وزارت خارجہ بھارتی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوتوں پر مبنی کیس پر متعلقہ فورمز سے باضابطہ رجوع کرے گی، وزیراعظم کی منظوری کے بعد عالمی فورمز کے حکام سے وفود کی سطح پر ملاقاتیں، رابطے کیے جائیں گے

بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے اور شدت پسند گروپس کی سرپرستی اور فنڈنگ سمیت دیگر ذرائع سے مددکے ثبوت سلامتی کونسل سمیت تمام عالمی فورمز کو بھیجنے کی تیاری

حکومت نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت عالمی فورمز پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس حوالے سے وزارت خارجہ بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوتوں پر منسلک مربوط کیس تیار کرکے متعلقہ فورمز سے باضابطہ رجوع کرے گی۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد عالمی فورمز کے حکام سے وفود کی سطح پر ملاقاتیں اور رابطے کیے جائیں گے ۔وفاقی حکومت کے اہم ذرائع نے بتایا کہ پہلگام واقعہ کے بعد مودی حکومت پاکستان پر کسی الزام کو ثابت کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے ، اس ناکامی کو چھپانے کے بھارتی میڈیا پر محض پروپیگنڈا کیا جارہا ہے ، اس نام نہاد جھوٹے پہلگام واقعہ کے بعد مودی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔وفاقی حکومت نے مودی حکومت کے جھوٹے الزامات کا بھرپور سفارتی جواب دینے کے لیے اپنی حکمت عملی طے کرلی ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ اس حکمت عملی کے تحت وزارت خارجہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے اور شدت پسند گروپس کی سرپرستی کرنے اور فنڈنگ سمیت دیگر ذرائع سے مدد کرنے کے ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت تمام عالمی فورمز کو بھیجے گی۔عالمی فورمز کو باور کرایا جائے گا کہ پاکستان ہر سطح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور خود دہشت گردی کا شکار ہے ، پاکستان میں بھارت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے عالمی برادری اس کا نوٹس لے اور مودی حکومت کو اس اقدام سے باز رکھے ، پاکستان اپنی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی دبائو قبول نہیں ہوگا، بھارت کو پہلگام واقعہ پر اپنی غلط پالیسی اور فیصلوں کو واپس لینا ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان نے بھارتی الزامات اور نام نہاد و جھوٹے پروپیگنڈے سے دوست ممالک کو آگاہ کردیا ہے اور دوست ممالک نے اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا کہا ہے ۔بھارت کو پاکستان کی موثر سفارتی حکمت عملی کے سبب اس محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا ہے ، وفاقی حکومت بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے معاملے پر مربوط جوابی کیس تیار کررہی ہے ۔اس حوالے سے ورلڈ بینک، عالمی عدالت انصاف اور عالمی فورمز پر وزیراعظم کی منظوری سے جلد رجوع کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کے حکام کے مطابق اس کیس میں بھی پاکستان کو کامیابی ملے گی ۔وفاقی حکومت اس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور مشاورت سے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی یا مزید کوئی فیصلہ کرے گی۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات

پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کی ایک بڑی کنجی داخلی سیاست ،معیشت اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات ضروری ہیں۔ عالمی سیاست کی اہمیت اپنی جگہ مگر پہلی ترجیح علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت منوانا ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر جب پاکستان اپنا مقدمہ علاقائی یا عالمی سیاست میں لڑتا ہے تو اس کی کامیابی کا بڑا انحصار بھی اس کی داخلی سیاست کے استحکام سے جڑا ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم داخلی محاذ پر کمزور ہوں تو پھر سفارت کاری کے محاذ پر مشکلات پیش آتی ہیں۔دیگر ممالک ہماری داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر ہمارے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط بناتے ہیں۔

علاقائی سیاست کے جو بھی تنازعات ہیں ان کا حل دو طرفہ بات چیت ہی سے ممکن ہے۔جنگ یا تنازعات کو ابھارنا یا خود کو اس میں الجھائے رکھنا مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ہمیں اور زیادہ مسائل میں الجھا دیتی ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری علاقائی سیاست کے تنازعات اور تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ہم مشترکہ طور پر اعتماد سازی کے فقدان کا شکار ہیں اور کسی بھی طور پر ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی سطح پر جو بھی سیاسی ،سماجی ،معاشی ، سیکیورٹی کے فورمز موجود ہیں وہ عدم فعالیت کا شکار ہیں ۔

مثال کے طور پر سارک فورم ہی کو دیکھ لیں جو نہ فعال ہے اور نہ ہی علاقائی ممالک کے درمیا ن جو بھی تنازعات ہیں ان کو ختم کرنے میں کوئی بڑ ا کردار ادا کرسکا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اہل سیاست یا پڑھے لکھے سنجیدہ افراد بھی اب ان فورم کی کارکردگی اور صلاحیت سے نالاں یا مایوس نظر آتے ہیں۔ علاقائی سیاست میں دہشت گردی یا انتہا پسندی ایک بڑا خطرہ ہے ۔

عمومی طور پر علاقائی ممالک کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی اپنی ناکام حکمت عملیوں پر خود کو ذمے دار سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ زیادہ تر حکمت عملی میں اپنی ناکامیوں کو چھپا کر علاقائی ممالک ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کررہے ہیں۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ ہم دہشت گردی کے بارے میں تو زیادہ حساس نظر آتے ہیں مگر دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنی توجہ سیکیورٹی امور تک محدود کرکے معاملات کو دیکھتے ہیں ۔حالانکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں سیاسی، سماجی اور معاشی فورمز کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی ممالک کی ترقی میں ان فورمز کی فعالیت ،دو طرفہ تعلقات اور باہمی عوامی رابطوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔لیکن علاقائی ممالک اس میں ناکام ہیں اور وہ تنہا ہی معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی بالادستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ علاقائی سطح پر سارک فورم سمیت جو بھی دیگر فورمز ہیں ان کی عدم فعالیت میں بھارت کی حکمت عملی کا بھی بڑا دخل ہے ۔کیونکہ بھارت علاقائی سیاست میں ایک بڑا ملک ہے مگر وہ اس میں مثبت اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی وجہ سے یہ فورمز وہ کچھ نہیں کر پارہے جو ان کی ذمے داری یا دائرہ کار میں آتے ہیں۔

مثال کے طور پر بھارت براہ راست پاکستان کی ریاست کو دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔ پاکستان جیسی ریاست جو خود دہشت گردی کا شکار ہواور جس نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف بڑی جنگ لڑی ہے بلکہ بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔اس لیے یہ الزام کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اس سے دونوں ملکوں سمیت علاقائی استحکام بھی ممکن نہیں ہوگا۔

علاقائی سطح پر دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل جہاں دو طرفہ تعلقات ، بات چیت ہے وہیں دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اور میکنزم پر اتفاق رائے اور اس پر عمل درآمد پر ہر ملک کا اپنا اپنا اور پھر ایک اجتماعی کردار بھی ہے۔محض ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے کے امکانات کو محدود کرکے بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ شدت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں کوئی ایک ملک تن تنہا کچھ نہیں کرسکے گا۔ جب تک تمام ممالک اس مسئلہ پر مشترکہ حکمت عملی اور کردار ادا نہیں کریں گے کچھ بھی ممکن نہیں ہوگا۔

حال ہی میں چین میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ ہمیں ’’ شنگھائی ریجنل سیکیورٹی فورم‘‘ کی تشکیل نو کرنا ہوگی جو خطے میں سیکیورٹی سے جڑے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کے امکانات کو بڑھائے۔اس فورم کا مقصد ممبر ممالک چین، بھارت، روس،پاکستان ،ایران اور وسطی ایشائی ریاستوں کے انٹیلی جنس اور دفاعی حکام کو مشترکہ حکمت عملی کو اختیار کرنے میں ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ وہ معلومات کا تبادلہ اور عملی اقدامات کی طرف بڑھ سکیں۔ایران کی طرف سے اس طرز کے فورم کی تشکیل اہم بات بھی ہے اور اسے ایک بڑی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔

شنگھائی فورم پر اس مشترکہ سیکیورٹی فورم کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں چین ،بھارت اور روس سمیت پاکستان شامل ہے ۔چین اور روس ایک بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری پیدا کرنے سمیت علاقائی تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے میں مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا ہے اور اب اگر دیگر ممالک بھی اسی نقطہ پر زور دے رہے ہیں تو پاکستان کے موقف کی پزیرائی بھی ہے۔اسی طرح افغانستان کے امن اور داخلی بحران کا حل خطہ کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں، طلال چودھری
  • پاکستان عالمی سطح پر دہشت گردی کیخلاف مضبوط مورچہ ہے، طلال چوہدری
  • چین ہر قسم کی دہشت گردی پر کاری ضرب لگانے میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا،چینی وزیر خارجہ
  • راولپنڈی بڑی تباہی سے بچ گیا، فتنۃ الخوارج کا دہشتگرد بارودی مواد سمیت گرفتار
  • دہشت گرد پناہ گاہوں پر تشویش، طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی: دفتر خارجہ
  • جن پر دہشت گردی کے مقدمات ہوں، وہ کیا اے پی سی بلائیں گے ؟ گورنر خیبرپی کے
  • مستونگ میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن، فتنہ الہندوستان کے 3 دہشت گرد ہلاک، میجر سمیت 2 جوان شہید
  • پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا:یوسف رضاگیلانی