کشمیر میں درجنوں سیاحتی مقامات بند، پاک بھارت کشیدگی عروج پر
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ ہفتے پہلگام کے قریب سیاحوں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کے بعد حکام نے ہمالیہ کے اس دلکش علاقے میں 87 میں سے 48 سرکاری طور پر منظور شدہ سیاحتی مقامات کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔
دو پولیس افسران اور تین انتظامی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ فیصلہ حفاظتی اقدامات کے طور پر کیا گیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق حکام نے واضح نہیں کیا کہ یہ سیاحتی مقامات کب تک بند رہیں گے۔ یہ فیصلہ 22 اپریل کو پہلگام کے قریب ہونے والے حملے کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے، جس میں مسلح افراد نے 26 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں زیادہ تر بھارتی سیاح تھے۔(جاری ہے)
سیاحت پر گہرا اثربھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں سیاحت کو فروغ دیا تھا تاکہ اسے استحکام کی علامت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
سن 2024 میں تقریباً 30 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا، جو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھے، تاہم حملے کے بعد سے سیاح خوفزدہ ہیں اور بہت سے علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کے مطابق ایک ملین سے زائد بکنگز منسوخ ہو چکی ہیں، جس سے سیاحت کی صنعت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ سرحدی جھڑپیں اور ڈرون مار گرانے کا واقعہکشیدگی کے دوران لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارت اور پاکستان کے فوجیوں کے درمیان گزشتہ پانچ راتوں سے مسلسل چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
بھارتی فوج نے منگل کو کہا کہ پاکستان کی جانب سے ''بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کی گئی، جس کا بھارتی فوج نے مؤثر جواب دیا۔ پاکستان نے اس فائرنگ کی تصدیق نہیں کی اور ان واقعات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔دوسری جانب پیر کو پاکستانی فوجیوں نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھمبر کے سرحدی قصبے میں سینکڑوں میٹر اندر اڑنے والے ایک بھارتی جاسوس ڈرون کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان کے تین سکیورٹی عہدیداروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق بھمبر سیکٹر میں ایک بھارتی جاسوس ''کواڈ کاپٹر‘‘ ڈرون کو مار گرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں واقعے کی تاریخ یا وقت کی وضاحت نہیں کی گئی۔ دوسری جانب بھارت کی طرف سے ابھی تک اس دعوے پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
کشمیر میں سکیورٹی کریک ڈاؤنحملے کے بعد کشمیر میں تقریباً 2,000 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان میں سابق باغی اور عسکریت پسندوں کے مبینہ ''اوور گراؤنڈ ورکرز‘‘ شامل ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے کم از کم نو مشتبہ عسکریت پسندوں کے گھروں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا، جسے مقامی رہنما ''اجتماعی سزا‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ علاقے کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کو قانون سازوں سے کہا کہ شہریوں کے خلاف سخت گیر حکمت عملی سے گریز کیا جائے تاکہ عوام میں بیگانگی نہ بڑھے۔ قومی پارلیمنٹ کے کشمیری رکن روح اللہ مہدی نے گھروں کی تباہی کو''غیر منصفانہ‘‘قرار دیا۔
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حملے کے
پڑھیں:
پاک بھارت کشیدگی
پاک بھارت کشیدگی موجود ہے۔ بھارت کی طرف جنگ کا ماحول زیادہ ہے لیکن پاکستان میں بھی جنگ کی تیاری کی بات ہو رہی ہے۔ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ لیکن پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے بلکہ موقف یہی نظر آرہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ بھارت کے ہر قدم کا اس سے زیادہ طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ پہلے بھی بھارت نے جو اقدامات کیے ہیں ہم نے ان سے زیادہ سخت اقدامات سے جواب دیا ہے۔
جہاں تک بھارت کی جانب سے انڈس واٹر معاہدہ کو معطل کرنے کا سوال ہے۔ دونوں ممالک کے ماہرین کی یہی رائے سامنے آئی ہے کہ فی الحال بھارت کے پاس پاکستان کا پانی روکنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ بھارت چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا۔ دریاوں کا پانی کوئی پانی کا نلکا نہیں کہ جب دل چاہا کھول دیا بند کر دیا۔ دریاوں کا پانی بند کرنے کے لیے ڈیم بنانے بنانے پڑتے ہیں، نہریں بنانی پڑتی ہیں جو ابھی بھارت کے پاس نہیں۔ اگر آج بھارت یہ فیصلہ کر بھی لے کہ اس نے انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کر کے پاکستان کا پانی روکنا ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے دس سال چاہیے ہونگے۔ اس لیے فی الحال یہ صر ف ایک اعلان ہے جس کے پیچھے گراؤنڈ پر کچھ نہیں۔
عالمی رد عمل بھی بھارت کے حق میں نہیں۔ بھارت کو دنیا کے بڑے ممالک سے اس طرح کی حمایت نہیں مل سکی ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔ ہر ملک نے محتاط رد عمل دیا ہے۔ جس میں پاکستان کی خود مختاری اور سا لمیت کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ کسی ملک نے بھی بھارت کی کسی بھی قسم کی جارحیت کے حق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ سب نے تحمل کی بات کی ہے۔
سب سے مزیدار ردعمل ڈونلڈ ٹرمپ کا رہا ہے جنھوں نے ایک تو کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں اور دوسرا دونوں اپنے مسائل کا خود ہی حل نکالنا جانتے ہیں۔ اس طرح بھارت کو امریکا سے بھی کوئی خاص حمایت نہیں ملی ہے۔ چین نے بھر پور پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ باقی دنیا نے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکا نے کشمیر پر کوئی بھی موقف لینے سے اجتناب کیا ہے۔ نہ تو اسے بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں امریکا اس معاملہ میں نہ بھارت کے ساتھ ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ہے۔ وہ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ پاکستان نے بھارتی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ اس سے بھارت کو روزانہ نقصان ہو رہا ہے، بھارت کیا جواب دے گا۔ ابھی تک بھارت نے جو اقدامات کیے ہیں پاکستان نے ان سے زیادہ جواب دے دیا ہے۔ آگے کیا ہوگا۔ نریندر مودی کے پاس کیا آپشن ہیں۔ کیا مودی کوئی سرجیکل اسٹرائیک کر سکتے ہیں۔
2019 میں کی تھی۔ وہ کوئی اچھا تجربہ نہیں رہا تھا۔ پاکستان نے اگلے دن جواب دیا تھا۔ اب اگر وہ اسٹرائیک کریں گے تو جواب ضرور ملے گا۔ جواب سخت بھی ہو سکتا ہے۔ پھر کیا ہوگا۔ کیامودی سرجیکل سٹر ائیک کر کے فتح کا جشن منا سکتے ہیں۔ ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ عالمی رائے عامہ یہی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنر ل عاصم منیر زیادہ سخت جنرل ہیں۔ وہ رعایت نہیں کریں گے۔
اس لیے بھارت کو مشکل ہو سکتی ہے۔ دونوں ملک کسی بھی بڑی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے سرجیکل اسٹرائیک معاملہ کو ٹھنڈا نہیں کرے گی بلکہ بگاڑ دے گی۔ بھارت کے پاس اب محدود آپشن ہیں وہ پاکستان سے بڑی جنگ نہیں چھیڑ سکتا۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹم بم موجود ہیں۔ جو دونوں ممالک کو جنگ سے روکتے ہیں۔ یہ خطرہ بہر حال موجود رہتا ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو ایٹم بم استعمال ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
بھارت نے بلا شبہ گزشتہ تین سال سو ارب سے زائد کا اسلحہ خریدا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ بھارت بے وجہ یہ اسلحہ نہیں خرید رہا۔ اس کے جنگی عزائم ہے۔ بھارت خطے میں اسلحہ کی دوڑ تیز کر رہا ہے۔ کیا بھارت چین سے جنگ کرنا چاہتا ہے۔ نہیں۔ بھارت نے ہمیشہ چین سے جنگ سے دوری رکھی ہے۔ جنگ وہ پاکستان سے چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت نے اسے روکا ہوا ہے۔ اس لیے اب عالمی رائے یہی ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت نے خطے کو جنگ سے روکا ہوا ہے۔
اگر جنگ نہیں، اگر سرجیکل اسٹرائیک نہیں تو پھر مودی کے پاس کیا آپشن ہیں۔ وہ اپنی عوام کو کیسے مطمئن کریں گے۔انھیں جیت کا جشن چاہیے۔ آخری دفعہ2019میں انھوں نے سرجیکل اسٹرائیک کے چکر میں جشن منا لیا تھا۔ اب کیا ہوگا۔ اب کی دفعہ کہا گیا ہے کہ ایک کے مقابلے دو اسٹرائیک کی جائیں گی۔ پاکستان میزائیل چلائے گا۔
اس لیے بھارت کے لیے رسک زیادہ ہے۔ لائن آف کنٹرول گرم ہو چکی ہے۔ اگر آپ بھارتی اخبارات پڑھیں تو ان کی ہیڈ لائنز ہیں کہ پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ آپ پاکستانی میڈیا کو دیکھ لیں تو خبر ملے گی کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر رہا ہے۔ بہر حال لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے اور دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ ابھی تک جانی نقصان کی کوئی خبر نہیں۔
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا دونوں ممالک کو کافی تجربہ ہے۔ مودی نے کافی عرصہ لائن آف کنٹرول کو گرم رکھا ہے۔ اس لیے یہ اب عالمی دنیا کے لیے بھی کوئی خاص بات نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مسلسل اپنی عوام کو یہ کہہ رہے ہیں کہ توقع سے زیادہ بڑا جواب دیں گے۔ اب توقع سے زیادہ بڑا جواب کیا ہوگا۔ سب اس کے اندازے لگا رہے ہیں۔ مودی کے ذہن میں کیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کے گھر پر بھارتی افواج کے سربراہان کا غیر معمولی اجلاس ہوا ہے۔ لیکن کیا طے ہوا ہے۔ ایک سوال ہے۔
بھارتی سفارتکار بھاگتے ہوئے دہلی سے افغانستان بھی پہنچے ہیں۔ دہلی کو اب کابل کی کیا مدد چاہیے۔ بھارت افغانستان کو کتنا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کابل جانتا ہے۔ اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ بھارت کیا قیمت ادا کر سکتا ہے۔
چین بھی موجود ہے۔ اس لیے کابل کے لیے کھلے عام دہلی کے ساتھ جانا مشکل ہے۔ لیکن دہلی کابل سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھانے کی مدد مانگ رہا ہوگا۔ شاید اسی لیے پاکستان نے بارڈر پر 54خوارجی مارے ہیں۔ وہ کیوں پاکستان آرہے تھے۔ کیا بھارت پاکستان میں دہشت گردی کا بڑا وقعہ کروا کر کہے گا کہ ہم نے بدلہ لے لیا۔ کیا یہ بھی ایک آپشن ہے۔ کیونکہ باقی آپشن مشکل ہیں۔