بیجنگ ()

گزشتہ 40 سال سے چین نےبیرونی مارکیٹوں اور وسائل کےذریعے تیزرفتار ترقی حاصل کرتے ہوئے ملک کی جامع  طاقت اور لوگوں کے ذریعہ معاش کو بہتر بنایا ہے، لیکن اسے دو بڑے چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ ایک تو بین الاقوامی مارکیٹ پر حد سے زیادہ انحصار کے باعث خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت ناکافی ہے جبکہ دوسرا یہ کہ کلیدی ٹیکنالوجی دوسروں کے کنٹرول میں ہے، جس کی وجہ سے چین کی صنعتی اپ گریڈنگ میں رکاوٹیں زیادہ ہیں.

چین کے اعلیٰ ترین رہنما شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ نیا ترقیاتی ڈھانچہ چین کی مجموعی ترقی سے متعلق ایک ایسی اہم حکمت عملی ہے، جس کی خصوصیات یہ ہیں کہ ملک کی اندرونی گردش کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے  اندرونی اور بین الاقوامی گردش کے باہمی تعاون کی کوشش کی جائے تاکہ دونوں سائیکل ایک دوسرے کے لئے تکمیلی ہوں ۔
چین کی “دوہری گردش” کی حکمت عملی اور “فیکٹریوں کی امریکہ میں واپسی” کی حکمت عملی میں کیا فرق ہے ؟ امریکا کی کوشش یہ ہےکہ کاروباری اداروں کو بھاری سبسڈی کے ذریعے نقل مکانی پر مجبور کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ چین کی تکنیکی اپ گریڈیشن کو روکنے کے لئے ٹیکنالوجی ناکہ بندی کا ایک اتحاد تشکیل دیا جائے۔اور دنیا پر بلا امتیاز محصولات کےبےجا استعمال نے نہ صرف بین الاقوامی اقتصادی نظام کو کمزور کیا ہے، بلکہ خود امریکا کی اپنی تنہائی کو بھی تیز کر دیا گیاہے۔ چین کا ماڈل یہ ہے کہ مارکیٹ کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے. مثال کے طور پر ، ٹیسلا نے شنگھائی میں ایک گیگا فیکٹری بنائی ، جہاں وہ اپنی عالمی فروخت کا 45فیصد پیدا کرتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جیت جیت تعاون حاصل کیا جائے۔ مثال کے طور پر ، سی اے ٹی ایل، جو ایک مشہور چینی نئی توانائی بیٹری کمپنی ہے، یورپی ٹیکنالوجی اور چینی تجربے دونوں کا استعمال کرتے ہوئے بیٹری فیکٹری بنانے کے لئے ہنگری گئی ، اور اس کی پیداواری صلاحیت یورپی مارکیٹ کے 20فیصد تک پہنچی ہے۔ اس سلسلے میں چین تکنیکی کھلے پن کی وکالت کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ “زیرو سم کے کھیل” میں مصروف ہےجبکہ چین “جیت جیت تعاون” کی پیروی کرتا ہے.
نیا ترقیاتی ڈھانچہ بند کمروں میں تعمیر کرنا نہیں ہے، بلکہ  اعلی معیار کے کھلے پن کے ذریعے  تمام ممالک کو چینی مارکیٹ کی توانائی، جدت طرازی کی محرک قوت اور تعاون کے امکانات فراہم کرتا ہے. جیسا کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور بن ابراہیم نے کہاکہ ” مشکل وقت میں دنیا استحکام، اعتماد اور سمت کا احساس چاہتی ہے۔ چین کے اقدامات میں، ہم نےیہ خصوصیات دیکھی ہیں۔چین نہ صرف استحکام لاتا ہے، بلکہ مستقبل کے لئے دیرپا امید بھی لاتا ہے. ”

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

میانمار میں سوچی کے تاریخی بنگلے کی نیلامی چوتھی بار ناکام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2025ء) میانمار میں حکام منگل 29 اپریل کو آنگ سان سوچی کے ایک جھیل کے کنارے واقع بنگلے کو نیلام کرنے میں چوتھی بار بھی ناکام رہے۔ اب بھی جیل میں بند نوبل امن انعام یافتہ سوچی کی اس رہائش گاہ کو خریدنے کے لیے کوئی بھی بولی لگانے کو تیار نہ ہوا۔

میانمار: بدعنوانی کیس میں آنگ سان سوچی کو پانچ برس قید کی سزا

یہ شاندار دو منزلہ گھر ینگون کے مہنگے اور معروف یونیورسٹی ایوینیو روڈ پر واقع ہے لیکن اس کا مین گیٹ زنگ آلودہ ہو چکا ہے۔

اس بنگلے کی نیلامی کے لیے عدالت کے مقرر کردہ افسر نے بتایا کہ نیلامی میں اس کی ابتدائی قیمت 128 ملین ڈالر رکھی گئی تھی۔

نیلامی کے لیے بولی لگانے کی کارروائی شروع ہونے سے قبل صحافیوں اور ایک درجن کے قریب پولیس اہلکاروں نے بھی اس رہائش گاہ کا معائنہ کیا۔

(جاری ہے)

میانمار فوج، سوچی کے خلاف ایک نیا کیس

عدالت کی طرف سے مقرر کردہ افسر نے تین بار پوچھا کہ کیا کوئی اس بنگلے کے لیے بولی لگانے کو تیار ہے، جب کوئی جواب نہ ملا، تو اس افسر نے کہا، ''ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ نیلامی کامیاب نہیں ہوئی۔

‘‘

آنگ سان سوچی کو 2021 کی فوجی بغاوت کے دوران معزول کیے جانے کے بعد جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن فوجی جنتا کے سابقہ ​​دور میں انہوں نے اپنی نظر بندی کے کئی سال اسی تاریخی اور مہنگی رہائش گاہ میں گزارے تھے۔

رہائشی عمارت کی تاریخی اہمیت

طویل قانونی جھگڑے کے بعد سوچی کے بھائی نے اس بنگلے کے آدھے حصے کے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔

اس حویلی کی فروخت کی نگرانی فوجی جنتا کے مقرر کردہ اہلکار کر رہے ہیں اور سوچی اس نیلامی سے ہونے والی آمدنی کے نصف کی حقدار ہیں۔

سوچی نے اپنی نظربندی کے دوران یونیورسٹی ایوینیو روڈ پر واقع اس بنگلے کے گیٹ کے قریب سے کئی مرتبہ تقریریں کی تھیں۔ جمہوریت اور پرامن مزاحمت کے حوالے سے ان کی تقریروں کو سننے کے لیے سینکڑوں لوگ اس بنگلے کے پاس جمع ہوتے تھے۔

جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کے بعد سن دو ہزار دس میں سوچی ملک رہنما منتخب ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنی قیادت میں بننے والی نئی لیکن سویلین حکومت کو ابتدا میں نوآبادیاتی دور میں تعمیر کردہ اسی عمارت سے چلایا تھا۔

ملک میں جمہوریت کے قیام کے بعد کے برسوں میں اس تاریخی عمارت میں باراک اوباما اور ہلیری کلنٹن سمیت متعدد سرکردہ غیر ملکی رہنماؤں اور مہمانوں کی میزبانی کی گئی تھی۔

سوچی اب بھی جیل میں

جب سے میانمار میں فوج نے سوچی سے اقتدارچھینا ہے، انہیں دارالحکومت نیپیداو میں ایسے الزامات کے تحت جیل میں بند رکھا جا رہا ہے، جنہیں ناقدین مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سوچی کو سیاست سے ہٹانے کے لیے لگائے گئے تھے۔

ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ ینگون کے مہنگے ترین علاقوں میں اتنی بڑی غیر منقولہ جائیدادیں فی کس ایک ملین ڈالر سے لے کر دو ملین ڈالر تک میں مل سکتی ہیں۔

میانمار کی معیشت فوجی بغاوت کی وجہ سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد، یہ واضح نہیں کہ اس ملک ملک میں اب کون اس پوزیشن میں ہو گا کہ وہ ایک خستہ حال بنگلے کو خریدنے کے لیے 128 ملین ڈالر خرچ کرے۔

سوچی کی اسے رہائش گاہ کو پہلی بار مارچ 2024 میں 150 ملین امریکی ڈالر کے عوض فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے تین نیلامیوں میں سے ہر ایک میں بتدریج قیمت میں کمی کی جاتی رہی تھی۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا ادویہ سازی میں چین سے ٹیکنالوجی منتقلی کی ضرورت پر زور
  • ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وزیر خزانہ
  • متوسط طبقے کی خاموش اذیت
  • رانا ثنا اللہ سے امریکی عہدیدار کی ملاقات، علاقائی سلامتی اور اسٹریٹجک مفادات سے متعلق بات چیت۔
  • میانمار میں سوچی کے تاریخی بنگلے کی نیلامی چوتھی بار ناکام
  • غیر ملکی سرمایہ کاروں کا چین کے اقتصادی “انجن” کے کردار پر بھرپور اعتماد
  • مریم نواز کا بڑا اعلان، پنجاب کے 59 شہروں میں ترقیاتی منصوبے شروع
  • امداد میں کمی اور تجارتی تناؤ کثیر فریقی نظام پر سوالیہ نشان، گوتیرش
  • چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام آباد کا سیکٹرآئی 12کا اچانک دورہ، ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا