ایران کا ایٹمی پروگرام امریکی دباؤ کا بہانہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج اسلامی ایران سے ایک آواز سنائی دے رہی ہے اور تینوں طاقتیں، سیاسی دھارے اور ذہین قوم مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ حکومتی سطح پر قومی اتفاق رائے کی وہ گفتگو جو رہبر معظم کی رہنمائی اور حمایت سے حکومت کی تین شاخوں اور فیصلہ سازی کے مراکز کے سربراہان کے بیانات میں سنی جا سکتی ہے، اس نے اپنی راہ ہموار کی ہے اور اس اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس اتفاق اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنا چاہیئے اور اس قیمتی اثاثے کی قدر کرنی چاہیئے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
تہران کی نماز جمعہ کے عارضی امام حجت الاسلام سید محمد حسن ابوترابی فرد نے گزشتہ جمعے کے اپنے خطبے میں امریکہ اور ایران کے مابین جاری بالواسطہ جوہری مذاکرات کے حوالے سے اہم گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ان مذاکرات کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان مذاکرات کی غرض و غایت اسلامی جمہوری ایران کی حکمت عملی اور رہبر معظم انقلاب کے فقہی اور سیاسی نظریے پر مبنی ایٹمی پروگرام کی پرامن نوعیت کو واضع کرنے کے ساتھ ساتھ ایٹمی صنعت کو ترقی دینا اور ایرانی قوم کے خلاف جابرانہ پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ ابو ترابی فرد کے کہنے کے مطابق امریکہ کی اعلیٰ اتھاڑتی کی بار بار درخواست کے بعد اسلامی جمہوری ایران کے وضع کردہ اصولوں اور قوائد کے دائرہءکار میں رہتے ہوئے دونوں ممالک نے ایک بار پھر بالواسطہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔
ان کے مطابق امریکہ کے وعدوں کی بار بار خلاف ورزیوں اور اس کے معاہدوں سے پھر جانے کی اس کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، خاص طور پر 2018ء میں JCPOA معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے اس کے اعلان کو سامنے رکھتے ہوئے، حالیہ مذاکرات احتیاط اور ہچکچاہٹ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابوترابی فرد کے کہنے کے مطابق ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام حالیہ دہائیوں میں امریکی دباؤ کا بہانہ بن گیا ہے، اگرچہ ذیادہ سے ذیادہ پابندیوں نے ایرانی معیشت پر دباؤ ڈالا ہے لیکن اس نے تہران کو یہ سمجھایا ہے کہ مغرب اور امریکہ کے وعدوں پر بھروسا کئے بغیر اقتصادی چیلنجوں اور رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ملک کی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا کس قدرضروری ہے۔
ان کے بقول ایرانی وزیر خارجہ مسقط مذاکرات کو امریکہ کی سنجیدگی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک امتحان سمجھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پابندیوں کا مکمل خاتمہ اور قانونی ضمانتیں مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روم میں ملک کے وزیر خارجہ کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کے دوسرے دور کے اختتام پر عمانی وزیر خارجہ نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ مذاکرات کا مقصد ایک منصفانہ اور پائیدار ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں سے پاک ہے اور تمام پابندیوں سے بھی پاک ہے، نیز یہ کہ وہ ایک پرامن ایٹمی صنعت کی ترقی کی اپنی صلاحیت کو برقرار رکھے گا۔ تہران کی نماز جمعہ کے عبوری امام نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسقط کے ان سرکاری بیانات کے مندرجات، جو فریقین کے درمیان خیالات اور نظریات کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، ایران کی حکمت عملی کے فریم ورک کے اندر مذاکرات کی صحیح سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایران کی حکمت عملی قائد انقلاب کے قانونی اور سیاسی نظریہ پر مبنی جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو واضع کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری صنعت کو ترقی دینا اور ایرانی قوم کے خلاف جابرانہ پابندی کو ہٹانا ہے۔ عمانی وزیر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق اب تک ہونے والے مذاکرات ایران کی جوہری حکمت عملی کے دائرہءکار میں انجام پائے ہیں۔ ابو ترابی فرد نے ان مذاکرات کے حوالے سے کچھ نکات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی ابہام کے بات چیت کا آغاز عزت اور طاقت کے اپنے منصب پر قائم رہتے ہوئے ہوا۔ مذاکرات کے موضوع اور اصل و اصول کو قطعی طور پر بیان کرنے کی تہران کی صلاحیت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ان کے بیان کے مطابق طاقت کا سب سے اہم جز، سماجی سرمایہ، ریاست اور قوم کے درمیان رشتہ اور اتحاد ہے۔
آج اسلامی ایران سے ایک آواز سنائی دے رہی ہے اور تینوں طاقتیں، سیاسی دھارے اور ذہین قوم مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ حکومتی سطح پر قومی اتفاق رائے کی وہ گفتگو جو رہبر معظم کی رہنمائی اور حمایت سے حکومت کی تین شاخوں اور فیصلہ سازی کے مراکز کے سربراہان کے بیانات میں سنی جا سکتی ہے، اس نے اپنی راہ ہموار کی ہے اور اس اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس اتفاق اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنا چاہیئے اور اس قیمتی اثاثے کی قدر کرنی چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضروری اختیار اور حمایت کے بغیر سفارتکاری قومی مفاد کے حصول میں بے اثر ہے۔ڈیپلومیسی کو حمایت کی ضرورت ہوتی ہے جو طاقت پیدا کرتی ہے۔
تہران کے عبوری نماز جمعہ کے امام نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آج ایٹمی صنعت ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جس میں طاقت کے تمام اجزاء ظاہر ہوتے ہیں۔ ملک کی دفاعی طاقت اور بڑھتی ہوئی ڈیٹرنس مسقط میں مذاکراتی ٹیم کو اعتماد فراہم کرتی ہے۔ طاقت کے اس عظیم اثاثے کی قدر کرنی چاہیئے۔ پابندیوں کا ہٹنا پائیدار اقتصادی ترقی کی بنیاد فراہم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق ملک کے تمام طبقوں کو مسقط مذاکرات سے قطع نظر اعلیٰ اقتصادی ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اتفاق رائے مذاکرات کے حکمت عملی اس اتفاق ایران کی کے مطابق کے ساتھ کہا کہ اور اس ہے اور
پڑھیں:
شامی صدراحمد الشرع سے رکن کانگریس کوری ملز کی ملاقات، اسرائیل کیساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق
دمشق(اوصاف نیوز) شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے اسرائیل کیساتھ کے تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی ظاہر کردی۔امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن رکنِ کانگریس کوری ملز نے بلوم برگ کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے دمشق کا غیر سرکاری دورہ کیا جو با اثر شامی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ کی جانب سے ترتیب دیا گیا تھا۔
امریکی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوری ملز نے شامی صدر احمد الشرع سے 90 منٹ طویل ملاقات کی اور ان سے امریکی پابندیاں اٹھانے اور اسرائیل کے ساتھ قیام امن کی شرائط پر گفتگو کی۔
کوری ملز کے مطابق وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کو اس دورے پر بریف کریں گے اور صدر الشراع کا ایک خط بھی ٹرمپ کو پہنچائیں گے تاہم انہوں نے خط کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
بلوم برگ کے مطابق اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔کوری ملز نے کہا کہ انہوں نے صدر احمد الشرع سے مطالبہ کیا کہ وہ بشار الاسد دور کے ماندہ کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ یقینی بنائیں، دہشتگردی کے خلاف عراق جیسے امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعاون کریں اور اسرائیل کو یقین دہانیاں فراہم کریں۔
ان کے مطابق شامی صدر نے ان خدشات کو سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ وہ مناسب حالات میں معاہدات ابراہیمی (Abraham Accords) میں شمولیت پر بھی غور کرنے کو تیار ہیں۔
معاہدات ابراہیمی کے تحت ہی متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
بلومبرگ کے مطابق اس حوالے سے احمد الشرع کے ایک مشیر سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے اس حوالے سے فوری تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
واضح رہے کہ احمد الشرع نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے دسمبر میں دمشق کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
شامی نژاد امریکی گروپ امریکی حکومت کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے لیے لابنگ کر رہا ہے تاکہ ملک کی تباہ حال معیشت کو بحال کیا جا سکے۔
شام کو اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، سعودی عرب اور قطر نے کہا ہے کہ وہ شام کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم امریکی پابندیاں ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
لاہور : ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او ڈاکوؤں کی ساتھی نکلی