پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز میں غیر قانونی قابضین کے خلاف آپریشن، سینکڑوں افراد بے دخل
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
سٹی42: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس نے مشترکہ آپریشنکرتے ہوئے سینکڑوں غیر قانونی قابضین کو ہاسٹلز سے نکال دیا ۔
یونیورسٹی ترجمان کے مطابق آپریشن وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کی ہدایت پر بلا امتیاز کیا گیا، جس سے ہاسٹلز میں 600 طلباء کے لیے نئی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہاسٹل سے محروم مارننگ کے 300 طلباء کو فوری طور پر الاٹمنٹ دی جا چکی ہے جبکہ مزید 300 طلباء کو بھی جلد ہاسٹل دیے جائیں گے۔
لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح
آپریشن کے دوران بعض کمروں سے شراب اور آئس جیسی منشیات بھی برآمد ہوئیں۔ ترجمان نے الزام عائد کیا کہ یہ کمرے مخصوص طلبہ تنظیموں کے زیرِ قبضہ تھے جو بااثر افراد کو غیر قانونی طور پر رکھوا کر ماہانہ کرایہ وصول کرتی تھیں۔
ترجمان کے مطابق غیر قانونی قابضین کی وجہ سے یونیورسٹی سالانہ تقریباً 2 کروڑ روپے کے رہائشی واجبات سے محروم رہی۔ قابضین میں سے کئی انورٹر اے سی، استری اور ہیٹر جیسے آلات بھی استعمال کر رہے تھے۔
سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں ایوننگ پروگرام کے طلباء کو پہلے کبھی ہاسٹل کی سہولت نہیں دی گئی، اور دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں ہر طالبعلم کو لازمی ہاسٹل فراہم نہیں کیا جاتا۔ ہاسٹل کی سہولت صرف گنجائش کے مطابق اور میرٹ پر آنے والے طلباء کا حق ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یونیورسٹی سستی ترین ہاسٹل سہولت فراہم کرتی ہے، جہاں ایک طالبعلم کو ماہانہ صرف 2 ہزار روپے کرایہ دینا ہوتا ہے۔
لاہور میں 278 ٹریفک حادثات، 341 افراد زخمی
انتظامیہ کے مطابق خلاف قانون سرگرمیوں میں ملوث طلباء کو قانون کے مطابق کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم دفاع کا بھرپور موقع بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42 طلباء کو کے مطابق
پڑھیں:
کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج، معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے تھانہ صدر میں ڈاکٹر امتیاز احمد کی جانب سے ڈاکٹر عمر سلطان، ڈاکٹر شاہد علی اعوان اور ڈاکٹر وقار عمرانی امیت 30 سے 35 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلبا کے لیے ڈریس کوڈ کا اعلان کیوں کیا؟ جامعہ کراچی نے وضاحت کردی
درج ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 24 اپریل کو وہ جناح اسپتال کے او پی ڈی کمپلیکس میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کہ اس دوران مذکورہ ڈاکٹروں سمیت 30 سے 35 افراد او پی ڈی میں داخل ہوئے اور او پی ڈی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ ہم نے جواب دیا کہ ہم او پی ڈی بند نہیں کریں گے جس کے بعد یہ افراد مشتعل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا جبکہ او پی ڈی میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
درج مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر یاسین عمرانی کے کہنے پر ہوئی ہے لہٰذا ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر محمد علی کے مطابق مریضوں کو دیکھنے والے ینگ ڈاکٹرز پر ہونے والا تشدد قابل مذمت ہے۔
ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق یہ حملہ ایک انتظامی پوسٹ کے لیے کرایا گیا ہے جس میں باہر کے لوگوں کا تعاون حاصل کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق جناح اسپتال کے سیکیوریٹی انچارج ڈپٹی ڈائریکٹر یاسین عمرانی کو نااہلی کی بنیاد پر ٹرانسفر کیا گیا جس کے بعد ان کی انتظامی پوسٹ کو بچانے کے لیے مریضوں کو علاج سے محروم کرنے کے لیے ایک ناکام کوشش کی گئی۔
ترجمان نے بتایا کہ اس وقت سندھ کے کسی بھی اسپتال میں سروس بند نہیں ہے اور تمام اسپتالوں میں مریضوں کا علاج جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوپی ڈی کمپلکس جناح اسپتال ڈاکٹر بمقابلہ ڈاکٹر