پی ٹی آئی میں کلچربن چکا کسی کو گندا کرنا ہو تو اس پر اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کا الزام لگا دو، شیر افضل مروت
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی )رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں یہ کلچر بن چکا ہے کہ کسی کو گندا کرنا ہو تو اس پر اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کا الزام لگا دو۔
ایک انٹرویو میں شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ چند لوگوں نے بانی پی ٹی آئی کو حصار میں لیا ہوا ہے، جو لوگ پہلے میرے اور علی امین گنڈاپور کے خلاف ہوئے وہی اب بیرسٹر گوہر کے خلاف بول رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا سلمان اکرم راجا نے بیرسٹر گوہر کو ساتھ بٹھا کر ان کی تضحیک کی، کبھی ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ بہنیں نہیں جائیں گی تو ملاقات کا بائیکاٹ ہو گا، پہلے بہنیں نہیں گئیں تو سلمان اکرم راجا خود بھی ملاقات کے لیے چلے گئے تھے۔ بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی ہے، پارٹی میں غلط تصویر پیش کی جاتی ہے کہ بانی اسٹیبلشمنٹ سے مذکرات کے حامی نہیں ہیں۔شیر افضل مروت کا کہنا تھا پی ٹی آئی کو اپنے سوشل میڈیا سے اب فیصلہ کن طور پر دو دو ہاتھ کرنا ہوں گے۔
سفارتخانے کی کوششیں کامیاب، میانمار کے کیمپوں سے مزید 21 پاکستانی شہری بازیاب
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: شیر افضل مروت پی ٹی آئی
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔