میڈیا کیساتھ انٹرویو میں ایک فلسطینی ماں نے بھوک سے نڈھال بچوں کیلئے ذرہ سی خوراک حاصل کرنیکی خاطر اپنی "روزانہ کی جدوجہد" سے پردہ اٹھایا ہے! اسلام ٹائمز۔ ایک فلسطینی ماں جسے اپنی 2 بچوں کو کھانا کھلانے کے لئے غزہ میں قائم "موت کے پھندے" (GHF - The Death Trap) نامی امداد کے تقسیم کے مراکز کا روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے، نے اس سفر کو "موت کا سفر" قرار دیتے ہوئے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ مجھے "ذرہ سی امداد" پر مبنی اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے ہر موڑ پر خود کو "شدید بھیڑ" میں جھونکنا پڑتا ہے کیونکہ "میرا کوئی باقی نہیں بچا" لہذا مجھے خود ہی کھانا لینے کیلئے بچوں کو تنہاء چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔
اس فلسطینی ماں نے امداد حاصل کرنے کے عمل کو "مکمل طور پر پرتشدد تنازعہ" قرار دیا کہ جس میں صرف وہی لوگ کچھ لے کر واپس آ سکتے ہیں جو شدید ہجوم کے اندر جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ فلسطینی ماں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مراکز میں ایسے لا تعداد بچے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جو کھانا حاصل کرنے کے لئے سخت تگ و دو کے بعد وہاں پہنچنے میاں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن پھر اچانک ہی دوسرے مرد ان سے کھانا چھین لینے کے لئے وہاں آ دھمکتے ہیں! فلسطینی ماں نے کہا کہ آخری مرتبہ جب وہ "امداد کے حصول" میں کامیاب ہوئی تھی تب اس نے مٹھی بھر چاول اور تیل و ٹومیٹو پیسٹ کے ایک ڈبہ کو سختی کے ساتھ دبوچ کر امدادی اسٹیشن ترک کیا تھا درحالیکہ متلاطم ہجوم کے شدید دباؤ میں اس کے ہاتھ زخمی ہو چکے تھے۔ اپنی بات کے آخر میں اس فلسطینی ماں نے گہرا سانس لیتے ہوئے مزید کہا کہ تاہم، "یہ بھی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے"!
واضح رہے کہ غزہ کی پٹی کے 20 لاکھ محصور عوام کے خلاف انسانیت سوز صیہونی جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے عمل کو اسرائیل کی جانب سے شدید پابندیوں کا سامنا ہے جس کے بارے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک ایسی حالت میں کہ جب امدادی سامان کے حامل سینکڑوں ٹرک روزانہ کی بنیاد پر غزہ میں داخل ہونے کے لئے سرحدی گزرگاہوں کے باہر دسیوں گھنٹے تیار کھڑے رہتے ہیں لیکن صیہونی فوج کی جانب سے انہیں غزہ کی پٹی میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی، امریکہ و اسرائیل کے زیر انتظام نام نہاد غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کی جانب سے غزہ کی روزانہ خوراک کی ضروریات کا 20 فیصد بھی مہیا نہیں کیا جاتا۔ رپورٹ کے مطابق یہ ذرہ بھر امداد بھی ایک ایسے انداز میں دی جاتی ہے کہ جس کے باعث گذشتہ صرف چند ہفتوں کے دوران ہی ان مراکز میں 1 ہزار 3 سو سے زائد فلسطینی شہریوں کو براہ راست فائرنگ کے ذریعے قتل اور ہزاروں کو زخمی کیا جا چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان نام نہاد امدادی مراکز کو غزہ کی عوام نے "مصائد الموت" (موت کے پھندے) اور عالمی میڈیا نے "The Death Trap" کا نام دے رکھا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ماں نے کے لئے غزہ کی
پڑھیں:
صیہونی دشمن کا پورا انحصار امریکہ پر ہے، قائد انصاراللہ یمن
انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ پر صیہونی جارحیت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی رژیم امریکہ کے بل بوتے پر غزہ میں جنگی جرائم اور انسان سوز مظالم انجام دینے میں مصروف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا ہے کہ غزہ کے بچے مظلومیت کی علامت بن چکے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کے حق میں نکلنے والی عظیم ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: صیہونی دشمن نے اس ہفتے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان کیا اور اسی دوران اس نے 4 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بھی کیا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی اکثریت انسانی امداد دریافت کرنے کے لیے اس مرکز میں جمع تھے جو خود اسرائیل نے ہی قائم کیا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے غزہ میں آسمان کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی کو صیہونی دشمن کی جانب سے ایک اور دھوکہ قرار دیا اور کہا: "انسانی امداد آسمان کے ذریعے پھینکنے کا کوئی جواز نہیں پایا جاتا۔ اس کا مقصد غزہ کے فلسطینیوں کی تحقیر کرنا اور ان کا وقار مجروح کرنا ہے۔" انہوں نے کہا کہ زمینی راستے سے بہت آسانی سے غزہ میں فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کی جا سکتی ہے اور اس کا انتظام بھی اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا: "کسی کو صیہونی رژیم کی جانب سے انسانی امداد کی بنیاد پر جنگ بندی یا آسمان کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ دنیا کے مشرق اور مغرب میں اکثر ممالک نے صیہونی دشمن کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ اور جرمنی سمیت کچھ یورپی ممالک میں فلسطین کے حامیوں کو شدید انداز میں کچلا جا رہا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا: "صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا جائز نہیں رہا لیکن صرف تنقید کرنا اور بیانیے جاری کرنا بھی کافی نہیں ہے بلکہ سب کو مل کر صیہونی دشمن کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسرائیلی حکمرانوں کا انحصار پوری طرح امریکہ پر ہے اور وہ عالمی سطح پر ہونے والی تنقید اور اعتراض کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔" دوسری طرف عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور اس نے غاصب صیہونی رژیم کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ صیہونی رژیم کی کوشش ہے کہ وہ ظاہری اقدامات کے ذریعے فیس سیونگ کرے لیکن اسے ناکامی کا سامنا ہے۔
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا: "امریکہ نے فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے جانے کے بارے میں واضح موقف اپنا رکھا ہے اور ٹرمپ وہ شخص ہے جس نے شام کی گولان ہائٹس اسرائیل کو تحفے میں دے دی ہیں، گویا اس کے باپ کی جاگیر تھی۔ امریکہ خود بھی اسرائیلی اور برطانوی حکمرانوں کی طرح صیہونزم کی ایک شاخ ہے اور اس نے بیان اور عمل کے ذریعے اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے۔" سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یورپی حکمرانوں کے موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: "یورپی حکمرانوں کا موقف سراب پر استوار ہے اور وہ فلسطین کا جو تصور پیش کرتے ہیں وہ فلسطینی سرزمین کا بہت ہی چھوٹے سے حصے پر مشتمل ہے اور ایک ریاست کے بنیادی عناصر سے محروم ہے۔" انہوں نے برطانیہ اور فرانس کی جانب سے "فلسطینی ریاست" تسلیم کیے جانے پر مبنی بیان کے بارے میں کہا: "فلسطین میں اسرائیلی مظالم انتہائی شدید ہیں اور مغربی دنیا اس پر شرمسار ہے کیونکہ اس کا بھروسہ ہمیشہ سے قوموں کو دھوکہ دینے پر رہا ہے۔ برطانیہ کہتا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا لیکن ساتھ ہی صیہونیوں کو مختلف قسم کا اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی صیہونی دشمن کے بھرپور حامی ہیں۔ یہ واضح تضاد ہے۔"