آج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات طے تھی، لیکن صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا کی نجی مصروفیات کے باعث ملتوی ہوگئی۔ اب  یہ ملاقات سوموار 14 اپریل کو 09:30 بجے ہوگی۔

فروری میں آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے اور اُس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف کا وفد اِس سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں بھی کر چکا تھا۔

غیر ترقیاتی بجٹ پر اظہار تشویش

 صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ملاقات میں آئی ایم ایف وفد نے اِس بات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ملک کا غیر ترقیاتی بجٹ ترقیاتی بجٹ سے بڑھ رہا ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بیوروکریسی کے سروس اسٹرکچر پر بھی اپنے تحفظات ظاہر کیے کہ ایک ہی طرح کے امتحان پاس کرنے کے بعد بیوروکریٹس سول ایڈمنسٹریشن، واپڈا، ریلوے کی انتظامیہ چلا رہےہوتے ہیں جبکہ اِن جگہوں پر ٹیکنیکل لوگوں کو آنا چاہیے۔

سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے

صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ اِس پر ہم نے اُن کو تجویز دی کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور کرپشن اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک معیشت کو ڈیجیٹلائز نہیں کر دیا جاتا۔

میاں رؤف عطا کے مطابق ہم نے اُن سے کہا کہ آپ اگر پاکستان کی معیشت میں اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو  یہاں کرپشن کا مسئلہ حل کریں، جس کا حل پیپرلیس اور ڈیجیٹل ایڈمنسٹریشن ہے۔

چھوٹے چھوٹے کیسز بھی سپریم کورٹ تک آتے ہیں

صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ ہم نے آئی ایم ایف وفد سے کہا کہ پرائمری سطح پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اِس لیے چھوٹے چھوٹے کیسز بھی سپریم کورٹ تک آتے ہیں۔ جو چیزیں یونین کونسل یا ضلع کی سطح تک حل ہو جانی چاہییں وہ وہاں حل نہیں ہوتیں۔

نظامِ انصاف کی اصلاح

صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ وہ کنٹریکٹس پر عمل درآمد کے قانون سے متعلق بھی بات کر رہے تھے۔ ہم نے اُنہیں بتایا کہ موجودہ چیف جسٹس نظامِ انصاف کی اصلاح کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ سے متعلق کافی ساری چیزیں اُنہوں نے ڈیجیٹل کر دی ہیں۔ اور نچلی سطح پر بھی اُس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔

دوسرا ہم نے آئی ایم وفد کو بتایا کہ آپ لمبے عرصے کے لیے کم از کم 10-20 سال کے لیے پالیسیاں بنائیں جن کے دور رس اثرات ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن صدر سپریم کورٹ بار ا ئی ایم ایف وفد بتایا کہ

پڑھیں:

کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے،  درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل  نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان  نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل  نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا اور پشاور بار کا عدالتوں میں موبائل سروس کی بحالی تک ہڑتال کا اعلان
  • خیبرپختونخوا بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ کا اعلان
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • تاحیات سیکیورٹی ریٹائرڈ ججز کیلئے ہے انکی بیواؤں کے لیے نہیں، سپریم کورٹ
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • گورنرخیبرپختونخوا کا پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ،تنظیم کے حوالے سے امور بارے تبادلہ خیال کیا
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ