دریاؤں کا پانی اور معاشی پس منظر
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے دریا محض پانی کا ایسا بہاؤ نہیں جسے جب چاہے جیسے چاہے ان کا رخ موڑ دیا جائے۔ یہ کروڑوں سال سے دریاؤں کی روانی کا تسلسل ہے۔ 1947 سے قبل برصغیر کی زرخیزی کی کہانی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ قافلے آتے رہے ان میں جنگی قافلے بھی تھے، بیوپاریوں کے قافلے بھی تھے۔
زرخیزی تلاش کرنے والے، اپنے جانوروں کے لیے چراگاہیں ڈھونڈنے والے بھی تھے۔ دریا کے کنارے آ کر دور سے اٹک کے مقام کو دیکھتے تو وہیں ٹھٹک کر رہ جاتے۔ یہاں کی زرخیزی، لہلہاتے کھیتوں، ہری بھری چراگاہوں میں دودھ دینے والے جانوروں کو چرتے، دیکھتے تو پھر انھی علاقوں کے ہو کر رہ جاتے جس کی بنیاد پر برصغیر دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور ہو کر رہ گیا اور پھر 1947 کے بعد یہ دریا جن کا منبع مقبوضہ کشمیر میں ہے، اب پاکستانی قوم کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون بن کر رہ گیا۔ اس ملک کی معاشی زندگی کی بنیاد بن گیا اور یہ قدرت کی طرف سے وہ عطا ہے جس پر پہلا حق پاکستانیوں کا ہے اور آخری حق بھی انھی کا ہے،کیونکہ ان تمام دریاؤں کو پاکستان کی طرف آنے کا راستہ اس وقت سے ملا ہوا ہے جب شاید یہاں کوئی انسان بھی نہیں بستا تھا۔ پھر انسانی زندگی آباد ہوتی رہی، ان دریاؤں کے آس پاس وہ بستے رہے۔
اپنی زمینوں پر ہل چلا کر ان کو سیراب کرتے رہے اور یہ عمل ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے۔ ان کا رخ بدلنے کی بات ہندوستان کر رہا ہے تو یہ ایسے ہوگا جیسے نظام قدرت میں صریحاً مداخلت ہو، اور اس آبی وسیلے کو روکنا، ان پر تسلط جمانے کی کوشش کرنا، سندھ طاس معاہدے کے بعد یہ بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑانے اور صریحاً خلاف ورزی کے علاوہ پاکستان کو للکارنے کے مترادف ہے۔ پاکستان نے اس کے جواب میں واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے،کیونکہ پانی کا ایک ایک قطرہ ہماری زندگی کی روانی ہے، زمینوں کی زرخیزی کی علامت ہے۔دریائی پانی پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے اور یہی زراعت ہے جس نے ہماری صنعت کو چند دہائیوں قبل اپنے پیروں پرکھڑا کردیا تھا۔ جب قطار در قطار ٹیکسٹائل ملیں چلنا شروع ہوگئی تھیں جن میں روپہلی ریشوں والی کپاس استعمال کی جاتی تھی اور پاکستان کو کپڑے کی پیداوار میں دنیا بھر میں تخصیص حاصل ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ سفید سونا پاکستان کا باسمتی چاول اور دیگر اقسام کے چاول جس کی لاکھوں ٹن پیداوار سے ترقی پذیر افریقی ممالک کے کروڑوں لوگ بھی اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔
اسی طرح لاکھوں ٹن چینی برآمد کر رہے ہیں اور یوں زراعت پر مبنی صنعتوں میں ہم نے اسی لیے تخصیص یعنی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستی پیداوار اس لیے دے رہے تھے کہ ان فصلوں کی بنیاد پر زراعت پر مبنی صنعتیں چلا رہے تھے اور اپنے 40 سے 50 لاکھ افراد کو ان صنعتوں میں روزگار بھی فراہم کیا جا رہا تھا۔پانی پاکستان کی دیگر صنعتوں کو بھی خوب فراہم کیا جا رہا تھا اور بڑی مقدار میں پن بجلی پیدا کر رہے ہیں جوکہ انتہائی ارزاں قیمت پر پاکستان تیار کر رہا ہے اسی طرح ٹیکسٹائل، لیدر انڈسٹری و دیگر صنعتوں میں پانی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
ان پاکستانی دریاؤں کا پانی پاکستان کا قدرتی ورثہ ہے جس پر صرف پاکستان کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نعمت عطا کی ہے تو یقین جانیے کہ اس کی حفاظت کی قوت بھی وہ ہمیں اپنی قدرت سے ایسے عطا فرمائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ چونکہ یہ مسئلہ ہمارے لیے معاشی طور پر زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا دنیا کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا۔
ان تمام باتوں کے ساتھ پاکستان موجودہ آبی ذخائر کا موثر انتظام کرے۔حکومت قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لے کر آئے، کیونکہ پاکستان پہلے سے ہی پانی کی قلت کے مسئلے سے دوچار ہے۔ فصلوں کو جب ضرورت ہوتی ہے تو اس مقدار میں پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ نہروں میں پانی بھی کم ہوتا ہے، زرعی پیداوار کا فی ایکڑ پیداوار میں کمی ایک مستقل مسئلہ ہے۔
ہندوستان نے ہمیں جگا دیا ہے لہٰذا ہم اپنی زراعت کے مستقبل، اپنی کم پیداواری کے مسئلے کا حل نکالنے، پانی کی کمی کا مستقل حل نکالنے، بارش کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے، اپنی خوراک کی سلامتی کے لیے اب زرعی منصوبہ بندی اور زرعی آبی منصوبہ بندی، خوراک ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی کے لیے اور تمام تر احتیاطی اقدامات اٹھانا ایک تکنیکی ضرورت نہیں بلکہ فوری اور مستقبل کے لیے دانش مندانہ حکمت عملی ہوگی جس کے بارے میں حکومت غور بھی کر رہی ہے اور فوری اقدامات بھی اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا پانی روکا گیا تو پھر جنگ ہوگی، بلاول کا بھارت کو انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن:بھارتی جارحیت پر دنیا کے سامنے پاکستانی مؤقف رکھنے کے لیے بیرون ملک دورے پر موجود اعلیٰ سطح وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت نے اگر پاکستان کا پانی روکا تو پھر جنگ ہوگی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں چیئرمین پی پی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پانی کو پاکستان کی ریڈلائن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت نے پاکستان کی آبی سپلائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوں گے، حتیٰ کہ جنگ جیسی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد سے انکار یا اس کی خلاف ورزی دراصل خطے میں امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی روش نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اخلاقی طور پر بھی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر آج دنیا خاموش رہی اور بھارت کو اجازت دی گئی کہ وہ کسی بھی ملک کی پانی کی رسد بند کرے تو کل کوئی اور طاقتور ملک بھی یہی طریقہ اختیار کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا عمل ایک خطرناک مثال قائم کرے گا، جو صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام کے لیے بھی تباہ کن ہو سکتا ہے۔
بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو نظر انداز کیے جانے پر انہوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ضامن ہے بلکہ جنوبی ایشیائی خطے میں قیام امن کے لیے ایک اہم بنیاد بھی ہے۔ اگر بھارت اس بنیادی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ اقدام صرف پاکستان کو نہیں، بلکہ خطے کو مکمل طور پر غیر مستحکم کر دے گا۔
بلاول نے اپنے بین الاقوامی دوروں کو سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤقف کو عالمی رہنماؤں نے نہ صرف سنا بلکہ سراہا بھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں، مگر ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ اگر ہمارے بنیادی حقوق مثلاً پانی پر ڈاکا ڈالا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
انہوں نے امریکا کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو واشنگٹن میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کیا، جس کے نتیجے میں ملک کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کیا گیا۔ ان کے بقول یہ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ عالمی برادری کی بھی کامیابی تھی، جو دہشتگردی کے خلاف حقیقی اقدامات کو تسلیم کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موقف سچ پر مبنی ہے اور جب سچ پر مبنی مؤقف بین الاقوامی سطح پر پیش کیا جائے تو اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بلاول نے مزید کہا کہ بھارت کے اندر موجود شدت پسند قوتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہیں جن سے خطے کا امن داؤ پر لگتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پانی جیسے حساس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس مسئلے کا تکنیکی، ماحولیاتی اور معاشی پہلو بھی نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ بین الاقوامی معاہدے کسی ایک حکومت یا لیڈر کی ملکیت نہیں ہوتے، بلکہ یہ اقوام کے درمیان طے پاتے ہیں اور ان کا احترام تمام ریاستوں پر لازم ہے۔
بلاول نے بھارت کے حالیہ بیانات کو غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارتی حکومت پانی روکنے جیسے اقدامات پر عملدرآمد کرتی ہے تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے انتہائی اقدامات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس بات کا اظہار تھا کہ پاکستان پانی جیسے مسئلے پر کسی بھی طرح کی مصلحت سے کام لینے کے لیے تیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پانی صرف ایک وسائل نہیں بلکہ زندگی ہے اور اگر اس پر سیاست کی گئی تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس پورے معاملے میں عالمی برادری کی خاموشی کو بھی چیلنج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی ادارے اس حساس مسئلے کا نوٹس لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا آج حرکت میں نہ آئی تو کل کسی اور خطے میں پانی کے مسئلے پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔