پشاور(نیوز ڈیسک)خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحتی مقام گلیات سے مری کو پانی کی سپلائی میں مزید توسیع اور نئی پائپ لائن بچھانے کے عمل کو روک کر، 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی پر نظرِ ثانی کا عمل شروع کر دیا ہے۔

گلیات میں پانی کی شدید قلت، معاملہ کیسے اٹھا؟
خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن رجب علی عباسی نے گلیات میں پانی کی شدید قلت اور وہاں سے مری کو مفت پانی کی فراہمی کے معاملے کو اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیات کی مقامی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے، جبکہ ان کا پانی مفت میں مری کو دیا جا رہا ہے اور کوئی آبپاشی فیس (آبیانہ) وصول نہیں کی جا رہی، جو ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مری واٹر بورڈ مفت پانی حاصل کر کے مری کے صارفین سے فیس وصول کر رہا ہے، جبکہ گلیات کے مقامی افراد پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے غیر معمولی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔

نئی پائپ لائن بچھانے کا عمل روک دیا گیا
گلیات سے منتخب اراکین نے پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیا اور بتایا کہ گلیات ایک سیاحتی علاقہ ہے لیکن وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ گلیات سے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی نذر احمد عباسی نے بتایا کہ مری کو پانی کی سپلائی ان کے علاقے درویش آباد سے ہوتی ہے، لیکن اب وہاں کی مقامی آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت گلیات سے مری کو پانی کی فراہمی کے لیے مزید پائپ لائن بچھا رہی تھی، جسے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلیات میں گورنر ہاؤس کے قریب واٹر ٹینکس بنائے گئے ہیں، جہاں پانی کو ذخیرہ کرکے اپ لفٹ کیا جاتا ہے اور پھر ڈونگا گلی میں انگریز دور کے اسٹیل ٹینک میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے پانی مری کو بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپ لفٹ کا خرچہ بھی صوبائی حکومت برداشت کر رہی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے مری کے لیے نئی لائن بچھانے کے منصوبے کو روک دیا ہے۔ مزید برآں، اس پورے معاملے کو سیاحتی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ پانی کی تقسیم، اخراجات اور قانونی حیثیت پر جامع رپورٹ پیش کی جا سکے۔

سپریم کورٹ کا مقامی آبادی کے حق میں فیصلہ
رکن اسمبلی نذیر عباسی نے بتایا کہ اس معاملے پر مقامی لوگ سپریم کورٹ گئے اور کیس کیا۔ عدالت نے مقامی آبادی کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 سال قبل عدالت میں جو رائیلٹی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، وہ 40 سے 50 ارب روپے بنتا ہے۔ مری واٹر بورڈ کا مؤقف تھا کہ پانی کی فراہمی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی رائیلٹی طے ہوئی تھی۔

نذیر احمد عباسی نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مری واٹر بورڈ اس مفت پانی کو آگے بیچ کر پیسے کما رہا ہے، جبکہ جس علاقے سے پانی آ رہا ہے، وہاں کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور انہیں ان کا آئینی حق نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلیات کو رائیلٹی کی مد میں ادائیگی کی جائے تو اس سے پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے اور مقامی آبادی کو فراہمی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

معاملہ سیاحتی کمیٹی کے حوالے، پنجاب حکام کو بھی بلانے کی ہدایت
معاملے پر وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے بھی بات کی اور کہا کہ پنجاب صوبے کے وسائل کو استعمال تو کر رہا ہے لیکن رائیلٹی ادا نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی اور اس پر حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اراکین نے اسپیکر خیبر پختونخوا سے مری کو پانی کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کے لیے رولنگ دینے کی درخواست کی، جس پر اسپیکر نے کہا کہ عام شہریوں کو پینے کا پانی بند کرنا درست نہیں۔ جو توسیع ہو رہی تھی، اسے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملے کو اسمبلی کی سیاحتی کمیٹی کے سپرد کیا اور ہدایت دی کہ تمام متعلقہ حکام کو بلا کر پوچھ گچھ کی جائے اور پنجاب کے حکام کو بھی بلایا جائے۔

مری کو گلیات سے پانی کی فراہمی کب شروع ہوئی تھی؟
رکن اسمبلی اور گلیات کے رہائشی نذیر احمد عباسی کے مطابق، مری کو پانی کی فراہمی 1896 سے ہو رہی ہے۔ اس وقت گلیات میں پانی کی قلت نہیں تھی اور پانی لینے والے بااختیار اور طاقتور ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پانی کے بدلے نارتھ ویسٹ کو پنجاب سے گندم کوٹہ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ نذیر عباسی نے کہا کہ اس وقت سے مری کو پانی کی فراہمی جاری ہے۔

گلیات سے یومیہ مری کو کتنا پانی جاتا ہے؟
رکن اسمبلی نذیر عباسی کے مطابق، گلیات سے مری کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کی فراہمی جاری ہے اور یومیہ پانچ لاکھ گیلن پانی مری کو بھیجا جاتا ہے، جس سے مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یومیہ مفت پانی صوبائی حکومت کے خرچ پر مری کو سپلائی کرنا ناانصافی ہے اور حکومت اب اس پر باقاعدہ کام کر رہی ہے تاکہ مقامی آبادی کو انصاف اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی، جس کی روشنی میں معاملہ وفاق اور پنجاب کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور اگر بات نہ بنی تو پانی کی فراہمی بند بھی کی جا سکتی ہے۔

مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر انحصار
پنجاب کے مشہور مقام سیاحتی مری کا پانی کے لیے خیبر پختونخوا پر انحصار ہے۔ اور گلیات سے فراہم پانی کو ہوٹلز اور گھروں سپلائی کیا جاتا ہے۔ مری کے مقامی رہائشی نے بتایا کہ مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر ہے جبکہ 30 فیصد تک مقامی سطح ہر پانی دستیاب ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ خیبر پختونخو اگر پانی کی فراہمی بند کرتی ہے یا کم بھی کرتی ہے تو اس کا مری میں زندگی پر بہت زیادہ منفی اثر پڑے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو سیاحت کو نقصان پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مری کو پانی کی فراہمی سے مری کو پانی کی انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سیاحتی کمیٹی نے بتایا کہ معاملے کو گلیات میں گلیات سے مفت پانی سے پانی کا پانی جاتا ہے پانی کے دیا گیا روک دیا کہ مری کو بھی کیا جا رہی ہے ہے اور رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • بنوں میں اہم جرگہ، فتنۃ الخوارج اور سہولت کاروں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
  • بنوں میں اہم جرگہ، فتنہ الخوارج کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ
  • پاکستان میں پانی کے ذخائر میں مزید کمی، تربیلا ڈیم کی سطح 9 فٹ کم
  • بنوں میں اہم جرگہ، فتنۃ الخوارج اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
  • خیبرپختونخوا: طوفانی بارش ، ژالہ باری اور سیلاب نے تباہی مچا دی،مکان منہدم،پانی گھروں میں داخل
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • وفاق سے 700 ارب ملنے کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت قیام امن میں ناکام ہے، فیصل کریم کنڈی