سپریم کورٹ میں ترقی پانے کے بعد بھی مسائل کا سامنا رہا، مردانہ ماحول میں جگہ بنائی، جسٹس عائشہ ملک
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جسٹس عائشہ ملک نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ترقی پانے کے بعد بھی مجھے مسائل کا سامنا رہا، اور ایک مردانہ ماحول میں اپنے لیے جگہ بنائی ہے۔
لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ کے آٹھویں ایڈیشن کے افتتاحی روز خطاب کرتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں ثالثی اور تنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کار ضروری ہے، تنازعات کا بروقت فیصلہ ہونا چاہیے، تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ عدالت جانے سے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت تنازعات کے حل کا آخری مقام ہونا چاہیے، مگر ملکی حالات کی وجہ سے عدالت پہلا مقام بن گئی ہے۔ عدالتوں پر جتنا بوجھ اور انحصار ہے اس کی حقیقت میں ضرورت نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ترقی پانے کے بعد بھی مجھے مسائل کا سامنا رہا، میں نے ایک مردانہ ماحول میں اپنے لیے جگہ بنائی، اگر خواتین کو قانون سازی اور پالیسی سازی میں شامل نہیں کریں گے تو قانون مکمل طور پر عمل نہ ہوسکے گا، مجھے قانون سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے اور مشکل سوالات کرنے میں مزہ آتا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی و ماحولیات رابطہ سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ میرے نزدیک ہر طرف سبزہ ہی ماحولیات ہے، ہم ماحولیات کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں، حالانکہ وہ بارشوں، سیلاب اور غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی طاقت کو سمجھنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہمیں قدرتی ماحول بحال کرنا اور اپنانا ہوگا، اپنے رنگ، اپنی خوشیاں، اپنے پھول اور اپنی موسیقی واپس لینا ہوگی، انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، اگر مالی وسائل دستیاب نہیں ہوں گے تو ماحولیات کے حوالے سے اقدامات کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام شیزہ فاطمہ خواجہ نے کہاکہ زراعت، صحت، تعلیم، تجارت اور پیداوار میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، روزمرہ کی بات چیت بھی اب ٹیکنالوجی پر منتقل ہوگئی ہے، ہم ڈیجیٹل دنیا سے نکل مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا میں داخل ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کی دنیا مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ میں آگے نکل گئی ہے۔ اگر ہم دنیا کے ساتھ نہ چلے تو تنہا رہ جائیں۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کی ثقافت ہمہ جہت ہے جو زبان، ثقافت اور تعمیرات سے نظر آتی ہے، حالیہ دنوں میں پُرتشدد واقعات، سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی اور بڑھتی انتہا پسندی بڑے خطرات ہیں۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن قائم کرنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، ملازمت کے مواقع اور انفرااسٹرکچر کے ذریعے انتہا پسندی کو امن میں تبدیل کررہے ہیں، اسمارٹ ایری گیشن اور معیاری بیج کے ذریعے زراعت کو جدید بنایا جارہا ہے، سیاحت میں سوات، چترال اور کمراٹ عالمی معیار کے سیاحتی مراکز بن گئے ہیں۔
’پاکستان مصنوعی ذہانت میں آگے بڑھ سکتا ہے، ڈیٹا سینٹر قائم کرنا ہوں گے‘
اس موقع پر سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (2016-2019) ریٹائڑڈ زبیر محمود حیات نے کہا کہ ہم ایسی دنیا میں داخل ہورہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی صنعتی انقلاب اور عالمی ورلڈ آرڈر لارہا ہے، دنیا میں طاقت کا توازن چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی پیدا کرسکتا ہے، تاہم اس کے لیے ٹیکنالوجی لیڈرز درکار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ٹی ٹریک پر نقصان ہوا ہے، مگر اب بھی پاکستان مصنوعی ذہانت میں آگے بڑھ سکتا ہے، جس کے ڈیٹا سینٹر قائم کرنا ہوں گے اور مصنوعی ذہانت کی لیب بنانی ہوگی، ڈیٹا دنیا میں سب بڑا اسٹریٹجک اثاثہ بن گیا ہے، دنیا میں اس جگہ پہنچ گئی ہے جہاں آرگینک ڈیٹا ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ سینتھٹک ڈیٹا لے رہا ہے۔
اووسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے صدر یوسف حسین نے کہا کہ ہمیں اپنی صلاحیت کے مطابق کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت بن سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی کے لیے حکومت اور صنعت کے درمیان تعاون کو بڑھانا ہوگا، اس مقصد کے لیے او آئی سی سی آئی، پاکستان بزنس کونسل اور پاکستان بینکس ایسوسی ایشن جیسے فورم موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت معیشت مسائل سے کافی حد تک نکل آئی ہے، مستحکم معیشت کے لیے ایک قومی منصوبے کی ضرورت ہے جس میں صنعتی پالیسی، تجارتی پالیسی، انسانی وسائل کی ترقی، ٹیکنالوجی کا استعمال اور مالیاتی اصلاحات کی جائیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک مصنوعی ذہانت سپریم کورٹ کا سامنا دنیا میں رہا ہے ہوں گے کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ اور گواہ کے بیانات میں واضح تضاد موجود ہے۔
ان کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدعی کی موت 3 فٹ کے فاصلے سے چلنے والی گولی سے ہوئی، جبکہ عینی گواہ کے بیان اور وقوعہ کے نقشے کے مطابق فائرنگ کا فاصلہ 40 فٹ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ واقعہ کب کا ہے اور کیا ملزم اس وقت حراست میں ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ واقعہ 2006 میں پیش آیا اور ملزم 2012 سے حراست میں ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ملزم 6 سال تک مفرور رہا، آپ جائے وقوعہ کے نقشے پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ اسی بنیاد پر آپ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں جس میں صرف جائے وقوعہ کے نقشے کی بنیاد پر ملزم کو بری کیا گیا ہو۔
مزید پڑھیں: فخر زمان کو سپریم کورٹ رجسٹرار کا عارضی چارج دے دیا گیا
ملزم کے وکیل نے عدالت سے مہلت مانگی تاکہ عدالتی نظیریں پیش کی جا سکیں۔
عدالت نے وکیل کو ایک ہفتے میں عدالتی نظیریں جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بری جائے وقوعہ جسٹس علی باقر نجفی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ عدالتی نظیر عمر قید میڈیکل رپورٹ