سعودی عرب: سیاحت کے شعبے میں 41 پیشوں کو مقامی بنانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
سعودی عرب میں سعودی وزارت برائے انسانی وسائل اور سماجی ترقی نے وزارت سیاحت کے ساتھ شراکت کرتے ہوئے نجی شعبے کے اداروں میں سیاحت سے متعلق 41 پیشوں کو مقامی بنانے کا فیصلہ جاری کیا ہے۔ یہ اقدام سعودی شہریوں مرد اور خواتین دونوں کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کے حصے کے طور پر کیا گیا ہے۔
اسی فیصلے کو تین مرحلوں میں لاگو کیا جائے گا۔ اس میں میں 41 لیڈر شپ اور خصوصی پیشوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ان پیشوں میں ہوٹل مینیجر، ہوٹل آپریشنز مینیجر، ہوٹل کنٹرول مینیجر، ٹریول ایجنسی مینیجر، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ مینیجر، ٹورازم ڈیولپمنٹ ماہر، ٹورازم گائیڈ ماہر، ٹورازم آرگنائزر، ہوٹل سپیشلسٹ، سائٹ گائیڈ، پرچیزنگ اسپیشلسٹ، سیلز اسپیشلسٹ اور ہوٹل ریسپشن کے پیشے شامل ہیں۔
فیصلے پر عمل درآمد کا پہلا مرحلہ 22 اپریل 2026 سے شروع ہوگا۔ دوسرا مرحلہ 3 جنوری 2027 سے شروع ہوگا اور تیسرا اور آخری مرحلہ 2 جنوری 2028 کو شروع ہوگا۔ بیان کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق تمام نجی سیاحتی سہولیات پر کیا جائے گا۔ دریں اثنا انسانی وسائل اور سماجی ترقی کی وزارت نے اپنی ویب سائٹ پر مطلوبہ پیشوں کے حوالے سے طریقہ کار پر مبنی گائیڈ لائن جاری کی ہے۔ یہ گائیڈ آجروں اور کاروباروں کو سعودائزیشن کا حساب لگانے کے طریقہ کار اور خلاف ورزی کرنے والوں پر عائد سزاؤں کو سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔