غزہ کا گمنام ہیرو، پیاسوں تک پانی پہنچانے والا ابراہیم علوش
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
جنگ زدہ غزہ میں جہاں ہر طرف تباہی اور بے بسی کا عالم ہے، وہیں ایک گمنام ہیرو ابراہیم علوش روزانہ پانی کی فراہمی کا مشن انجام دے رہے ہیں۔ اپنے پرانے ٹرک میں پانی بھر کر وہ مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور پیاس سے بلکتے لوگوں تک زندگی کا یہ بنیادی حق صاف پانی پہنچاتے ہیں۔
غزہ میں جاری آبی قلت اب ایک سنگین بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بمباری سے اجڑے راستے، غیر محفوظ گزرگاہیں اور رسائی کی مشکلات، ابراہیم کے کام کو مشکل ضرور بناتی ہیں لیکن ان کے حوصلے کو توڑ نہیں سکتیں۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی نیوز ٹیم نے ابراہیم کے ہمراہ جبالیہ کا سفر کیا، جہاں ایک پانی صاف کرنے والے پلانٹ پر انہیں 5 گھنٹے تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ جب پانی کا ٹینکر بھر جاتا ہے تو وہ ملبے میں گھرے راستوں سے گزر کر ان لوگوں تک پانی پہنچاتے ہیں جو دنوں سے اس نعمت کے منتظر ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی غزہ کے بیپٹیسٹ اسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت
غزہ میں صاف پانی کی پیداوار کے لیے ڈیزل کی اشد ضرورت ہے، لیکن ایندھن کی قلت اور قیمتوں کے ہوشربا اضافے نے حالات کو اور بگاڑ دیا ہے۔ فی کیوبک میٹر پانی کی قیمت 90 سے 100 شیکل تک جا پہنچی ہے، جو مقامی افراد کی پہنچ سے باہر ہے۔ اسی لیے بیشتر افراد امدادی اداروں اور مقامی خیرخواہوں پر انحصار کر رہے ہیں۔
مقامی شہری ایمان کمال کا کہنا ہے کہ پانی کے حصول کے لیے لوگ آدھے دن کی طویل قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، اور کبھی نصیب میں چند گیلن پانی آتا ہے تو کبھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ ایک اور رہائشی، فتحی الخلوط نے کہا کہ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں، جیسے ہی ٹینکر آتا ہے، لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
سمیر بدر، جو غزہ کے ایک اور متاثرہ شہری ہیں، نے شکوہ کیا کہ امداد بند ہو جانے سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اُن کے مطابق، بچے صبح سے شام تک پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی شہری بھی غزہ میں جنگ بندی کے حامی، انوکھے طریقے سے احتجاج
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسف) کے مطابق، غزہ میں پانی کی فراہمی کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ سرحدی راستوں کی بندش، ایندھن کی قلت اور پلانٹس کی مرمت میں رکاوٹوں کے باعث روز بروز بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
فی الحال، 4 لاکھ بچوں سمیت قریباً 10 لاکھ افراد کو روزانہ محض 6 لٹر صاف پانی میسر ہے، جبکہ جنگ بندی کے دوران یہ مقدار 16 لٹر تک پہنچ چکی تھی۔ یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایندھن کی سپلائی بحال نہ ہوئی تو جلد ہی یہ مقدار کم ہو کر صرف 4 لٹر فی کس رہ جائے گی، اور غزہ کے لاکھوں لوگ آلودہ اور غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہو جائیں گے، جس سے بیماریاں تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ابراہیم علوش اقوام متحدہ غزہ غزہ کا گمنام ہیرو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ابراہیم علوش اقوام متحدہ غزہ کا گمنام ہیرو پانی کی
پڑھیں:
بھارت: تقریباﹰ دس سال سے چلنے والا جعلی سفارت خانہ بے نقاب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اترپردیش پولیس کے مطابق، ہرش وردھن جین نامی شخص ضلع غازی آباد کے علاقے کوی نگر میں کرائے کے ایک مکان سے ویسٹارکٹکا کے نام پر ایک غیر قانونی سفارتی مشن چلا رہا تھا۔ ویسٹارکٹکا انٹارکٹکا کے مغربی حصے میں واقع ایک مائیکرو نیشن ہے، جسے کوئی بھی حکومت یا سرکاری ادارہ تسلیم نہیں کرتا۔
پولیس نے بتایا کہ ہرش وردھن جین کے قبضے سے 44.7 لاکھ روپے نقد، لگژری کاریں، جعلی پاسپورٹس، غیر ملکی کرنسی، دستاویزات، اور دیگر کئی اشیاء برآمد ہوئیں جنہیں وہ مبینہ طور پر حوالہ ریکٹ چلانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جین نے خود کو ویسٹارکٹکا کے ساتھ ہی لیڈونیا، سیبورگا کا قونصل اور ایک فرضی ملک پولویہ کا سفیر بھی ظاہر کیا تھا۔
(جاری ہے)
یہ جعلی سفارت خانہ کیسے شروع ہوا؟اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ جین کو 2012 میں سیبورگا (جو کہ اٹلی کے سرحدی علاقے لیگوریا میں واقع ایک گاؤں ہے اور خود کو ریاست قرار دیتا ہے) نے مشیر مقرر کیا تھا اور 2016 میں ویسٹارکٹکا نے اسے اعزازی قونصل نامزد کیا تھا۔
پولیس کے مطابق، جین نے غازی آباد کے ایک پوش علاقے میں واقع اپنے دفتر کو جعلی قونصل خانہ میں تبدیل کر دیا تھا، جہاں اس نے مختلف مائیکرونیشنز (خود ساختہ ریاستوں) کے جھنڈے لہرائے ہوئے تھے اور چار لگژری گاڑیاں استعمال کر رہا تھا جن پر غیر قانونی طور پر سفارتی نمبر پلیٹیں نصب تھیں۔
بدھ کے روز پولیس نے جب 47 سالہ ہرشوردھن جین کو گرفتار کیا، تو ان کے قبضے سے 44.7 لاکھ روپے نقد، ایک آڈی اور مرسڈیز سمیت 4 لگژری گاڑیاں، 20 جعلی سفارتی نمبر پلیٹس، 12 جعلی پاسپورٹ، دو پین کارڈ، 34 مختلف ممالک کے اسٹامپ، 12 قیمتی گھڑیاں، ایک لیپ ٹاپ، ایک موبائل فون اور دیگر دستاویزات برآمد ہوئیں۔
ملزم نے پولیس کو کیا بتایا؟نوئیڈا اسپیشل ٹاسک فورس کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راج کمار مشرا کے مطابق، تفتیش کے دوران جین نے اعتراف کیا کہ وہ تاجروں کو دھوکہ دینے اور حوالہ کا کاروبار چلانے کے لیے جعلی سفارت خانہ چلا رہا تھا۔
مشرا کے مطابق جب تفتیش کے دوران جین سے گاڑیوں، جھنڈوں اور سفارتی نمبر پلیٹس کے بارے میں پوچھا گیا اور ان کی صداقت کا ثبوت مانگا گیا تو ''اس نے اعتراف کیا کہ وہ جعلی سفارت خانہ چلا رہا تھا۔‘‘
جین کو بدھ کے روز یوپی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے اسے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔
پولیس کے مطابق، جین نے بتایا کہ اس نے لندن سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے والد غازی آباد کے ایک صنعت کار ہیں۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ سال 2000 میں خود ساختہ روحانی رہنما چندرا سوامی کے رابطے میں آیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ جین نے خود کو 2016 میں ویسٹارکٹکا کا ’’اعزازی سفیر‘‘ مقرر کیا تھا۔
ویسٹارکٹکا کیا ہے؟ویسٹارکٹکا کوئی حقیقی ملک نہیں بلکہ مائیکرونیشن ہے۔
یہ 2001 میں ایک امریکی شہری ٹریوس مک ہنری نے انٹارکٹکا کے ایک غیر آباد حصے پر دعویٰ کر کے بنایا تھا۔
اس کی ایک ویب سائٹ ہے، وہ خود کو ''گرینڈ ڈیوک‘‘ (اعلیٰ سردار) کہتا ہے، اور اس کا ایک علامتی شاہی نظام بھی بنایا گیا ہے۔
تاہم، ویسٹارکٹکا کو اقوام متحدہ، بھارتی حکومت یا کسی بھی سرکاری ادارے نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
مائیکرونیشنز وہ خود ساختہ ریاستیں ہوتی ہیں جو خود کو خودمختار ملک قرار دیتی ہیں، لیکن دنیا کے بیشتر ممالک یا ادارے جیسے اقوام متحدہ انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت بھی ان مائیکرونیشنز کو تسلیم نہیں کرتا، لہٰذا ان کے کسی سفیر کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ادارت: صلاح الدین زین