کراچی میں 85 فیصد پانی دھابیجی کے کنوؤں سے آتا ہے۔ دھابیجی میں پانی دریائے سندھ سے آتا ہے۔ جب چولستان کے لیے نہری منصوبہ پر عمل درآمد ہوا تو کراچی میں پانی کا قحط پڑجائے گا۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور سکھرکی ہوگی۔ جب زراعت پانی کی بناء پر تباہ ہوگئی تو برے شہروں میں خوراک ، دودھ اور دہی نایاب ہوجائیں گے۔
دریائے سندھ پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے رکن نصیر میمن کا بیانیہ ہے کہ جب دریا کا صاف پانی سمندر میں نہیں جائے گا تو بحیرہ عرب کے کناروں پر لگے منگروز کے جنگل ختم ہوجائیں گے۔ پھر جب بحیرہ عرب میں طغیانی آئے گی اور سونامی جیسا طوفان سمندر میں برپا ہوگا تو کراچی کو بچانے والے منگروز کے درخت موجود نہیں ہونگے اور یہ طوفان اسی طرح کراچی کو تباہ کردے گا جس طرح کئی سو سال قبل کراچی، ٹھٹہ اور اطراف کے علاقوں میں سمندری پانی نے تباہی مچاہی تھی۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو دریائے سندھ کی خشک سالی کا ادراک ہونا چاہیے۔
چولستان کینال منصوبہ کی گزشتہ سال صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت دریائے بیاس کے سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لیے یہ 6 نہریں تعمیر کی جائیں گی، یوں اس خبر نے سندھ میں بھونچال پیدا کردیا۔ جب ماہرین نے ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس کی روداد کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ تعمیر ہونے والی نہروں کا Status تبدیل کردیا گیا۔ اب ان میں سے ایک نہر پورے سال کھلی رہے گی۔
سابق صدر ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہونے والے سندھ طاس منصوبے کے تحت مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج کو بھارت کے کنٹرول میں دیدیا گیا تھا اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ جب دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں طغیانی آئے یا سیلاب آئے تو ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم گرما میں بھارت میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ان مشرقی دریاؤں میں پانی آتا ہے۔ جب وہاں خشک سالی ہوتی ہے تو پاکستان کے علاقے میں آنے والے دریا خشک رہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اربوں روپوں کے منصوبے کو محض سیلابی پانی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر یہ نکتہ بھی توجہ کا مرکز بن گیا کہ چولستان پروجیکٹ کی نہروں کا Status تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی ان شہروں کو سیراب کرے گا۔ دریائے سندھ اس سال خشک سالی کا شکار ہے۔ دریاؤں کے پانی کو مینیج کرنے والے ادارے ارسا نے پانی کے تحفظ کے لیے سخت وارننگ جاری کی ہے۔ اس بناء پر اس منصوبے کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے معاملے کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا مگر جب احتجاج زیادہ بڑھا تو سندھ کی حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
حکومت نے دریاؤں کے پانی کی کنٹرولنگ اتھارٹی میں اعتراض داخل کیا مگر ارسا کے بیوروکریٹس نے سندھ حکومت کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ جب اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں اور سندھ حکومت نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے صوبوں کے معاملات کا تصفیہ کرنے والے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل (Council of Common Interests) میں لے جانا چاہیے۔
جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس ہی نہیں ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ نے اس خبر کو بھرپور کوریج دی کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس خبر نے سندھ بھر میں چولستان نہری پروجیکٹ کے خلاف تحریک کو تیز کردیا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے علاوہ چھوٹے شہروں اور گوٹھوں میں احتجاج شروع ہوا۔ جب اس احتجاج میں وسعت آئی تو یہ سوال اہم ہوگیا کہ اس منصوبے کی منظوری ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی تھی، یوں اب پیپلز پارٹی بھی تنقید کا نشانہ بننے لگی۔ یہی دباؤ تھا کہ صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے نئے سال کے آغاز پر اپنی تقریر میں اس منصوبے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اجلاس کی روداد میں تبدیلی کی گئی ہے، مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر کی جانب سے اس بارے میں کوئی تردیدی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ بھر میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور پیپلز پارٹی کو بھی اس منصوبے کے خاتمے کی تحریک میں شامل ہونا پڑگیا ہے۔ سندھ میں اس معاملہ پر رائے عامہ اتنی ہموار ہوئی کہ عید الفطر کے تہوار کے موقع پر ہر تعلقہ میں جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو دوسری طرف کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ جماعت اسلامی کے سندھی رہنما تو احتجاجی تحریک میں شامل ہیں مگر کراچی کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی جماعت اسلامی کی قیادت کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت پیپلز پارٹی سے اختلافات کی بناء پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرسکی۔
پیپلزپارٹی کی بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اس موقع پر اہم تقریر کیا کرتے ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمے داری سنبھال لی تو وہ بھی اس موقعے پر اہم تقریر کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ صدر زرداری کورونا میں مبتلا ہونے کی بناء پر اس دفعہ اس جلسے میں شرکت نہ کرسکے مگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ’’ شہباز شریف صاحب سندھ کے عوام کو یہ منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ہم سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔‘‘ مگر انھوں نے سندھ میں اس منصوبے کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ’’پاکستان نہ کھپے ‘‘کا نعرہ لگانے والا قرار دیا ۔ بلاول بھٹو کے اس الزام پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ سندھ کی معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ کینال منصوبہ کی مخالفت کرنے والے غدار نہیں ہیں۔ تمام تر واقعات کے جائزے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ یہ منصوبہ فوری طور پر منسوخ ہونا چاہیے اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں ہونے والے اس منصوبے کے اس منصوبے کی پیپلز پارٹی دریائے سندھ کرنے والے میں پانی بناء پر سندھ کی
پڑھیں:
بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔
وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا
وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔
اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔
بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔
بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔
1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔
2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔
2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔
2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔
2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔
2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔
2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔
21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔
22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔
جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہاروندفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔
بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملکایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔
انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔
بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشابرطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟
’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز