ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اطلاعات کی قیمت سچ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جملہ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب یہ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز مٹا چکا ہے۔ یہ مختصر مگر خطرناک فقرہ آج کے معاشرے کے لئے ایک ناسور بن چکا ہے۔ اس جملے کی آڑ میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر تحقیق کے کچھ بھی شیئر کرے اور بری الذمہ ہو جائے۔”
’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ لکھ دینے سے نہ تو سچ جھوٹ میں بدلتا ہے اور نہ ہی اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب ہوتا ہے: میں ذمہ دار نہیں ہوں، بس مجھے یہ ملا اور میں نے آگے بڑھا دیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر آپ ذمہ دار نہیں تو پھر یہ کام کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا ہم اس قدر غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں کہ ہم دوسروں کی زندگیوں، شہرت، عزت اور ریاست کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں وہ بھی صرف ایک کلک یا لائیک کی خاطر؟ یہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہا بلکہ معاشرتی رویوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ کسی کے بارے میں کوئی افواہ ہو، کوئی سیاسی یا مذہبی مسئلہ ہو یا ریاستی اداروں کے خلاف کوئی پراپیگنڈہ، ہم بغیر سوچے سمجھے اسے مزید لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اسی ناسور کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اطلاعات بغیر تحقیق کے آگے بڑھائی جاتی ہیں جو نہ صرف ریاست کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ پوری قوم کے ذہنوں میں بے یقینی اور مایوسی پیدا کرتی ہیں۔آرمی چیف نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہو۔‘‘(سورۃ الحجرات: آیت 6) قرآن پاک کا یہ واضح حکم صرف ایک دینی ہدایت نہیں بلکہ معاشرتی استحکام کی بنیاد ہے۔ سچ اور تحقیق کا حکم کسی بھی معاشرے کو فتنہ، فساد اور بربادی سے بچاتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف ہمیں اپنے دین کی پیروی کرنی ہے، دوسری طرف ایک مہذب شہری کے طور پر ذمہ دار رویہ اپنانا ہے۔ ہم کیسے دعوی کریں کہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں جب ہم خود ہی اس کے احکام کو نظر انداز کرتے ہیں؟ کیا ہماری انگلیوں کا ایک کلک کسی کی عزت پامال کرنے، کسی خاندان کو برباد کرنے یا کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھانے کے لئے کافی ہونا چاہیے؟ سوشل میڈیا کی آزادی ایک نعمت تھی مگر ہم نے اسے زحمت بنا دیا ہے۔ ہم ہرچیز کو سنسنی خیزانداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں، جھوٹی خبروں میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کا سہارا لےکر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔ آج ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور یہاں تک کہ کچھ صحافی بھی اس ناسور کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر ایک کو سب سے پہلےخبر دینےکی دوڑ میں سچ کی قربانی دی جا رہی ہے۔ جھوٹے بیانیے گھڑ کر ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ اور حکومت پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس میں لوگ مایوسی، بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف کا یہ کہنا کہ پاکستان کے بارے میں افواہیں پھیلا کر تاثر دیا جاتا ہے کہ ریاست وجود کھو چکی ہے، لیکن ہم قوم کے ساتھ مل کر ہر مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ درحقیقت ایک انتباہ ہے ان سب کے لئے جو سوشل میڈیا کو انتشار کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ یہ صرف فوج کی یا کسی ادارے کی جنگ نہیں یہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اپنا کردار درست نہ کیا تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیں گے۔یہاں ہمیں بطور مسلمان خود سے سوال کرنا ہوگا: کیا ہم اپنی زبان، قلم اور اب اپنی انگلیوں سے ہونے والے گناہوں سے واقف ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جھوٹی خبر کو آگے بڑھانا بھی جھوٹ بولنے کے مترادف ہے؟ کیا ہم نے کبھی توبہ کی ہے ان ’’فارورڈز‘‘ پر جو کسی کی بدنامی، کسی کے قتل، یا کسی بغاوت کا باعث بنے؟اسلام نے ہمیشہ زبان اور کلام پر قابو رکھنے کی تلقین کی ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان لایا، وہ یا تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(صحیح بخاری و مسلم)تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم کچھ بھی شیئر کرنےسے پہلے تحقیق کر لیں؟ اگر ہم تحقیق نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کریں۔ خاموشی بھی ایک عبادت ہے خاص طور پر جب وہ کسی فساد یا فتنے کو روکنے کا ذریعہ بنے۔
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال صرف جھوٹی خبریں پھیلانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ قوموں کو تقسیم کرنے، ریاستوں کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے اور نسلوں کو گمراہی میں ڈالنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بطور فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ کسی بھی خبر، ویڈیو یا تحریر کو آگے بڑھانے سے پہلے تحقیق کریں۔ اگر تحقیق ممکن نہیں تو خاموشی اختیار کریں۔ اسلامی تعلیمات کو زندگی میں عملی طور پر اپنائیں۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ جیسی خود غرضانہ روش ترک کریں۔اختتامیہ یہی ہے کہ آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ درآصل سچ اور ذمہ داری سے فرار کا بہانہ ہے۔ سچ بولنا، سچ کو پھیلانا، اور جھوٹ سے اجتناب صرف ایک دینی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی ہے۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھنے والے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسا کوئی بہانہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا ذریعہ بن سوشل میڈیا کے لئے کیا ہم چکا ہے اگر ہم
پڑھیں:
محمد عامر کا پی ایس ایل اور آئی پی ایل میں شرکت پر فیصلہ
پاکستان کے سابق فاسٹ بولر محمد عامر نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی اور بھارتی کرکٹ لیگز میں شرکت کے حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنے والے محمد عامر نے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ اگر پی ایس ایل اور آئی پی ایل کے شیڈول میں ٹکراؤ ہو تو وہ کس لیگ کا انتخاب کریں گے۔ اس پر انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا کہ اگر مجھے دونوں میں سے کسی ایک میں شرکت کا موقع ملا تو میں آئی پی ایل کو ترجیح دوں گا اور اس بات کا کھلے عام اظہار کرتا ہوں محمد عامر نے مزید کہا کہ اگر انہیں ایسا موقع نہیں ملتا تو پھر وہ پی ایس ایل میں حصہ لیں گے۔ ان کے مطابق آئندہ برس بھارتی کرکٹ لیگ میں حصہ لینے کا موقع مل سکتا ہے، اور اگر ایسا ہوا تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ آئندہ برس دونوں لیگز ایک ہی وقت پر ہوں گی، اس مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی کے باعث شیڈول میں ٹکراؤ آیا محمد عامر نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر انہیں پہلے پی ایس ایل میں منتخب کر لیا گیا تو وہ دستبردار نہیں ہو سکیں گے اس صورت میں انہیں ٹورنامنٹ میں شرکت پر پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے محمد عامر نے یہ بھی یاد دلایا کہ وہ اس وقت برطانوی شہریت کے حامل ہیں اور اس کے باوجود ان کا کرکٹ کی دنیا میں بڑا مقام ہے