امتحانی پرچے میں ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال، معاملہ اسمبلی پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
میٹرک کے پرچے میں ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال، معاملہ اسمبلی پہنچ گیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں میٹرک کے مطالعہ پاکستان کے پرچے میں سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال کا معاملہ سندھ اسمبلی میں پہنچ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو کو کون سے اعلیٰ اعزاز دینے کی قرارداد منظور کی گئی؟
سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں پیپلز پارٹی کے رکن احمد کریم کنڈی نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کوایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ لگایا تھا لیکن حکومت تعلیم کے فروغ کے بجائے نفرت کی سیاست کو ہوا دے رہی ہے۔
احمد کریم کنڈی نے توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اصلاحات تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کا نقطہ آغاز تھیں، شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے علم دوست ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا، ان سے متعلق من گھڑت سوال انتہائی قابل افسوس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھٹو پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس: ایک جج کی رائے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، چیف جسٹس
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی اصلاحات کو خراج تحسین پیش کرے۔
خیال رہےکہ خیبرپختونخوا کے پشاور بورڈ کے میٹرک کے مطالعہ پاکستان کے پرچے میں طلبہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کی تعلیمی پالیسی کی ناکامی کی 4 وجوہات لکھنے کو کہا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پشاور بورڈ پیپلز پارٹی تعلیمی اصلاحات خیبرپختونخوا ذوالفقار علی بھٹو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پشاور بورڈ پیپلز پارٹی تعلیمی اصلاحات خیبرپختونخوا ذوالفقار علی بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی پرچے میں
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔