چوتھے عالمی میڈیا انوویشن فورم کا چین کے صوبہ شان دونگ کے شہر چھو فو میں انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
چوتھے عالمی میڈیا انوویشن فورم کا چین کے صوبہ شان دونگ کے شہر چھو فو میں انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 26 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چوتھا عالمی میڈیا انوویشن فورم چائنا میڈیا گروپ اور چین کے صوبہ شان دونگ پیپلز گورنمنٹ کے باہمی تعاون سے شان دونگ کے تاریخی شہر چھو فو میں منعقد ہوا۔ تقریب میں 95 ممالک اور خطوں کی بین الاقوامی تنظیموں، میڈیا اداروں، چینی اور غیرملکی تھنک ٹینکس، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت مختلف شعبوں کے تقریباً 300 نمائندوں نے آن لائن اور براہ راست شرکت کی۔
شان دونگ کے صوبائی پارٹی سیکریٹری لِین وُو نے کہا کہ صوبہ شان دونگ اس فورم کے ذریعے میڈیا کے دوستوں کے ساتھ مل کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو، اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پر عمل درآمد کرنے اور میڈیا کے مکمل ڈھانچے کی تعمیر کو تیز کرنا چاہتا ہے۔ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے شعبہ تشہیر کے نائب سربراہ اور چائنا میڈیا گروپ کے صدر شن ہائی شیونگ نے کہا کہ چائنا میڈیا گروپ میڈیا نشریات کے ذریعے مکالمے کا پل تعمیر کرنے پر کاربند ہے اور مختلف ممالک کےدوستوں کے ساتھ مل کر عالمی امن و ترقی کے لیے تہذیبی قوت فراہم کرتا رہے گا۔فورم کے موقع پر خصوصی مہمانوں نے “چین میں غیر مادی ثقافتی ورثہ ” 2025 کی عالمی نمائشوں کا آغاز کیا۔
تہذیبی باہمی تبادلے کے سیریز کے بین الاقوامی مشترکہ پروڈکشن منصوبوں کا اعلان بھی کیا گیا۔فورم کے دوران ” چینی جدت طرازی غیر ملکی نوجوانوں کی نظر میں” سمیت چھ ذیلی فورمز بھی منعقد ہوں گے۔شرکاء میڈیا کے ذریعے تہذیبی تبادلوں کے فروغ، انسانی ترقی کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال، اور بین الثقافتی تعاون کو فروغ دینے کے موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کریں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکہ کی جانب سے محصولات کا بےجا استعمال ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین چیلنج ہے، چین امریکہ کی جانب سے محصولات کا بےجا استعمال ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین چیلنج ہے، چین جدیدیت اور اصلاحات کے حوالے سے چین کے تجربے سے بہت سے ممالک مستفید ہو سکتے ہیں، صدر آذربائیجان چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی صحت مند اور منظم ترقی کو فروغ دینے پر زور چینی صدر کی صدارت میں موجودہ معاشی صورتحال اور معاشی امور پر اجلاس چائنا میڈیا گروپ اور بین الاقوامی ہارس رائیڈنگ فیڈریشن کے مابین تعاون ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: شان دونگ کے چین کے
پڑھیں:
عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) دنیا بھر میں ہونے والے مسلح تنازعات میں بیشتر ہلاکتیں کلسٹر بموں سے ہوئی ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں مسلسل تیسرے سال ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد انہی بموں کا نشانہ بنی جبکہ شام اور یمن میں ہلاکتوں کا بڑا سبب بھی یہی اسلحہ تھا۔
سول سوسائٹی کے اقدام 'کلسٹر مونیشن مانیٹر' کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، فروری 2022 میں یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد 1,200 سے زیادہ لوگ کلسٹر بموں کا نشانہ بننے سے ہلاک و زخمی ہوئے ہیں تاہم، حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور درست اعدادوشمار سامنے آنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
Tweet URLرپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کی سربراہ لورین پرسی نے جنوب مشرقی ایشیا کے ملک لاؤ کو کلسٹر بموں سے آلودہ سب سے بڑا ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں ان بموں سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
یہ بم پھٹنے سے کئی طرح کے زہریلے مواد وسیع علاقے میں پھیل کر تباہی مچاتے ہیں۔کلسٹر بموں کا وسیع استعمالاقوامِ متحدہ کے شعبہ تخفیفِ اسلحہ میں تحقیقاتی ادارے (یو این آئی ڈی آئی آر) کی معاونت سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اسرائیل کے اس الزام کا حوالہ بھی شامل ہے کہ رواں سال جون میں ایران نے اس پر بیلسٹک میزائل حملے میں کلسٹر مواد استعمال کیا جبکہ غزہ اور جنوبی لبنان میں بھی ان ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میانمار میں فوجی حکومت نے اس وقت جاری خانہ جنگی کے دوران مقامی طور پر تیار کردہ کلسٹر بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے جو فضا سے گرائے جاتے ہیں۔
مانیٹر کے تحقیقی ماہر مائیکل ہارٹ نے بتایا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سکول بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ اسلحہ ریاست چِن، رخائن، کاچن اور سائیگون خطے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
بچوں کا نقصانذیلی ہتھیار جنہیں بم لیٹس بھی کہا جاتا ہے، دھماکوں کے اثر، اپنی آگ لگانے کی صلاحیت اور ٹکڑوں کے پھیلاؤ کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس بم کے ایک ہی حملے میں اس کے ہزاروں ٹکڑے سیکڑوں مربع میٹر رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔
یہ بم فضا اور زمین سے داغے جا سکتے ہیں اور انہیں بکتر بند گاڑیوں، جنگی سازوسامان اور فوجی اہلکاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، لورین پرسی کے مطابق، کلسٹر بموں کے استعمال سے بڑا نقصان شہریوں کا ہی ہوتا ہے۔2024 میں بھی ان بموں سے ہونے والے جانی نقصان میں بچوں کا تناسب زیادہ (42 فیصد) تھا کیونکہ بچے عموماً ان بم لیٹس کو دلچسپ اور کھلونوں جیسا سمھجتے ہیں یا کھیل کے دوران، سکول جاتے ہوئے یا کھیتوں میں کام کرتے وقت یہ بم ان کے ہاتھ لگ کر پھٹ جاتے ہیں۔
بارودی مواد کی صفائی کا مسئلہامدادی وسائل میں آنے والی کمی سے بھی کلسٹر بموں سے متاثرہ ممالک پر منفی اثر پڑا ہے۔
مانیٹر کی اعلیٰ سطحی محقق کیٹرین ایٹکنز نے بتایا ہے کہ افغانستان، عراق اور لبنان نے بارودی مواد سے آلودہ زمین کو صاف کرنے میں اچھی پیش رفت کی تھی لیکن اب یہ ملک امداد میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے صفائی کا عمل سست پڑ گیا ہے۔لورین پرسی نے بتایا ہے کہ ماضی میں امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی معاونت سے بارودی مواد کی صفائی کے منصوبوں کو روک دیا گیا ہے جن میں لاؤ کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔
یہ منصوبہ 60 اور 70 کی دہائی میں بنایا گیا تھا جو کئی دہائیوں تک نہ صرف دور دراز علاقوں میں کلسٹر بموں کے متاثرین کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے میں مددگار رہا بلکہ اس کے تحت متاثرین کی بحالی اور مصنوعی اعضا فراہم کرنے کا نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔
کلسٹر بموں کی پیداوار میں کمیمانیٹر کے مطابق، کلسٹر ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن کی منظوری کو پندرہ برس گزر چکے ہیں۔
اس دوران صرف 10 ممالک نے یہ ہتھیار استعمال کیے ہیں اور یہ تمام اس عالمی معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔اب تک 18 ممالک کلسٹر بموں کی پیداوار بند کر چکے ہیں۔ ارجنٹائن کے علاوہ وہ تمام ممالک اب اس معاہدے کے فریق ہیں جو پہلے یہ ہتھیار تیار کرتے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب بھی 17 ممالک کلسٹر بم تیار کرتے ہیں یا اس حق کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔ ان ممالک میں برازیل، چین، مصر، یونان، انڈیا، ایران، اسرائیل، میانمار، شمالی کوریا، پاکستان، پولینڈ، رومانیہ، روس، سنگاپور، جنوبی کوریا، ترکیہ اور امریکہ شامل ہیں۔