لڑکوں کا رنگ گہرا ہی پسند ہے، آر جے مہوش اور چہل کی ڈیٹنگ کی افواہیں پھر سرگرم
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
بھارتی آر جے مہوش کی نئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس نے ان کی یوزویندر چہل کے ساتھ تعلقات کی افواہوں کو ہوا دے دی ہے۔
آر جے مہوش اپنی ایک نئی ویڈیو کی وجہ سے ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں جس میں وہ مردوں کے رنگ پر دلچسپ تبصرہ کرتی نظر آئیں۔ مہوش، جن کا نام حال ہی میں کرکٹر یوزویندر چہل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، نے اپنی ویڈیو میں کہا، ’گورے لڑکے بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن سانولے لڑکوں میں ادرک والی چائے جیسی بات ہے۔ چائے ویسے بھی مزے دار ہوتی ہے، لیکن تھوڑی سی ادرک ہو جائے تو پھر واہ واہ۔‘
مہوش نے مزید کہا، ’ہماری دادی ایسے لڑکوں کو گندمی رنگ والے نمکین چہرے کہتی تھیں۔ اب سمجھ آیا، دادی۔ ہم ہندوستانی لڑکیوں کو اپنی چائے اور لڑکوں کا رنگ تھوڑا گہرا ہی پسند آتا ہے۔ سانولے لڑکوں کو جا کے بتا دو کہ میں objectify نہیں کر رہی، لیکن تم ساڈی دال میں تڑکا ہو۔‘
View this post on InstagramA post shared by Mahvash (@rj.
انہوں نے اس ویڈیو کے کیپشن میں پنجابی میں لکھا، ’کالے دے لباس دی شوقین اے کُڑی، پاس پاس آئے تیرے کالے رنگ توں۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ چہل نے بھی آر جے مہوش کے اس پوسٹ کو لائک کیا، جس سے ان کی ڈیٹنگ کی افواہوں کو مزید تقویت ملی ہے۔
یاد رہے کہ یوزویندر چہل اور دھناشری ورما کی شادی دسمبر 2020 میں ہوئی تھی، تاہم فروری 2025 میں دونوں کو باندرہ فیملی کورٹ کے باہر دیکھا گیا جہاں انہوں نے باہمی رضامندی سے طلاق کی درخواست دی۔ عدالتی فیصلے کے بعد، دونوں کی باقاعدہ طلاق 20 مارچ 2025 کو ہوئی۔ رپورٹس کے مطابق چہل نے ڈاناشری کو 4.75 کروڑ روپے بطور المعونیہ ادا کیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جے مہوش
پڑھیں:
اکنامک سروے اور زرعی پیداوار
پاکستان اکنامک سروے 2024-25 پیش کردیا گیا ہے، جس میں شرح نمو 2.7 فی صد حاصل ہوگی، بتایا گیا یعنی کم سہی مگر مثبت کبھی منفی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ محصولات میں اضافہ ہوا 26 فی صد اضافہ اچھی بات ہے لیکن عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لیجیے برآمد 6.8 فی صد بڑھ گئی۔
بہت زیادہ جتن کیے تھے لیکن آئی ایم ایف کے مشورے ہی رکاوٹ بن رہے ہیں یعنی بجلی،گیس کی قیمت بڑھائے چلے جاؤ، پٹرولیم کی قیمت بھی بڑھتی رہے۔ ایسے ماحول میں اتنا اضافہ بھی غنیمت ہے، مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
دو سال قبل حکومت نے کنٹرول کر لیا تھا لیکن کنٹرول کرنے والے ماہر نہیں تھے ورنہ وہ چیزکبھی نہ روکتے جن سے برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے جن سے کارخانے چل رہے ہوتے ہیں لیکن سب سے تشویش ناک بات یہ ہو گئی کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی ہوئی ہے۔ بھارت کی اصل خواہش یہی ہے کہ پانی کی کمی ہو اور فصلیں کم سے کم پیدا ہوں۔ اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 13.5 فی صد کی کمی کو کم سمجھنے کے بجائے بہت زیادہ کمی سمجھنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
شرح نمو میں اضافے کا عدد 2.7 فی صد کا حاصل ہونا خزاں کے موسم میں امید بہار ہے اور ترقی کی نوید بھی ہے، لیکن اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں کیونکہ ترقی کی زمین تو پیاسی رہ گئی۔ کھیتوں سے ایسے اشارے مل گئے کہ پانی کم ملا ہے، پیاس بڑھی ہے۔ اب پانی کی کمی کا متبادل کب کیسے کس وقت استعمال کرنا ہے، شاید محکمہ زراعت کو خبر نہ ہوئی کہ کسانوں کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں جن کا فوری مداوا ضروری ہے۔
اس کے لیے ڈرپ ایری گیشن کا راستہ اختیار کر کے یعنی کم پانی میں زیادہ پیداوار کا حصول، ریزرو چھوٹے آبی ذخائر چھوٹے بڑے تالاب تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کر لیا جائے۔ آج کل تو ڈرونز پر سروے ہو سکتے ہیں۔ ایپس پر کسان کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اب کسان کن حالات سے گزر رہا ہے اس پر قرضوں کا بوجھ بھی ہے، اس کی آمدن کم سے کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب اس کا اثر آیندہ برس کے شرح نمو پر مرتب ہوگا۔
ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ خوش آیند بھی ہے ۔حکومت نے اقتصادی سروے میں کھیتوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو واضح کر دیا ہے۔ ساڑھے تیرہ فی صد پیداوار میں کمی کا مطلب ہے ساتواں حصہ۔ ایسے میں کسان کی امید تو ٹوٹ رہی ہے۔ کچھ موسم کی بے رخی بھی اب دست و گریباں ہو چکی ہے۔
موسمیاتی کلائیمیٹ چینج نے اپنا وار سب سے پہلے غریب کسان کی کٹیا پرکردیا ہے۔ کسان کو بلا سود قرض دیں بلکہ قرض حسنہ دیں۔ اگر وہ کم پیداوار حاصل کرتا ہے اور نقصان میں چلا جاتا ہے تو قرض معاف ہونا چاہیے، قدم قدم لمحے لمحے اس کی رہنمائی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اس کو آگاہ کریں تو شاید کھیت کی تقدیر بدل جائے، کسان خوش حال ہو جائے۔کلائیمیٹ چینج کا تو اثر ہر حال میں پڑ رہا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زمین اپنی زرخیزی کھو رہی ہے، بیج کھاد ایندھن ان سب کی قیمتوں میں 20 سے 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی زرعی معیشت پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ غذائی سلامتی پر گہرا زخم بھی ہے، اب آیندہ برس گندم درآمد کریں گے۔ کپاس بھی درآمد کریں گے اور درآمدی بل بڑھ کر رہے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ کلائیمیٹ چینج کے اثرات نے پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان کے کھیتوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
اوپر سے آئی ایم ایف نے بھی کسانوں پر ہلہ بول دیا ہے۔ سبسڈی ختم کرو، فنانسنگ تک محدود رسائی، کسانوں کے لیے آئی ایم ایف ایسی پالیسی دے رہا ہے جس سے کسان کی خوشحالی روٹھ کر رہ جائے گی۔ اگر کھیتوں نے آیندہ بھرپور فصل سے نوازا تو کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اکنامک سروے 2025-26 میں لکھا ہوگا کہ اہم فصلوں کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابل 13 فی صد کمی نے اپنا رنگ ایسے جمایا اب فصلوں نے اپنا رخ ایسا دکھایا، زمین نے وہ نوازشیں کیں کہ 13 فی صد کا کلائیمیٹ چینج یا بدلاؤ ایسا آیا کہ 13 سے 31 فی صد اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ خواب پورا ہوگا لیکن ڈرائنگ روم اے سی میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں بلکہ کھیتوں تک آئیں آئی ایم ایف کے بغیر کسانوں سے ملنے اور ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں۔