فن صحافت میں انٹرویو کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
انٹرویو کے لفظی معنی عام طور پرگفتگو، بات چیت اور مکالمے کے سمجھے جاتے ہیں، صحافت میں اسے ایک فن کا درجہ حاصل ہے۔ آج جس طرح ٹی وی چینلز کے بعد سوشل میڈیا ترقی کر رہا ہے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی اہمیت بیان کرنے سے قبل ہمیں اس کے فنی امورکا جائزہ لینا ہوگا تاکہ اس کی اہمیت زیادہ واضح ہو کر سامنے آئے۔
انٹرویو رسمی گفتگو کا نام نہیں بلکہ فنی مہارت اور ہنر کا نام ہے۔ انٹرویو کے لیے ضروری ہے کہ انٹرویو لینے والا وسیع المطالعہ ہو۔ وسیع المطالعہ کے ساتھ ذہانت بھی رکھتا ہو۔ اس کے پاس مختلف علوم اور شعبہ کے احوال سے باخبری کا کچھ سرمایہ ہونا بھی ضروری ہے۔
کم ازکم جس شخصیت سے انٹرویو لے رہا ہے، اس کے دائرہ علم و فن، اس کے اہم ادوار بالخصوص اس کے سیاسی نظریات اس کی سیاسی جدوجہد سے واقفیت ضروری ہے اگر شخصیت ادبی ہے تو اس کے ادبی نظریات کے ساتھ کم و بیش اس کی ہر تحریر سے واقفیت ضروری ہے۔
اگر کوئی شخصیت سیاست سے تعلق رکھتی ہے تو انٹرویو لینے والے کو اس کے سیاسی پس منظر کے علاوہ ملکی سیاست کا بھی ا دراک ہو‘ اسے معلوم ہوکہ ملکی سیاست میں کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیںاور موجودہ سیاسی صورت حال کس سمت جا رہی ہے اور جس شخصیت کا وہ انٹرویو لے رہا ہے اس کا ملکی سیاست میں کیا کردار ہے۔
انٹرویو کے لیے ضروری ہے کہ انٹرویوکرنے والا سوال کرنے کے فن سے آشنا ہو۔ بعض اوقات سوال و جواب کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے یعنی ہر سوال کے جواب میں پیدا ہونے والا عدم اطمینان ایک اور سوال کی گنجائش پیدا کردیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ ضمنی سوالات تیار کرنے کے گُر سے بھی آشنا ہو۔
ضمنی سوالات کسی جواب کو چیلنج کرنے یا اس کی وضاحت کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، اس کے ذریعے وہ قارئین کے سامنے بات کو زیادہ واضح کرکے پیش کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں خیال رہے کہ سوالات پورے انٹرویو کا مختصر حصہ ہونا چاہیے، جتنا مختصر سوال ہوگا، اس کا جواب اتنا ہی برجستہ اور حقیقت پر مبنی ہوگا لمبے لمبے تمہید پر مبنی سوالات کی صورت میں انٹرویو دینے والے کو سوچ بچار کا موقع مل جاتا ہے، ایسی صورت میں وہ کچھ سچ اورکچھ جھوٹ پر مبنی بات کرکے خود کو محفوظ کر لیتا ہے۔
انٹرویو کرنے والا باصلاحیت اور انٹرویو کے فن میں عبور رکھنے کا حامل ہوگا تو وہ شخصیت چاہے کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتی ہو، اس کی زندگی کے ایسے افکار و واقعات کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو اس کی تقریر یا تحریر میں کسی بھی وجوہات کی بنا پر سامنے نہیں آسکے وہ ان گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے یعنی اپنی فنی مہارت سے شخصیت کے دل کی بات کو اس کی زبان پر لے آتا ہے۔
ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک ہو، اخلاق سے گری ہوئی گفتگو سے پرہیز کرتا ہو، دلیر اور بے خوف ہو، کسی طاقتور شخصیت سے مرعوب نہ ہوتا ہو، سخت سوالات کرے لیکن شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے کرے۔ غیر جانبدار اور غیر متعصب ہو، اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو انٹرویو پر اثرانداز نہ کرے، دیانت دار ہو، جو معلومات حاصل ہوں اسے اپنا مفہوم بنا کر پیش نہ کرے، بلکہ انٹرویو دینے والے نے جو بات کی ہے اسے بغیر کمی و بیشی کے قارئین تک پہنچائے تاکہ حقائق مسخ نہ ہوں۔
انٹرویو لینے والے میں تنقیدی شعور کا ہونا بھی ضروری ہے، تنقیدی شعور نہیں ہوگا تو اسے کیسے پتا چلے گا کہ کون سا موضوع وضاحت طلب ہے، اس لیے انٹرویو لینے والے میں تجسس اور تحقیقی مزاج کا ہونا ضروری ہے۔ انٹرویو لینے والے کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کوئی بھی معاملہ ہو اس کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، اس معاملے کے باب میں ان گنت نقطہ نظر یا زاویہ نگاہ ہو سکتے ہیں، انٹرویو لینے والے کی ذمے داری ہے ، وہ ذاتی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر مختلف آرا جو بھی سامنے آئیں، اس کے تمام پہلوؤں کو قاری کے سامنے رکھے تاکہ قاری کے سامنے تمام پہلو واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔
گفتگو کا آغاز ہلکی پھلکی گفتگو سے کریں تاکہ انٹرویو دینے والا ذہنی طور پر الجھن کا شکار نہ ہو اور گفتگو کا ایک تسلسل قائم ہو جائے۔ خاندانی پس منظر، بچپن کا ادوار، تعلیمی مراحل اس کے بعد عملی زندگی کے آغاز کے حوالے سے سوالات کے بعد اپنی ضرورت کے مطابق نظریاتی اور فکری نوعیت کے سوالات کر سکتے ہیں۔ سوالات میں غیر ضروری تفصیلات جن سے قاری کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس سے گریز ضروری ہے۔ سوالات بے ربط نہ ہوں، منطقی انداز میں اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ اس میں تاریخ، سماج اور ادب کا عکس نظر آئے۔
اب سوال یہ ہے انٹرویو کے مطالعے سے ایک قاری کو کیا حاصل ہوتا ہے اور اس کا مطالعہ کیوں ضروری ہے۔ انٹرویو کے تحت ایک فرد خاص یا شخصیت کی سوانح حیات اور علمی ادبی یا سیاسی کاوشوں کا خاکہ قاری کے سامنے آ جاتا ہے جس کے توسط سے اس عہد کی ادبی یا سیاسی صورت اور اس میں جاری و ساری ماحول واقعات کا قاری مشاہدہ کر سکتا ہے۔
اس کے تحت اس کے سماجی، سیاسی اور ادبی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔کسی بھی شخصیت کی جانب سے جو انٹرویو دیا جاتا ہے تو اس شخصیت کے داخلی جذبات کے ساتھ اس کے تاثرات، تجربات، مشاہدات اور احساسات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبے کے مسائل سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
ادیبوں کے انٹرویو سے ادیبوں کی ذات، ماحول، تخلیقی محرکات اور ان کا سفر، ذہنی اور فکری سفرکا ارتقا، ادبی تحرکات اور اس کے ابلاغ کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ اس لیے انٹرویو کو ادب کی ایک صنف بھی تصور کیا جاتا ہے بہ شرط یہ کہ انٹرویو میں ادبی اسلوب اور اس کی چاشنی موجود ہو۔
انٹرویو کے مطالعے سے بہت زیادہ پڑھے لکھے قاری کے سامنے بھی مختلف شعبہ زندگی کے مختلف شعبہ جات کے نئے نکات اور نئے زاویے سامنے آتے ہیں جس سے قاری پر نئی باتیں واضح ہوتی ہیں، اس سے زندگی کی پیچیدگیوں اور مشکلات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کا لائحہ عمل مرتب کر کے کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قاری کے سامنے انٹرویو کے لیے ضروری کی اہمیت ضروری ہے زندگی کے کے ساتھ جاتا ہے اور اس کے بعد
پڑھیں:
والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اریج محی الدین
اداکارہ اریج محی الدین کا کہنا ہے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
اریج محی الدین حال ہی میں عید کے موقع پر ندا یاسر کے ’عید مارننگ شو‘ میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔
اداکارہ نے کہا کہ اب جو عید آتی ہے وہ پہلے جیسی نہیں رہی کیونکہ اس میں وہ لوگ قریب نہیں ہوتے جو پہلے ہوا کرتے تھے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ عید اسلام آباد میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مناتی تھیں، جہاں ان کی نانی اور والد موجود ہوتے تھے لیکن اب دونوں کا انتقال ہوچکا ہے، اسی لیے اب عید پر وہ خوشی محسوس نہیں ہوتی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جب آپ کے پاس موجود ہوں تو ان کی قدر محسوس نہیں ہوتی اور جب یہ دنیا سے چلے جائیں تو انسان کو ان کی اہمیت کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔
اریج محی الدین نے مزید بتایا کہ پہلے عید پر صبح سویرے اٹھ کر تیار ہونے کا دل نہیں چاہتا تھا، لیکن والد کے اصرار پر وہ اٹھ کر تیار ہوتی تھیں، اب عید پر کوئی نہیں جو کہے کہ تیار ہوجاؤ، سب کچھ بدل گیا ہے۔
واضح رہے کہ اریج محی الدین نے کئی مشہور ڈراموں میں کام کیا ہے جن میں ’قصہ مہربانو کا، میرے ہی رہنا اور قربتیں‘ شامل ہیں۔
اریج سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک رہتی ہیں اور اکثر اپنی تصاویر، ویڈیوز شیئر کرتی رہتی ہیں جسے ان کے مداح بھی پسند کرتے ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Areej Mohyudin ???? (@areej_mohyudin)
Post Views: 4