Express News:
2025-11-03@19:55:39 GMT

کوہ قاف میں چند روز

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

کچھ مقامات صرف جغرافیہ نہیں ہوتے وہ خواب ہوتے ہیں، وہ وہم و گمان کی دھند میں چھپی ہوئی ایسی حقیقتیں ہوتے ہیں جو اچانک سامنے آ کر دل کو چھو جاتی ہیں۔ آذربائیجان کا پہلا سفر، خاص طور پر باکو کی سرزمین پر پہلا قدم میرے لیے ایک ایسا ہی خواب تھا۔ ایک ایسا خواب جو ہر لمحہ، ہر منظر، ہر لمس میں حقیقت بنتا گیا۔ جس میں پہاڑوں کی پرچھائیاں تھیں، تاریخ کی سانسیں، ہوا میں گھلی محبت، اور آنکھوں میں بس جانے والے مناظرتھے۔

باکو کے سفر کا سبب بنا پی آئی اے جس کی پہلی پرواز نے لاہور سے باکو کے لیے اُڑان بھری،چار گھنٹے تیس منٹ کی پرواز کے بعد طیارے نے باکو کی سرزمین کو چھوا تو دل میں جیسے کوئی پُرانا ترانہ بج اٹھا۔ ائر پورٹ پر مسافروں کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ باکو ائر پورٹ کے ڈائریکٹر کے علاوہ پاکستان کے سفیر محترم قاسم محی الدین بھی موجود تھے۔

ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی جس شے نے مجھے اپنی گرفت میں لیا وہ باکو کی خنک ہوا تھی، وہ ہوا جس میں نمکین بحیرہ کیسپین کی خوشبو بھی تھی اور کوہ قاف کی برفوں کی ٹھنڈک بھی تھی۔باکو شہر میں ایک طرف وہ تاریخی دیواریں ہیں جن کے اندر صدیوں پرانی ثقافت اور تہذیب سوئی نہیں ہے بلکہ سانس لیتی ہے۔ اور دوسری طرف جدید عمارات ہیں۔

 باکوکا پرانا شہر ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔ نظامی کے علاقے میں پتھریلی گلیوں میں چلتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے ہر دیوار، ہر دروازہ کوئی پرانا راز سنانا چاہتا ہے۔ یہاں کے بازار،  عمارتیں اور گلیاں صدیوں پرانی محبت کی گواہی دیتی ہیں۔پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ کوہ قاف کے بلند بالا پہاڑوں سے پریاں اترتی ہیں، باکو میں ان پریوں کو دیکھ بھی لیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو حسن ِ بے نیاز سے نوازا ہے۔ باکو وہ مقام ہے جہاں آسمان زمین کو چھوتا ہے۔

جہاں خاموشی بولتی ہے اور ہوا خوشبو بن کر آپ کے وجود میں اترتی ہے۔ آذربائیجان کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے مگر افسوس کہ یہاں پر آذان کی آواز سنائی نہیں دیتی، سوویت یونین کے اثرو رسوخ کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ سیکولر آذربائیجان میں ہر طرح کی آزادی ہے۔ مسجدیں بھی ہیں اور مے خانے بھی جا بجا کھلے ہیں۔

صفائی ستھرائی کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ کہیں کوئی گندگی نظر نہیں آتی ۔ وسیع وعریض شاہراہیں ہیں، ٹریفک نہایت منظم انداز سے رواں رہتی ہے۔سیکیورٹی کے مسائل بالکل بھی نہیں ہیں، سیاح بے خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاحتی سفر کیے ہیں، دنیا کے ہر ملک میں ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ مہنگی ہے لیکن باکو میں ٹیکسی ، بسوں اور ٹرین کا سفر انتہائی سستا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار ہیں، یہ اس درخت کی مانندہیں جن کی جڑیں زمین میں ہیں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں۔

سادہ مہمان نواز اور دل سے بات کرنے والے ہیں۔ گو کہ انگریزی زبان سے نابلد ہیں، ان کی زبان اگرچہ آذری ہے مگر دل کی زبان میں کوئی ترجمہ درکار نہیں ہوتا۔ جب میں نے کسی دکاندار یا راہ چلتے بزرگ کو بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں تو چہرے پر جو روشنی آئی وہ لفظوں میں نہیں سماتی۔وہ ہر جگہ پاکستان کا ذکر عزت سے کرتے ہیں اور ہر موقع پر بھائی چارے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک شکرگزاری ہوتی ہے،شاید اس لیے کہ پاکستان نے ان کی آزادی کے دنوں میں پہلا ساتھ دیا اور آج تک دیا ہے۔پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی مختلف جگہوں پر لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔

آذری کھانوں کی بات نہ کی جائے تو یہ داستان ادھوری رہے گی ۔ڈولما،قُتب ،شاشلک اور ان کے مختلف ذائقوں والے پلاؤ ہیں۔ یہ صرف کھانے نہیں،ایک ثقافتی تجربہ ہوتے ہیں خاص طور پر جب یہ روایتی آنگنوں میں تانبے کے برتنوں میں اور آذری موسیقی کے ساتھ پیش کیے جائیں۔ آذری چائے ایک رواج ہے، ایک رسم ہے اور ایک محبت کا اظہار ہے۔ ہر ملاقات ہر وداع،ہر سفر، اور ہر جذبہ چائے کے ایک شیشے کے جام میں سمو دیا جاتا ہے۔ اکثر چائے کے ساتھ لیموں اور مقامی مٹھائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں، جیسے محبت کے الفاظ کسی میٹھے ذائقے میں گھول دیے گئے ہوں۔

ترک ثقافت کا بھی گہرا اثر ہے ۔ آذری زبان ترکی سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں روسی زبان بھی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ رات کا وقت، باکو کا ساحل اور سامنے فلیئم ٹاورز کی روشنی میں ناچتی ہوئی شعلہ نما عمارات یہ منظر کسی خواب سے کم نہیںہے، ہر لمحہ ایک اور کہانی سناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات نے اپنے رنگ یہاں انڈیل دیے ہوں۔شہر میں جدیدیت ہے، مگر بے روح نہیں ہے ،ہر عمارت میں فن ہے، ہر گلی میں کوئی ساز ہے ۔ یہاں جدیدیت بھی ثقافت کی جھلک لیے ہوئے ہے، اور ہر شخص فخر سے اپنے ماضی سے جڑا ہوا ہے۔

میرا یہ دورہ ایک سیاحتی سفر سے کہیں بڑھ کر تھا۔ میں نے دیکھا، سنااور محسوس کیا وہ تعلق جو دونوں ملکوں کے درمیان محض کاغذی نہیں بلکہ جذباتی ہے۔ آذربائیجان میں جب بھی پاکستان کا نام آیا وہ صرف ایک ملک نہیں ایک بھائی کی حیثیت سے لیا گیا۔ کشمیر ہو یا کاراباخ دونوں اقوام نے ہمیشہ ایک دوسرے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ واپسی کی شام تھی۔ باکو کی روشنیاں مدھم ہو رہی تھیں۔ ہوا میں ایک الوداعی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ ائر پورٹ پرمیرے ہاتھ میں آذری چائے کا آخری جام تھا اور دل میں ایک وعدہ کہ یہ کوہ قاف کے خوبصورت لوگوں سے پہلی ملاقات ہے مگر آخری ہرگز نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: باکو کی کوہ قاف میں ایک ان کی ا

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد