Express News:
2025-06-16@16:02:12 GMT

کینال منصوبہ نہ کھپے

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

کراچی میں 85 فیصد پانی دھابیجی کے کنوؤں سے آتا ہے۔ دھابیجی میں پانی دریائے سندھ سے آتا ہے۔ جب چولستان کے لیے نہری منصوبہ پر عمل درآمد ہوا تو کراچی میں پانی کا قحط پڑجائے گا۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور سکھرکی ہوگی۔ جب زراعت پانی کی بناء پر تباہ ہوگئی تو برے شہروں میں خوراک ، دودھ اور دہی نایاب ہوجائیں گے۔

دریائے سندھ پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے رکن نصیر میمن کا بیانیہ ہے کہ جب دریا کا صاف پانی سمندر میں نہیں جائے گا تو بحیرہ عرب کے کناروں پر لگے منگروز کے جنگل ختم ہوجائیں گے۔ پھر جب بحیرہ عرب میں طغیانی آئے گی اور سونامی جیسا طوفان سمندر میں برپا ہوگا تو کراچی کو بچانے والے منگروز کے درخت موجود نہیں ہونگے اور یہ طوفان اسی طرح کراچی کو تباہ کردے گا جس طرح کئی سو سال قبل کراچی، ٹھٹہ اور اطراف کے علاقوں میں سمندری پانی نے تباہی مچاہی تھی۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو دریائے سندھ کی خشک سالی کا ادراک ہونا چاہیے۔

چولستان کینال منصوبہ کی گزشتہ سال صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت دریائے بیاس کے سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لیے یہ 6 نہریں تعمیر کی جائیں گی، یوں اس خبر نے سندھ میں بھونچال پیدا کردیا۔ جب ماہرین نے ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس کی روداد کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ تعمیر ہونے والی نہروں کا Status تبدیل کردیا گیا۔ اب ان میں سے ایک نہر پورے سال کھلی رہے گی۔

سابق صدر ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہونے والے سندھ طاس منصوبے کے تحت مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج کو بھارت کے کنٹرول میں دیدیا گیا تھا اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ جب دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں طغیانی آئے یا سیلاب آئے تو ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم گرما میں بھارت میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ان مشرقی دریاؤں میں پانی آتا ہے۔ جب وہاں خشک سالی ہوتی ہے تو پاکستان کے علاقے میں آنے والے دریا خشک رہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اربوں روپوں کے منصوبے کو محض سیلابی پانی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر یہ نکتہ بھی توجہ کا مرکز بن گیا کہ چولستان پروجیکٹ کی نہروں کا Status تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی ان شہروں کو سیراب کرے گا۔ دریائے سندھ اس سال خشک سالی کا شکار ہے۔ دریاؤں کے پانی کو مینیج کرنے والے ادارے ارسا نے پانی کے تحفظ کے لیے سخت وارننگ جاری کی ہے۔ اس بناء پر اس منصوبے کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے معاملے کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا مگر جب احتجاج زیادہ بڑھا تو سندھ کی حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔

حکومت نے دریاؤں کے پانی کی کنٹرولنگ اتھارٹی میں اعتراض داخل کیا مگر ارسا کے بیوروکریٹس نے سندھ حکومت کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ جب اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں اور سندھ حکومت نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے صوبوں کے معاملات کا تصفیہ کرنے والے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل (Council of Common Interests) میں لے جانا چاہیے۔

جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس ہی نہیں ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ نے اس خبر کو بھرپور کوریج دی کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس خبر نے سندھ بھر میں چولستان نہری پروجیکٹ کے خلاف تحریک کو تیز کردیا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے علاوہ چھوٹے شہروں اور گوٹھوں میں احتجاج شروع ہوا۔ جب اس احتجاج میں وسعت آئی تو یہ سوال اہم ہوگیا کہ اس منصوبے کی منظوری ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی تھی، یوں اب پیپلز پارٹی بھی تنقید کا نشانہ بننے لگی۔ یہی دباؤ تھا کہ صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے نئے سال کے آغاز پر اپنی تقریر میں اس منصوبے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اجلاس کی روداد میں تبدیلی کی گئی ہے، مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر کی جانب سے اس بارے میں کوئی تردیدی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ بھر میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور پیپلز پارٹی کو بھی اس منصوبے کے خاتمے کی تحریک میں شامل ہونا پڑگیا ہے۔ سندھ میں اس معاملہ پر رائے عامہ اتنی ہموار ہوئی کہ عید الفطر کے تہوار کے موقع پر ہر تعلقہ میں جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو دوسری طرف کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ جماعت اسلامی کے سندھی رہنما تو احتجاجی تحریک میں شامل ہیں مگر کراچی کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی جماعت اسلامی کی قیادت کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت پیپلز پارٹی سے اختلافات کی بناء پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرسکی۔

 پیپلزپارٹی کی بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اس موقع پر اہم تقریر کیا کرتے ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمے داری سنبھال لی تو وہ بھی اس موقعے پر اہم تقریر کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ صدر زرداری کورونا میں مبتلا ہونے کی بناء پر اس دفعہ اس جلسے میں شرکت نہ کرسکے مگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ’’ شہباز شریف صاحب سندھ کے عوام کو یہ منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ہم سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔‘‘ مگر انھوں نے سندھ میں اس منصوبے کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ’’پاکستان نہ کھپے ‘‘کا نعرہ لگانے والا قرار دیا ۔ بلاول بھٹو کے اس الزام پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ سندھ کی معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ کینال منصوبہ کی مخالفت کرنے والے غدار نہیں ہیں۔ تمام تر واقعات کے جائزے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ یہ منصوبہ فوری طور پر منسوخ ہونا چاہیے اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں ہونے والے اس منصوبے کے اس منصوبے کی پیپلز پارٹی دریائے سندھ کرنے والے میں پانی بناء پر سندھ کی

پڑھیں:

ترقیاتی منصوبے واپس کریں ورنہ بجٹ کی حمایت نہیں کریں گے، مراد علی شاہ کا وفاق کو انتباہ

 

وفاقی فیصلے مخصوص مفادات کی بنیاد پر کیے گئے ، اقدام کے پیچھے زمینوں پر قبضہ کرنے والے مافیا یعنی ’چائنا کٹنگ مافیا‘کا ہاتھ ہے ، وفاقی حکومت سندھ کو سوتیلا نہ سمجھے ، اگر یہ رویہ جاری رکھا تو ہمیں اپنے حقوق لینا آتے ہیں

وفاقی حکومت سندھ کے ساتھ نوآبادیاتی سلوک کی مرتکب ہے، دیگر تینوں صوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ فنڈز بھی دے دیے لیکن سندھ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا، وزیراعلیٰ سندھ کی وفاقی حکومت پر شدید تنقید

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خبردار کیا کہ اگر تمام ترقیاتی منصوبے سندھ حکومت کو منتقل نہ کیے گئے تو پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے (شاہراہِ بھٹو) کے پہلے مکمل سیکشن کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کیا۔افتتاح کے موقع پر انہوں نے نئی تعمیر شدہ سڑک پر سفر کیا اور اسے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے کراچی کے عوام کے لیے ایک اہم تحفہ قرار دیا جس سے ٹرانسپورٹ، معیشت اور صنعتی رابطے بہتر ہوں گے ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کے ہمراہ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، وزیر منصوبہ بندی ناصر شاہ اور سینیٹر وقار مہدی بھی موجود تھے ۔ انہوں نے شاہراہ کا معائنہ کیا اور خود ٹول ٹیکس بھی ادا کیا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے منصوبہ 38.661 کلومیٹر پر محیط ہے جس میں چھ لینز ہیں اور رفتار کی حد 100 کلومیٹر فی گھنٹہ رکھی گئی ہے ۔یہ ڈی ایچ اے اور کورنگی کو ایم نائن موٹر وے (کاٹھوڑ کے قریب) سے جوڑتا ہے جبکہ اس میں چھ انٹرچینج اور 12 ٹول پلازے شامل ہیں۔ منصوبے کی مجموعی تکمیل کا تناسب اس وقت 80 فیصد ہے ۔افتتاحی تقریب میں مراد علی شاہ نے بتایا کہ قائدآباد سے کاٹھوڑ تک آخری فیز دسمبر 2025 کے اختتام تک کھول دیا جائے گا اور وہ یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کا وقت مانگیں گے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر شدید تنقید کی اور اسے سندھ کے ساتھ نوآبادیاتی سلوک کا مرتکب قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے ۔ انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کردیا ہے جو صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کا ذمہ دار تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دیگر تینوں صوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ان کے فنڈز بھی دیے گئے لیکن سندھ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ اب وہ اسلام آباد سے ایک نئی کمپنی کے ذریعے سندھ کے منصوبے چلانا چاہتے ہیں۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ یہ طریقہ قابل قبول نہیں ہوگا۔وزیراعلیٰ نے خبردار کیا کہ اگر تمام ترقیاتی منصوبے سندھ حکومت کو منتقل نہ کیے گئے تو پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی، آپ سندھ کو نوآبادی کی طرح نہیں چلا سکتے ۔ انہوں نے ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ وفاقی فیصلے مخصوص مفادات کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔لگتا ہے اس اقدام کے پیچھے زمینوں پر قبضہ کرنے والے مافیا یعنی ‘چائنا کٹنگ مافیا’ کا ہاتھ ہے ۔ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ کو سوتیلا نہ سمجھے اور خبردار کیا کہ اگر آپ یہ رویہ جاری رکھیں گے تو ہمیں اپنے حقوق لینا آتے ہیں۔ شاہراہِ بھٹو سے متعلق افواہوں پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ بعض افراد غلط پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی پستول لے کر آیا اور دعویٰ کیا کہ یہاں ڈاکو چھپے ہیں۔ ایسی بے بنیاد باتیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ایم این اے آغا رفیع اللہ نے انہیں ایک اہم مسئلے پر خط لکھا تھا، جس کے حل کے لیے وہ فوری احکامات جاری کر چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد میں مسلسل کمی ریکارڈ ، بجلی کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ
  • ہاکس بے سمندر میں نہاتے ہوئے ڈوبنے والے نوجوان کی لاش سینڈ اسپٹ کے قریب سے برآمد
  • کراچی؛ مبینہ پولیس مقابلے میں خطرناک گینگ کا سرغنہ ہلاک
  • ترقیاتی منصوبے واپس کریں ورنہ بجٹ کی حمایت نہیں کریں گے، مراد علی شاہ کا وفاق کو انتباہ
  • عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد، ریکوڈک میں سرمایہ کاری جاری
  • کراچی: ہاکس بے سمندرمیں نہاتے ہوئے 3 نوجوان ڈوب گئے
  • وفاق نے تمام ترقیاتی منصوبے سندھ کو واپس نہ کیے تو پیپلزپارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی، مراد علی شاہ
  • سندھ بجٹ میں کراچی کیلیے نیا منصوبہ شامل نہیں
  • کراچی: عزیز آباد بلاک 2 میں پانی کی فراہمی معطل ہونے پر احتجاج
  • ریکو ڈک منصوبہ، پاکستان کی جی ڈی پی میں سالانہ ایک فیصد اضافہ ہوگا