وزیر اعظم کا اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی دارالحکومت میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا اعلان کردیا،ان کاکہناہے کہ وطن کی خاطر خون دینے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی سے بڑا جرم نہیں ہوسکتا، آرمی چیف کی زبان پر وہی ہوتا ہے جو دل میں ہوتا ہے، آرمی چیف سچے پاکستانی اور زبردست پروفیشنل ہیں، وطن کی خاطر خون دینے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی سے بڑا جرم نہیں ہوسکتا، اللہ قرآن میں کہتا ہے شہیدوں کو مردہ نہ کہو، ان کے خلاف برطانیہ میں زہر اگلا جاتا ہے۔
سمندرپار پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں، دنیا کے ہر کونے سے اوورسیز پاکستانی یہاں موجود ہیں، ایک کروڑسے زائد پاکستانی دنیا بھرمیں آباد ہیں۔
شہبازشریف نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے دن رات محنت کر کے پیسے کمائے، اوورسیز پاکستانی ہمارے سروں کے تاج ہیں، ہم آپ کی جتنی قدرکریں وہ کم ہے، اوورسیز پاکستانی اربوں ڈالروطن بھیج رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آپ دنیا بھرمیں پاکستان کا جھنڈا بلند کر رہے ہیں، ہم آپ کوجتنی مراعات دیں وہ کم ہیں، کوئی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، ملک میں دہشت گردی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں، سب جانتے ہیں کون دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، سب کوعلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے 80 ہزار لوگوں نے اپنی جانیں نثار کی ہیں، 2018 میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا، ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی پھیل رہی ہے، سب کودہشت گردوں کے سہولتکاروں کا علم ہے، کون ان کو فنڈنگ کر رہا ہے کون سہولت دے رہاہے؟۔
وزیراعظم نے کہا کہ آرمی چیف کی زبان پر وہی ہوتا ہے جو دل میں ہوتا ہے، آرمی چیف سچے پاکستانی اور زبردست پروفیشنل ہیں۔ وطن کی خاطر خون دینے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی سے بڑا جرم نہیں ہوسکتا، اللہ قرآن میں کہتا ہے شہیدوں کو مردہ نہ کہو، ان کے خلاف برطانیہ میں زہر اگلا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ ان لوگوں کا مقابلہ کریں تاکہ پتہ چلے عظیم پاکستانی ہیں، غزہ اور کشمیر کیلئے ناچیز نے کروڑوں عوام کے جذبات کی عکاسی کی، کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی مدد کریں گے، غزہ میں ہمارے 50 ہزار بھائی بہن شہید کردیے گئے، آج بھی غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی برطانیہ میں اداروں کو گالیاں دینے والوں کا مقابلہ کریں، کسی کی گالی کا جواب دینا مناسب نہیں، مناسب الفاظ میں جواب دیں، اوورسیز پاکستان ویڈیولنکس کی سہولت جلد دی جائے گی، ویڈیولنکس کےذریعےمتعلقہ وزراء سےبات ہوسکتی ہے، چیئرمین نادرا کوفی الفورسہولت دینے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی یونیورسٹیزمیں اوورسیزپاکستانیوں کا کوٹہ رکھا جا رہا ہے، میڈیکل یونیورسٹیز میں بھی 15 فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے، ایف بی آراوورسیز پاکستانیوں کو فائلر کے طور پر ٹریٹ کرے گا۔ میڈیکل یونیورسٹیزمیں بھی 15 فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے، ایف بی آر اوورسیز پاکستانیوں کو فائلر کے طور پر ٹریٹ کرے گا، میرپورمیں عالمی سطح کے ایئرپورٹ کی فیزبیلٹی کا حکم جاری کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانیوں اوورسیز پاکستانی پاکستانیوں کے نے کہا کہ ا دینے والوں ا رمی چیف ہوتا ہے کے خلاف
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔