ایران امریکہ مذاکرات اور مزاحمت کی طاقت
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُسوقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔ ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ ولکرسن کی یہ بات درست ہے اور اسی وجہ سے ایران سے براہ راست جنگ کا آپشن صرف دھمکیوں کی حد تک ہے، ورنہ خطے میں تباہی آئے گی، جس کی حرارت یورپ تک محسوس کی جائے گی۔" تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کے فیصلے بھی آخرکار مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں باصلاحیت مذاکرات کار ہونا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پچھلے کچھ عرصے میں مذاکرات اور سفارتکاری میں حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایک ہی وقت میں بہت سے محاذوں پر خود کو مصروف کرنا آپ کی طاقت اور توجہ کو تقسیم کر دیتا ہے۔ اس سے نتائج آپ کی مرضی کے مطابق نہیں آتے اور چیزیں آپ کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے بڑے طریقے سے عربوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرایا اور انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ شہید آیت ابراہیم رئیسیؒ کی مذاکراتی پالیسی بہت زبردست رہی کہ انہوں نے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ اپنی سفارتکاری سے تعلقات کو بحال کر لیا۔
باہمی کشمکش سے نکل کر ایک ہی محاذ پر یکسوئی کے ساتھ مصروف کار ہوگئے۔آج سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان تہران پہنچ چکے ہیں اور ان کے اعلیٰ سطحی مذاکرات جاری ہیں۔ جب دشمن آپ کو تنہاء کرنا چاہتا ہے اور آپ کی انسانی جدوجہد کو فرقہ واریت کی نذر کرنا چاہتا ہے تو ایسے میں مسلسل بین الاقوامی رہنماوں کی آپ کے دارالحکومت میں آمد آپ کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی وقت ایران کے وزیر خارجہ ماسکو پہنچ چکے ہیں، جہاں روسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔ یہ عملی طور پر طاقت کا اظہار ہے اور اپنے اتحادیوں اور پڑوسیوں کو مشکوک بنانے کی بجائے انہیں اپنی طاقت بنانے کی حکمت عملی ہے۔
عمان میں مذاکرات کا ایک دور ہوچکا ہے اور دوسرے دور کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ ان مذاکرات میں عمان کے وزیر خارجہ ثالثی کا کردار ادا کیا۔ عمان میں عمانی ثالثی میں مذاکرات اسلامی جمہوریہ ایران کی پہلی کامیابی ہے کہ اپنی پالیسی کے مطابق عمل کیا گیا۔ یوں لگ رہا ہے امریکہ اور بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ بہت جلدی میں ہیں۔ وہ مذاکرات کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں، ایران نے بھی مذاکرات میں غیر ضروری تاخیر کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے مسائل کو بھول بھلیوں میں ڈالنے کی بجائے حل کرنے کی بات کی ہے۔
امریکہ جو بات سامنے کر رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے تو اتفاق سے یہ وہی بات ہے، جس کا فیصلہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا دو ہزار تین کا فتویٰ کرچکا ہے کہ ایسے انسانیت سوز ہتھیار بنانا شرعی طور پر درست نہیں ہے۔ یہاں مغرب پسندوں کو امن کے عالمی انعامات دیئے جاتے ہیں، اگر انصاف پسندوں کی جیوری ہوتی تو اس فتویٰ پر آپ کو امن کا نوبل پرائز دیا جانا چاہیئے تھا۔ اس وقت اسرائیل، ایران امریکہ مذاکرات سے بہت پریشان ہے۔ اسرائیل میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ قابل اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ یہ امن کا اور مسئلے کو حل کرنے کا کریڈت لینے کے چکر میں ایران کے ساتھ کوئی ڈیل کر لے۔ اسرائیل ہر صورت میں ڈیل کے خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ ہر صورت میں حملہ کیا جائے۔
ابھی نیویارک ٹائمز نے امریکی انتظامیہ کے حکام اور دیگر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ شائع کی۔ اخبار کے مطابق اسرائیل نے مئی میں ان مقامات پر حملے کے منصوبے تیار کیے تھے، جن کا مقصد ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ پیچھے دھکیلنا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ نہ صرف ایران کی جوابی کارروائی سے اسرائیل کے دفاع کے لیے بلکہ حملے کو کامیاب بنانے کے لیے بھی امریکی مدد درکار تھی۔ مہینوں کی اندرونی بحث کے بعد ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، بجائے اس کے کہ وہ فوجی کارروائی کی حمایت کریں۔ اس طرح کی رپورٹس ایسے وقت میں شائع کرائی جا رہی ہیں، جب امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ہوچکا ہے اور دوسرا ہونے جا رہا ہے۔
ان کا مقصد ایران کو دباو میں لانا بھی ہے، چند دن پہلے امریکہ کی طرف سے بیان آیا تھا کہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اسرائیل کی قیادت میں ایران پر حملہ کیا جائے گا۔ یہ سب نفسیاتی دباو کے حربے ہوتے ہیں۔ اسی پیرائے مین دیکھیں تو اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ رافائل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے بہت دور نہیں ہے۔ گروسی تہران کا دورہ کر رہے ہیں، انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات بھی کی۔ آج جمعرات 17 اپریل کو ان کی ایران کی جوہری توانائی کی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی سے بھی ملاقات ہو رہی ہے۔ یہ سب ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ جس میں پوری حملہ آور قوت کو خطے میں بھیج دیا گیا ہے، اسرائیل کیا کرنا چاہتا ہے، اسے پھیلایا جا رہا ہے اور ایٹمی ایجنسی کے ذریعے سے بین الاقوامی رائے عامہ کو بھی گمراہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ امن طاقت اور قربانی سے ملتا ہے، بغیر طاقت اور قربانی کے ملنے والی چیز نہیں ہے۔ آج مزاحمت کی طاقت ہے کہ امریکہ ایران سے مذاکرات کر رہا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ خطے میں سمندری تجارت ختم ہوچکی ہے، مسلسل امریکی جہازوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ پوری طرح سے تیار ہیں۔شام کے جشن منانے والے سوڈان پر سوگ منا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی دفاعی حکمت عملی پر بہت زیادہ کام کیا ہے، آج اسی وجہ سے اس کا دفاع مضبوط ہے۔ کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی۔ یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔
ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔ ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ ولکرسن کی یہ بات درست ہے اور اسی وجہ سے ایران سے براہ راست جنگ کا آپشن صرف دھمکیوں کی حد تک ہے، ورنہ خطے میں تباہی آئے گی، جس کی حرارت یورپ تک محسوس کی جائے گی۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران امریکا کے جا رہا ہے کہ ایران ایران کی ایران کے چاہتا ہے ایران سے ہے اور ا کے ساتھ نہیں ہے کے خلاف کے لیے جنگ کا کیا جا
پڑھیں:
غزہ، مزاحمت کاروں کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے مزاحمتی حملہ کے بعد زخمیوں کو علاقے سے نکالا۔ چند روز قبل غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت حانون میں القسام بریگیڈز کی جانب سے گھات لگا کر کیے گئے حملے میں ایک اسرائیلی افسر ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ شمالی غزہ کی پٹی میں مزاحمت کاروں اور قابض اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور سات دیگر زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی میں جھڑپوں میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے مزاحمتی حملہ کے بعد زخمیوں کو علاقے سے نکالا۔ چند روز قبل غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت حانون میں القسام بریگیڈز کی جانب سے گھات لگا کر کیے گئے حملے میں ایک اسرائیلی افسر ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔