آئی ایم ایف کا وفد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
آج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات طے تھی، لیکن صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا کی نجی مصروفیات کے باعث ملتوی ہوگئی۔ اب یہ ملاقات سوموار 14 اپریل کو 09:30 بجے ہوگی۔
فروری میں آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے اور اُس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف کا وفد اِس سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں بھی کر چکا تھا۔
غیر ترقیاتی بجٹ پر اظہار تشویشصدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ملاقات میں آئی ایم ایف وفد نے اِس بات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ملک کا غیر ترقیاتی بجٹ ترقیاتی بجٹ سے بڑھ رہا ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بیوروکریسی کے سروس اسٹرکچر پر بھی اپنے تحفظات ظاہر کیے کہ ایک ہی طرح کے امتحان پاس کرنے کے بعد بیوروکریٹس سول ایڈمنسٹریشن، واپڈا، ریلوے کی انتظامیہ چلا رہےہوتے ہیں جبکہ اِن جگہوں پر ٹیکنیکل لوگوں کو آنا چاہیے۔
سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہےصدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ اِس پر ہم نے اُن کو تجویز دی کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور کرپشن اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک معیشت کو ڈیجیٹلائز نہیں کر دیا جاتا۔
میاں رؤف عطا کے مطابق ہم نے اُن سے کہا کہ آپ اگر پاکستان کی معیشت میں اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کرپشن کا مسئلہ حل کریں، جس کا حل پیپرلیس اور ڈیجیٹل ایڈمنسٹریشن ہے۔
چھوٹے چھوٹے کیسز بھی سپریم کورٹ تک آتے ہیںصدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ ہم نے آئی ایم ایف وفد سے کہا کہ پرائمری سطح پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اِس لیے چھوٹے چھوٹے کیسز بھی سپریم کورٹ تک آتے ہیں۔ جو چیزیں یونین کونسل یا ضلع کی سطح تک حل ہو جانی چاہییں وہ وہاں حل نہیں ہوتیں۔
نظامِ انصاف کی اصلاحصدر سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ وہ کنٹریکٹس پر عمل درآمد کے قانون سے متعلق بھی بات کر رہے تھے۔ ہم نے اُنہیں بتایا کہ موجودہ چیف جسٹس نظامِ انصاف کی اصلاح کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ سے متعلق کافی ساری چیزیں اُنہوں نے ڈیجیٹل کر دی ہیں۔ اور نچلی سطح پر بھی اُس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
دوسرا ہم نے آئی ایم وفد کو بتایا کہ آپ لمبے عرصے کے لیے کم از کم 10-20 سال کے لیے پالیسیاں بنائیں جن کے دور رس اثرات ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن صدر سپریم کورٹ بار ا ئی ایم ایف وفد بتایا کہ
پڑھیں:
زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا، زیر التوا اپیل کی بنیاد پر فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا گیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
فیصلہ کے مطابق معاملہ 2010 میں بہاولپور کی زمین سے متعلق تنازع پر شروع ہوا، لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بنچ نے 2015 میں معاملہ ریونیو حکام کو ریمانڈ کیا، ہائیکورٹ نے ریونیو حکام کو ہدایت کی تھی کہ قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں۔
26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
جاری کردہ فیصلہ میں بتایا گیا کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے فیصلہ نہیں کیا، ہائیکورٹ کے ریمانڈ آرڈر پر عملدرآمد میں 10 سال تاخیر ہوئی، ریونیو حکام نے ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اعتراف کیا ہے کہ کسی عدالت کا سٹے آرڈر نہیں تھا جو فیصلہ پر عمل درآمد سے روکتا۔
چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھنا غیر آئینی طرز عمل ہے، اپیل یا نظرثانی کی زیر التوا درخواست فیصلے پر عملدرآمد نہیں روکتی، یہ عمل عدالتی احکامات کی توہین کے مترادف ہے، محض زیر التوا مقدمے کی بنیاد پر عملدرآمد روکنا قابل قبول نہیں۔
نیوزی لینڈ نے ایف آئی ایچ پروہاکی لیگ سے دستبرداری کا باضابطہ اعلان کردیا
فیصلہ کے مطابق عدالت نے چیف لینڈ کمشنر کو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ہدایت کر دی، چیف لینڈ کمشنر نے عدالت میں تمام ریمانڈ کیسز کی مانیٹرنگ کا وعدہ کیا جس پر عدالت نے تمام پٹیشنز غیر موثر ہونے پر نمٹا دی۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا ہے کہ تین ماہ میں ریمانڈ کیسز کی تفصیلی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرائی جائے، تمام متعلقہ اتھارٹیز کو ریمانڈ آرڈرز پر فوری عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ تاخیر یا غفلت ناقابل قبول ہوگی۔