کی جانب آنا پڑے گا، اب نیپرا بول رہا ہے کہ کراچی کے شہریوں سے 50 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، پری پیڈ میٹر شروع کیے جائیں پری پیڈ میٹر بنانا کون سا مشکل ہے؟ اجتماعی سزا دی جا رہی جو ختم کی جائے پری پیڈ میٹر ہوگا ہر کوئی اپنے یونٹ استعمال کرے گا یونٹ ختم ہونے سے خود بجلی بند ہو جائے گی وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ سنجیدگی کے ساتھ سوچیں ڈیڑھ سو دو سو قراردادیں منظور ہو چکی ہیں کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا کہ یہ اسمبلی کی حرمت کے لیے سوالیہ نشان ہے اسمبلی کی قراداد کو اہمیت نہیں ملتی تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ وفاقی حکومت اور نیپرا سے مؤدبانہ گزارش ہے کراچی سے کشمور تک پورا سندھ پریشان ہے ہر شہری بجلی کے مسئلے کی شکایت کرتا ہے تمام جماعتوں کے ایم پی ایز کا ایک ہی مسئلہ ہے کراچی کے عوام سے کے الیکٹرک بھتہ لے رہی ہے یہ اسمبلی مطالبہ کر رہی ہے بھتہ وصول نہ کیا جائے تو وہ فیصلہ واپس ہونا چاہیے ہم اس قراداد کی حمایت کرتے ہیں۔

بعدازاں ایوان سے قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوگئی اور اجلاس جمعہ تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا خطرناک منصوبہ منظرعام پر لائوں گا مزید ارشد شریف جیسا کھیل کھیلنے نہیں دونگا، واوڈا
  • جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
  • کراچی: پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی کئی سال بعد بچے سمیت قتل
  • پنجاب اسمبلی نے مویشیوں سے آمدنی پر ٹیکس ختم کرنے کا بل منظور کرلیا
  • 2 ریاستی حل کے حامی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ نہیں: اسحاق ڈار
  • سندھ اسمبلی : سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کی زائد بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف قرارداد منظور
  • پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں: نائب وزیراعظم
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں،فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دی جائے، اسحاق ڈار
  • پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، اسحاق ڈار
  •  پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کردیا